کالمز

آدم زادہ  اور   غلاموس

ہم نے ادب کی کتابوں میں یہ دیکھا ہے کہ اچھے لکھنے والے وہ ہوتے ہیں جن میں کھرا پن ہو ۔ سچ  کڑوا ضرور ہے لیکن سچ سچ ہے ۔  پچھلے دنوں   ’’ آدم زادہ ‘‘  کے عنوان سے شیر ولی خان اسیر ؔ صاحب کا ایک  جاندار مضمون چھپا ۔ مضمون پڑھنے سے معلوم ہوا کہ خیالات کی  روانی کا منبع لکھاری کا دل تھا ۔ اور دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔ مضمون کو پڑھتے ہوئے تحریر کا ہر لفظ اپنے مجموعی مطالب اور مفاہیم کے ساتھ دل  پر کچھ اس ادا سے  اُترتا رہا       کہ جان میں جان آئی ۔ ایک  ایسا خیال  جو کہ برسوں سے  دل میں اُچھلتا رہا  تھا  آج  اُسے ایک راستہ مل گیا۔سچ تو یہ ہے مجھے  قلم کو چھوڑے   عرصہ  گزرا تھا ۔  کچھ واقعات اور حادثات  زندگی میں ایسے واقع ہو جاتے ہیں کہ انسان کی صلاحیتیں تاخت و تاراج ہوتی ہیں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک حادثہ پیش آیا تھا   ۔ میرے ماموں زاد بھائی  سلمان ذین العابدین جہاز کے ایک الم ناک حادثے میں شہید ہوئے تو جھٹکا اتنا زوردار لگا کہ لکھنے پڑھنے کی صلاحیت مدہم پڑ گئی ۔

 میں آج  اسیر ؔ صاحب کا احسان مند ہوں کہ آپ کے مضمون کی وجہ سے مجھے قلم اُٹھانے کی ہمت ملی ۔  مضمون نگار کے مطابق  آدم زادہ اور بد ذات کے اصطلاحات تغیر زمانہ سے  بدلتے رہتے ہیں ۔  جناب کے مضمون سے ہم نے یہ معنی اخذ کیا کہ  لوگ حکما کی قرابت داری یا  حلقہ  محکومی کی مناسبت سے آدم زاد یا  پھر بد ذات کی پہچان ہوتی ہے( یاد رہے کہ حاکمیت اور محکومیت  کا تعلق ذات سے نہیں  ہے ) ۔ یہ خیال یا یہ نظریہ قرین قیاس ہے کیوں کہ آج بھی وہ آدمی  قابل تکریم ہے جو صاحب اقتدار ہے ، جس کے پاس دولت ہے ۔ یہاں یہ سوال کوئی معنی نہیں رکھتا  کہ   اس عزت  کا وسیلہ بننے والی  دولت کن ذرائع سے حاصل ہوئی ہے ۔ فاضل مضمون نگار نے اگرچہ پردے  کے اندر وہ  تمام باتیں بیاں کی ہیں  جن کا تعلق سچائی اور حقیقت سے ہے  تاہم  مزے کی بات یہ ہے کہ ہم ان باتوں کو اپنے انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

مشکل یہ ہے کہ مضمون نگار صرف نثر نگار ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ شاعر بھی ہیں  شاید یہی وجہ ہے کہ  آپ کی باتیں  ایک ہی وقت میں  ہزار پردوں میں لپٹی ہوئیں  اور کہیں  گہرے نہاں  خانوں میں  آشکار ہ نظر آتی ہیں۔  تاہم ایک نتیجہ ہم سب پر واضح ہے کہ  انسان  ہمیشہ سے انسان ہے  اور انسان رہے گا اور ذات پات اپنی اپنی دکانوں کو چلانے کے بے بنیاد حربوں کے سوا کچھ اور نہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  میں آپ کا جیسا انسان ہوں میں دوسری ذات کا کیسے ہو سکتا ہوں   یا میر ی ذات بد کیسے ہو سکتی ہے ۔ میں کون ہوتا ہوں جو آپ کے بارے میں اتنی بڑی بات کہکر ہضم کروں  اور آپ کون ہوتے ہیں جو میرے بارے میں اتنی موٹی باتیں کریں ۔    ہم قبیلوں میں ضرور تقسیم ہیں لیکن اس کا مطلب یہ  تو نہیں کہ ہم ذات پات کے معاملے میں ایک دوسرے سے  بد تر یا عظیم تر ہیں ۔  یہ معاملہ شاید ہندوں کے یہاں درست ہے  لیکن مسلمانوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی موضوع ایک اور محفل میں چھڑ گئی تو تمام شرکائے محفل نے اپنی سمجھ کے مطابق لفط  آدم زادہ اور غلاموس پر  اپنی ذہنی بساط کے  مطابق اپنی باتیں کیں اور اپنے اپنے نظریات پیش کئے  ۔ ایک معمر شخص نے کہا ’’ آپ سب کی باتیں اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں لیکن میری رائے یہ ہے کہ  ہر نسل میں غلاموس  لوگ پائے جاتے ہیں( جیسے اسیر صاحب نے بھی اپنے  مضمون میں ایسا ہی نظریہ پیش کیا ہے]      میں    لفظ غلاموس قبیلوں  یا نسل کے لئے استعمال نہیں ہوتا  بلکہ اس کا تعلق فرد یا افراد سے ہے   ‘‘   پھر انہوں نے اس بات کی تشریح یوں کی’’ غلاموس فارسی لفظ ’’ غلط آموز ‘‘ سے ماخوز ہے جس کا مطلب ہے غلط طریقے سے تربیت یافتہ انسان۔  یہ لوگ عجیب ہیں، بغیر سوچ سمجھ اور تحقیق کے بولتے رہتے ہیں ‘‘  اس معمر شخص کی ان باتوں میں بڑا وزن تھا ۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ لوگ آج  کل کے مٹھی بھر دنیا میں اپنے آپ کو ایک دوسرے سے الگ اور برتر سمجھے کی کوشش کرتے ہیں ۔

حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ وہ کمزور لوگ ہیں جو خود کسی کام کے قابل نہیں ہوتے البتہ  اپنے کسی جد امجد کے کارناموں  پر تکیہ کئے ہوئے ہیں ۔ دوسرے لوگوں کو  بد ذات، غلاموس  اور رعیت  کے طعنے دیتے رہتے ہیں ۔کوئی ہو جو اپنے آپ کو ارفع و اعلی  سمجھے والوں کو بتائے کہ  نسلی طور پر اعلی اور ارفع   ہونے کے اصطلاحات ، کتے ، بلی ، گائے ، اور  اس طرح کے جانوروں کے لئے  استعال ہوتے ہیں انسان کی اگر کوئی نسل ہے تو وہ آدم زاد ہی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button