کالمز

ایر ک پرنس اور اُسامہ 

ایرک پرنس ، ویلیم لیکس ، شہزادہ ترکی بن فیصل اور اُسامہ کے نام ایک بار پھر اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ یہ چوہے اور بلی کے کھیل کا حصہ ہے اور ہم ایسی خبروں کے عادی ہوچکے ہیں مگرمقطع ، میں سُخن گسترانہ بات اُس وقت آجاتی ہے جب ہمارے سیاستدان ان خبروں کا حصہ بنتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے ا ہم رہنما حسین حقانی نے امریکہ کے موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھ کر ٹرمپ انتظامیہ پر احسان جتا یا کہ اُسامہ کو مارنے کے لئے 52 ہزار امریکی اہلکاروں کو میں نے ویز ہ دیا اس پر بحث شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حسین حقانی نے جھوٹ بولا ہے اُسامہ کو مارنے والے ویز ہ لیکر نہیں آئے تھے اس بیان پر جتنا سر اور سینہ پیٹا جائے کم ہے۔

تاہم ہمارے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے فہم و فراست کا تھوڑا سا مظاہر ہ کر تے ہوئے بیان دیا ہے کہ اُسامہ کا افغانستان اور پاکستان میں داخل ہو نا امریکہ اور سعودی عرب کی حکومت کے کرتوتوں میں شامل ہے اُسامہ ان لوگوں میں سے تھا جس کو امریکہ اور سعودی عرب نے مجا ہد بنا کر خطے میں لایا پھر پاکستان اور افغانستان پر حملے کے لئے اُس کو دہشت گرد قرار دیا خواجہ محمد آصف پر کبھی کبھی سچ بولنے کا دورہ پڑتا ہے مگر جب اُن پردورہ پڑتا ہے تو آدھا سچ بول کر چپ ہوجاتے ہیں اگر وہ پوری سچ بولتے تو اپنی بات پوری کرلیتے کہ اُسامہ اکتوبر 2006 میں مرچکا تھا وزیرستا ن کے ساتھ متصل افغان سرحد پر غلام خان کے قریب ان کورات کی تاریکی میں دفنایا گیا فرانسیسی اخبار نویس نے خبر چلا دی مگر اُس خبر کو دبا دیا گیا 5 سال بعد 2 مئی2011 کو ایبٹ اباد کمپاونڈ کا ڈرامہ رچا یا گیا مگر جھوٹ کے پاؤ ں کہاں ؟ اُسامہ کی لاش برآمد نہ ہوسکی سری لنکا کی چھوٹی سی حکومت نے تامل ٹائیگر ز کے لیڈر اور باغیوں کے سرغنہ پر بھا کرن کو مارا تو اس کی لاش 5 دنوں تک اخباری نمائیندوں کو دکھائی گئی دُنیا بھرکے اخبارات نے اُس کی تصویر یں بنائیں امریکہ نے کہا کہ اُسامہ کی لاش کو ہم نے سمندر میں پھینک دیا ہے 2003  سے 2006  تک 3سال اُسامہ گردوں کی بیماری میں مبتلا رہا اُس کا ڈائیلا سنر ہوتا تھا لاہور اور کراچی کے 3 ڈاکٹر وں کو امریکیوں نے اُس جرم میں پکڑا کہ وہ افغانستان جا کر اُسامہ کا علاج کرتے تھے مگر خواجہ آصف پوری بات کرنے کی جرا ت بھی نہیں کرسکتے تھے اگلے دن ان کو کابینہ سے فارغ کیا جاتا یا ان کو اپنی بات واپس لینے پر مجبو ر کیا جاتا اس لئے خواجہ آصف نے آدھا سچ اگل دیا اور بقیہ آدھا سچ سر پھروں کے لئے چھوڑدیا۔

ماسکو اور پیر س کے صحافیوں نے اُسامہ بن لادن کا جو پروفائل جاری کیا تھا وہ بڑا دلچسپ ہے اُن کا تعلق بن لادن فیملی سے تھا مگر وہ بن لادن نامی تعمیر اتی کمپنی کے مالک کا رشتہ دار نہیں تھا اُس کا باپ غریب آدمی تھا اُس کی ماں کو طلاق ہوچکی تھی اور اُ س کی مناسب تعلیم بھی نہیں ہوئی تھی شہزادہ ترکی الفیصل اور ویلیم لیکس کو ایسے لڑکے کی تلاش تھی جس کو تربیت دے کر سوڈان ، صومالیہ ،پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے مشن پر لگا دیاجائے اُسامہ اور عبداللہ عزام ان کے ہاتھ آگئے دوسرے لڑکوں کے ساتھ ان دونوں کو امریکی ریاست فلوریڈا لے جا یا گیا ان کو تربیت دی گئی بے پناہ دولت دی گئی اسلحہ دیا گیا عبداللہ عزام کو پاکستان بھیجا گیا ،اُسامہ کو سوڈان اورصومالیہ کا مشن دید یا گیا اُسامہ نے اس دوران تین شادیاں کیں ایک بیوی کو امریکہ میں رکھا دوسری بیوی کو سعودی عرب میں رکھا تیسری بیوی اُ ن کے ساتھ پاکستان آگئی پھر عبداللہ عزام منحرف ہو گیا تو اُسامہ بن لادن کے ذریعے پشاور کی نواحی بستی میں آٹھ ساتھیوں سمیت ان کو قتل کروایا گیا اُسامہ نے امریکیوں کے لئے پاکستان اور افغانستان پر حملوں کی راہ ہموار کی پھر مشن کی تکمیل کے بعد اُسامہ کودہشت گرد قراردیا گیا بقول شعیب بن عزیز ’’ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ‘‘۔

دہشت گر د قرار دینا بھی سکرپٹ میں لکھا ہوا تھا امریکہ نے اُسامہ کے سر سے ہاتھ اُٹھالیاتو وہ غاروں میں5 سالوں تک چھپتا رہا گردے فیل ہونے کہ وجہ سے اکتوبر 2006  میں ان کی طبی موت واقع ہوئی 2007  ہی میں ایر ک پرنس نے چترال میں اُسامہ کمپا و نڈ پر کام شروع کیا تھا مگر فروری کے مہینے میں راز فاش ہوا چنانچہ چترال کمپا ونڈ واپس کیا گیا۔

پھر ایرک پرنس نے نامعلوم لوگوں کے ذریعے ایبٹ اباد میں کمپاونڈ حاصل کیا حسین حقانی اور شکیل افریدی اس ڈرامے کے دو کردار ہیں ایرک پرنس بھی زندہ ہے ان کی بہن ٹرمپ کی کابینہ میں وزیر تعلیم ہے۔ بلیک واٹر ،زی ورلڈ وائلڈ اور ڈینکو ر نامی دہشت گرد ایجنسیاں ایرک پرنس کے کاروبار میں شامل ہیں وہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں سرمایہ لگا تا ہے اوبامہ کی دونوں مہموں پر اُس نے سر مایہ لگا یا تھا ٹرمپ انتظامیہ میں اُس کا فعال کردار ہے اس لئے حسین حقانی امریکہ کی نئی حکومت پر اپنے پرانے احسانات جتا کر مزید فوائد سمیٹنا چاہتا ہے۔

پاکستان کی بد قسمتی لیاقت علی خان کے د ورہ امریکہ سے شروع ہوئی فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں امریکیوں کوفری ہینڈ مل گیا جنرل ضیا ء الحق کے دور میں 80 ہزار امریکیوں نے پاکستان میں ڈیرے ڈال دئیے ورسک ، غازی ، لدھا ، جیکب اباد اور 43 دیگر مقامات پر اُن کو چھا ونیاں بنا کر دی گئیں۔

بقول شاعر

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button