کالمز

پرنسپل ڈگری کالج چلاس قاری عطاء اللہ خان کی خدمات پر ایک نظر

دیانتداری ،پیار محبت،خلوص اور فرض شناسی ایسی انسانی صفات ہیں جو اگر کسی میں موجود ہوں تو اُس کی قدر واحترام کرنے پر لوگ مجبور ہوجاتے ہیں ۔ایسے ہی صفات کی حامل گلگت بلتستان کے ایک پسماندہ ضلع دیامر میں ڈگری کالج چلاس کے پرنسپل اپنی ملازمت کے33سال مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے تو اُن کی ریٹائرمنٹ کی تقریب پوری گلگت بلتستان کے کالجز کے پرنسپلز اور اساتذہ کیلئے کیلئے ایک مثال بن گئی ۔ڈگری کالج چلاس میں کالج کے طلبہ ،کالج سٹاف ،لیکچررز اور پروفیسرز صاحبان نے منفرد انداز میں الوداع کہا۔ڈگری کالج چلاس کے اساتذہ اور طلبہ کی طرف سے پرنسپل قاری عطاء اللہ خان کے اعزاز میں منعقدہ الگ لگ تقاریب میں کالج کے طلبہ اور اساتذہ نے پرنسپل قاری عطاء اللہ خان کی کالج کی تعمیر کیلئے اُٹھائے جانے والے اقدامات اور علمی خدمات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پرنسپل قاری عطاء اللہ کی دیانتدرانہ تعلیمی خدمات کے نتیجے میں آج مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اُس کے شاگرد مصروف عمل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اُستاد کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا اور قاری عطاء اللہ خان جیسے عالم دین اُستاد تو لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں ،کیونکہ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں کماحقہ ادا کی ہیں ،جس کا ثبوت یہ ہے ک اُن کے سینکڑوں شاگرد آج گلگت بلتستان میں تعلیم سے بہراور ہوچکے ہیں اور اہم عہدوں پر فائض ہیں ۔ تقریب میں سبکدوش ہونے والے ڈگری کالج چلاس کے پرنسپل قاری عطاء اللہ خان نے تمام اساتذہ اور کالج کے طلبہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دیامر کے عوام نے بہت عزت دی 13سال چلاس میں گزارے لیکن آج تک کوئی مشکل کا سامنا نہیں ہوا ،کالج کی تعمیر اورطلبہ کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں عوام اور کالج کے اساتذہ نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور کہا کہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق زمہ داریاں پوری کرنے کی ہرممکن کوشیش کی ہے ،اگر اُس کے باوجود کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو وہ اپنے پروردگار اوراپنی قوم سے معافی کے طلبگار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ اللہ تعالی کی مہربانی ہے کہ چلاس کالج کی تعمیر کیلئے اللہ تعالی نے ان سے کام لیا اور آج چلاس کالج کی بدلتی ہوئی صورت حال اور طلبہ میں آنے والی مثبت تبدیلوں پر فخر ہوتا ہے۔ ڈگری کالج چلاس میں الگ الگ تقاریب میں کالج کے اساتذہ اور طلبہ نے پرنسپل قاری عطاء اللہ خان کو روائتی چوغے ،ٹوپیاں اور ہار بھی پہنا ئے اور اُن کے اعزاز میں خصوصی ظہرانے کا بھی اہتمام کیا اور شاندار طریقے سے قاری عطاء اللہ خان کو رخصت کیا ۔اُستاد محترم و پرنسپل قاری عطاء اللہ خان نے گلگت بلتستان کا علاقہ ضلع گلگت مناورمیں انکھ کھولی اور 1984میں لیکچرر بھرتے ہوئے اور بحثیت اُستاد 1984سے لیکر 2005تک درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہ کر قوم کے معماروں کو علم کی روشنی سے منور کرتا رہا۔ 2006 میں پہلی مرتبہ قاری عطاء اللہ خان بحثیت پرنسپل ڈگری کالج چلاس تعینات ہوگئے تو اُس وقت چلاس کالج کی حالت انتہائی دگرگوں اور ناگفتہ بہ تھی،ایسے حالات میں قاری عطاء اللہ خان نے دن رات ایک کرکے چلاس کالج کی حالت بدلنے کی حتی المقدور کوشیش کی جس کا نہ صرف پورا دیامر گواہ ہے بلکہ بند ناچیز بھی پرنسپل قاری عطاء اللہ خان کے ڈگری کالج کیلئے اُٹھائے جانے والے انقلابی اقدامات کا عینی شاہد ہے۔ 2010میں جب راقم نے میٹرک پاس کرکے ڈگری کالج چلاس میں داخلہ لیا تو کالج میں ہر قسم کی سہولیات کی کمی تھی کالج میں بیٹھنے کیلئے کرسیاں نہیں تھیں ،رفع حاجت کیلئے باتھ رومز نہیں تھے، پینے کیلئے پانی نہیں تھا تو پڑھنے کیلئے کالج لائبریری میں کتابیں مہیا نہیں تھی پڑھانے کیلئے اساتذہ کی کمی تھی تو دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبہ کو ہاسٹل کا مسلہ درپیش تھا ۔کالج میں ہر طرف آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا اور طلبہ سراپا احتجاج تھے ۔علاقے کے منتخب عوامی نمائندے خواب خرگوش کے نیند سوئے ہوئے تھے کالج کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ایسے مخدوش حالات میں کالج کے طلبہ کے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے پرنسپل قاری عطاء اللہ مزید خاموش نہیں رہ سکے اور کالج کے اجتماعی مسائل کے حل کیلئے خود میدان میں کود پڑے۔2010سے لیکر2012تک کالج کے طلبہ نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے پرنسپل قاری عطاء اللہ خان اور پروفیسر محمد بلال جو آج کل بسین کالج کے پرنسپل ہیں کا ساتھ دیا اور پرنسپل قاری عطاء اللہ خان نے پروفیسر بلال کے ساتھ مل کر کالج کے طلبہ کی تمام مسائل حل کر نے کیلئے آگے بڑھے ۔پرنسپل قاری عطاء اللہ نے سب سے پہلے کالج میں اساتذہ کی کمی کو پورا کیا اور اُن اساتذہ کو چلاس آنے پر مجبور کر دیا جو چلاس کالج کے نام پر تنخواہیں لے کر دیگر اضلاع میں ڈیوٹی دے رہے تھے یا پھر گھر بیٹھ کر تنخواہیں کھا رہے ہوتے تھے ، کالج میں فرنیچر کی کمی کو بھی پورا کر دیا اور کالج کی لائبریری میں جدید کتابیں منگوا کر طلبہ کو سٹڈی کرنے کا ماحول فراہم کر دیا ،جو اُس کے دور سے پہلے کبھی ممکن نہیں ہوا تھا ۔اس کے علاوہ پرنسپل قاری عطاء اللہ خان نے وہ کام بھی کر دیکھایا جو ایک منتخب عوامی نمائندے کو کرنا چاہے تھا ،منتخب عوامی نمائندوں کی غفلت لاپرواہی اور کوتاہی کی وجہ سے التوا کا شکار ہونے والے کالج کے تعمیراتی کاموں پرپرنسپل قاری عطاء اللہ نے اپنی ذاتی کوشیشوں سے پہلی دفعہ کام کا آغاز کروا دیا اور سخت جدوجہد کے بعد کم عرصے میں کالج کا پی سی ون تیار کرکے تقریباں 7کروڑ روپے کالج کی تعمیراتی کاموں کیلئے منظور کروایا ،جس سے کالج کا ہاسٹل تعمیر کیا گیا اور آج تقریباں ایک سو سے زائد طلبہ کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوسکتے ہیں اور دیامر کے دور دراز علاقوں داریل تانگیر ،تھک نیاٹ،گوہرآباد اور تھور سے آنے والے طلبہ کو اب چلاس میں کرائے پر فلیٹ یا روم لے کربیٹھنے کی ضرورت نہیں ۔اس کے علاوہ کالج کے لیکچررزاور پروفیسروں کیلئے رہائشی کالونی تعمیر کروایا اور اب گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع سے چلاس آکر ڈیوٹی دینے والے پروفیسروں کیلئے رہائش کا کوئی مسلہ درپیش نہیں ہے ،ماضی میں لیکچرز اور پروفیسروں کیلئے رہائش کا مسلہ درپیش ہونے کی وجہ سے چلاس آکر ڈیوٹی نہیں دے پاتے تھے لیکن اب اساتذہ کیلئے رہائش کا مسلہ بھی حل کر دیا گیا ہے۔ماضی میں کالج کی چاردیواری نہ ہونے کی وجہ سے کالج مکمل طور پر غیر محفوظ تھا ،پرنسپل قاری عطاء اللہ کی کوشیشوں سے کالج کی وال باونڈری تعمیر کرکے کالج کو محفوظ بنایا گیا اور اب کالج مال مویشی کے باڑے سے کالج کی اصلی روپ میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ پرنسپل قاری عطاء اللہ چلاس کالج کیلئے 164کنال اراضی الاٹ کروانے میں کامیاب ہوئے اور اس وقت 164کنال زمین کالج کی زیر تصرف ہے اور اس کے علاوہ کالج کے طلبہ کیلئے ایک بس دلادی ،لیباٹری اور کلاس رومز بھی بنوائے اور ساتھ ساتھ ایک مسجد اور پانی کی ٹینکی کا مسلہ بھی حل کر دیا ۔پرنسپل کالج قاری عطاء اللہ نے طلبہ اور اساتذہ کو اپنے دور میں کیش ایوارڈ سے بھی نوازا اور وقت پر کالج ٹور اور سپورٹ ویک کا اہتمام کرکے طلبہ کا دل جیت لیا اور ساتھ ساتھ ڈگری کالج چلاس کے طلبہ کیلئے ایک کرکٹ اور ایک فٹ بال گرونڈ بھی پی سی ون میں رکھوادیا ہے اور ایک ایڈمن بلاک بھی تعمیر کیا جارہا ہے اور حال ہی میں پرنسپل نے کالج کی ریپرئنگ کیلئے 5لاکھ روپے منظور کروادیا ہے ۔پرنسپل قاری عطاء اللہ کے ان انقلابی اقدامات کی وجہ سے آج ڈگری کالج کے طلبہ ان کے خدمات کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ قاری عطاء اللہ خان نے بحثیت پرنسپل تقریباں 8سال چلاس کالج میں گزارے، 2006سے لیکر 2012تک اور پھر 2016سے ۴ اپریل 2017تک ڈگری کالج چلاس میں پرنسپل کی حثیت سے کام کرتا رہا اور کالج کی تعمیری اور علمی بہتری کیلئے جوجو انقلابی اقدامات اورخدمات سرانجام دیئے دیامر کی عوام اور نوجوان نسل ان کے خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے اور قاری عطاء اللہ کی کمی کو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے ۔میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی محترم پرنسپل کو لمبی عمر عطاء کرے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوشحال زندگی گزارنے کی توفیق نصیب کرے ۔(امین )

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button