تحریر: دیدار علی شاہ
گلگت بلتستان کی تاریخ مختلف ارتقا سے گزرتے ہوئے آج کے اس جدید دور میں قدم رکھا ہے اور یہاں پر مختلف نسل، مذہب اور فرقے کے لوگ بستے ہے ان کی اپنی ایک تاریخ،ثقافت ، رسم و رواج اور پہچان ہے۔دس اضلاع پر مشتمل یہ علاقہ ماضی میں مختلف جنگوں میں استعمال ہوتی رہی ہے اور ساتھ ساتھ سیاحوں کے لیئے بھی یہ علاقہ شروع ہی سے پُرکشش رہی ہے۔
موجودہ حالات میں گلگت بلتستان پہلے کی نسبت بہتر مگر بے جان سی ہے۔ بہتری کا عنصر اس لحاظ سے کہ ۱۹۴۸ سے لے کر آج تک مختلف ارتقائی ادوار سے گزرتے ہوئے حکومت اور غیر سرکاری اداروں کی دلچسپی اور محنت سے دور جدید کی طرف رجحان ہوئی ہیں ۔شاہرہ قراقرم اس علاقے کی ترقی میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ساتھ ساتھ اب چین پاکستان اکانامک کوریڈور CPECنے یہاں کے لوگوں میں ایک امید پیدا کی ہیں اور اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ نوجوان حضرات کاروبار کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔تاریخ بتاتی ہیں کہ گلگت بلتستان ماضی میں مختلف طاقتوں کے اثر سے اتار چڑھاؤ کا حصہ رہاہیں وجہ اس کی جغرافیائی پوزیشن ہیں اور آج تک یہ سلسلہ برقرار ہے ۔
شروع ہی سے اس علاقے میں مختلف ثقافت اور زبان بولنے والے رہتے ہے جس میں خاص کر شینا،بلتی، وخی،بروشسکی،کھواراور ڈوماکی شامل ہے ۔ ثقافتی طور پر اس علاقے میں واخان افغانستان ،تبت،لداخ، کشمیر وغیرہ کا اثر زیادہ رہی ہے اور زمانہ قدیم کے بدھ مت اور ہندومت کے کچھ آثار اور شواہد بھی اس علاقے میں موجود ہے ۔خصوصاً وسطی ایشاء سے تعلق رکھنے والے مختلف نسلی گروہوں کا مسکن رہاہے۔
اس علاقے کی ثقافت یہاں کی ارضی ساخت ،زراعت اور آب و ہوا کے لحاظ سے دیکھنے کو ملتے ہیں اور زیادہ پُرکشش اور پُراثر ہے ۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف مذاہب کے لوگ یہاں پر بستے رہے ہیں ۔اور مذہب اسلام بعد میں یہاں پر متعارف ہوے ان تمام مذاہب کے عقائد و روایات کے کچھ اثرات ابھی تک باقی ہیں ۔اور خاص کر مختلف تہواریہاں کی بودباش سے ملتی ہے جسے ہم یہاں کے پیشے،فنون،تجارت،مختلف تہوار،لباس،جمالیاتی پہلو،اور کہانیوں میں دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔
آج ہم اکسیویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہ دور علم اور سائنس کا ہے۔ جن ملکوں اور قوموں نے ترقی کی ہے ان کی بھی ثقافت ،رسم و رواج ،تہواراور عقائد ہے ،اور ہم گلگت بلتستان میں رہتے ہیں ہمارے بھی عقائد ،رسم و رواج مختلف تہواراور ثقافت ہیں اور ساتھ ساتھ علم کے میدان میں ابھی ہم نے قدم ہی رکھا ہے لیکن پوری طرح داخل نہیں ہوئے ہے۔
ثقافت یا کلچر اسے کہا جاسکتا ہے جس میں علوم اور اخلاقیات، عقائد اور مذہب، فنون اور ہنر، معاشرت اور معاملات، قانون ، رسم اور رواج اور وہ تمام عادتیں شامل ہے جسے انسان ایک معاشرے میں ایک رکن یا فرد کی حیثیت سے گزارتا ہے ۔
تقریباً تیس سال پہلے تک گلگت بلتستان کے لوگ غربت اور افلاس میں زندگی گزار رہے تھے۔ اور زندگی کافی مشکل سے گزر رہی تھی مگر لوگ یہاں پر ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاو رکھتے تھے مگر ترقی کے ساتھ ساتھ اب لوگ بدلے ہے حالات بدلے ہے اور زمانہ بھی بدلا ہے۔آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ یہاں کے لوگ ملک کے مختلف شہروں میں بھی رہنے لگے ہے ۔یہاں کے ثقافت،رسم و رواج، تہوار پوری دنیا میں منفرد اور پُر اثر ہے۔ اور دنیا کے مختلف سیاحوں اور لکھاریوں نے یہاں کے ثقافت ،رسم و رواج سے متاثر ہو کر مختلف کتابوں میں بھی لکھی گئی ہے ۔
گلگت بلتستان کے تمام اضلاع اور خصوصاً یہاں کے لوگ جو شہروں میں تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں رہتے ہیں کافی عرصے سے گلگت بلتستان کے کلچر کے نام پر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہے جو دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ ان کی نظر میں وہ لوگ یہاں کے کلچر کو وہاں کے لوگوں میں متعارف کروارہے ہیں اور مصروفیات کے اس دور میں آپس میں مل بیٹھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
اب توجہ طلب بات یہ ہے کہ گلگت بلتستاں کے دس اضلاع سمت شہروں میں کلچر کے نام پر جتنے پروگرامز منعقد کرتے ہے ان پروگراموں میں صرف ڈھول بجانا،ٹوپی پہننااور ناچ گانا شامل ہوتا ہیں ۔شاید ان کی نظر میں کلچر اسی کا نام ہے اور تو اور گلگت شہرمیں بھی یہی صورت حال ہیں سرکاری یا غیر سرکاری طور پر کلچرل شو منعقد کی جاتی ہے اس میں گلوکاروں کو بلایا جاتا ہیں ان سے گانا گنوا کر مہمانوں کو نچایا جاتا ہے اور ان مہمانوں کے ٹوپی کو ہزار ہزار کے نوٹوں سے سجایا جاتا ہے اور بس کلچر ل شو اختتام پذیر ہوتی ہے ۔افسوس کے ساتھ کہ یہاں کے کچھ اداروں اور لوگوں نے اپنے وقتی مفاد کی خاطر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی ہے کہ کلچرل شو یہی ہوتی ہے اور اسی طرح منعقد کی جاتی ہے ان موقع پرست اور ناسمجھ لوگوں نے یہاں کے کلچر کو ناچ گانا اور ٹوپی شاٹی تک محدود کر کے رکھا ہیں۔
یہ بات صیح ہے کہ کلچر وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔ اور یہ ضروری بھی ہیں کہ اسے بدلنا چاہیے اگر کوئی بھی قوم ترقی چاہتی ہے تو انھیں ان کے ثقافت میں موجود فرسودہ چیزوں کوچھوڑ کر اس کی جگہ وقت کہ ضرورت کے مطابق چیزوں کو جدیدیت سے قبول کرنا چاہیے کیونکہ معاشرے کے اندر تبدیلی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ مگر تبدیلی کایہ عمل اس معاشرے پرانحصار کرتا ہے کہ وہ معاشرہ اپنی ضرورت اور مطلب کی چیزوں کو کیسے قبول کرتا ہے اگر قبولیت کا رجحان زیادہ ہے تو یہ معاشرہ تیزی سے ترقی کرتا ہے اگر نہیں تو اس معاشرے میں ترقی کی رفتار سُست رہتی ہیں ۔
گلگت بلتستان کے لوگ خصوصاً نوجوان جو اس وقت گلگت بلتستان میں یا ملک کے دیگر حصوں میں رہتے ہیں، کو ناچ گانا اور ٹوپی شاٹی کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت اور رسم و رواج میں موجودلوگوں کے رویہ ،مزاج،انداز فکر،تربیت،قبولیت وغیرہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ساتھ ان آنے ولے نئی نسل کو ا علیٰ اقدار کے ساتھ تیار کرنے کی ضرورت ہے جنھوں نے آنے ولے کل کو سنبھالنا ہیں۔
سماجی طور پر پہلے کے گلگت بلتستان اور اب کے گلگت بلتستان میں زمین اور آسمان کا فرق ہیں اور یہ تبدیلی کے ساتھ انسانی مزاج میں فطری عمل ہیں۔ پہلے زمانے میں یہاں کے لوگوں میں نرم مزاجی، ایمانداری، ہمدردی، احترام،برداشت، اور رہن سہن ، طور طریقوں میںیہ اچھے خصوصیات پایا جاتا تھا مگر اب وہ صورت حال نہیں ہے ۔اب ضرورت اس بات کی ہیں کہ ان تمام پہلوں پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہیں جو کہ پہلے کھبی ہماری ثقافت اور رسم و رواج کا حصہ تھی ۔
اب دنیا بدل گئی ہے اور ضروریات بدل گیا ہے گلگت بلتستان کے نوجوان حضرات ترقی کرنا بھی چاہتے ہیں اور اپنی ثقافت میں موجود چند فرسودہ چیزوں کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ یہی ہیں کہ اپنی آنے والے کل کو آسان اور روشن بنانے کے لیے جدیدیت کو قبول کرنا ہی ہوگا مگر ہماری ضرورت اور حیثیت کے مطابق ہو۔آج کے نوجوان پر یہ فرض ہیں کہ ثقافت میں علوم اور فنون کو اعلی درجے تک پیہنچانا، تنگ نظری اور تعصب کو دور کرنا، بری چیزوں کی اصلاح کرنا، خودداری اور وفاداری پیدا کرنا، عادات اور اخلاقیات میں شائستگی لانا، لب و لحجہ میں نرمی ہو شامل ہے۔ اور بس آج کی دنیا علم اور سائنس کی ہیں علم کے میدان میں کچھ ایسا کام کریں کی وہ آنے والے وقتوں میں ان کی روایات بن جائے۔
ان نوجوان حضرات کو صیح راستہ دیکھانے کے لیے یہاں پر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے موجود ہیں۔ مگر ان کی اپنی ایک طور طریقہ ہے اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اس سلسلے میں ایک وزارت بھی موجود ہیں۔ اس کے زریعے سے بھی یہاں کے ثقافت کے حوالے سے بہت سارے کام کئے جاسکتے ہیں، شاید کام کرتا ہوگا ، حال ہی میں گلگت شہر میں ٹریفک پولیس کو ان کی روایتی ٹوپی کے بجائے یہاں کے ثقافتی ٹوپی دیا گیا ہیں ، اُن کے مطابق البتہ ایسا کرنے سے کلچر زندہ رہتا ہیں ۔۔۔ہائے کاش۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button