ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی ؔ
جمعیتہ العلمائے اسلام کے سو سال پورے ہونے پر پشاور کے قریب اضا خیل کے مقام پر لاکھوں علمائے کرام ،کارکنان اور شیدائیا نِ اسلام کا اجتماع ہوا اجتماع کا حاصل یہ ٹھہرا کہ اگلے الیکشن کے لئے علمائے کرام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک ہی جھنڈے تلے ایک ہی نشان پر انتخابات لڑینگے اس مقصد کیلئے آپس کی دشمنیوں ،رقابتوں اور اندرونی اختلافات کو ختم کیا جائے گا اجتماع کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ اس میں مختلف مکا تب فکر کے علماء کو دعوت دی گئی امریکی لابی نے اہل تشیع کی شرکت پر اعترا ض کیا مگم جمعیتہ العلمائے اسلام(ف)کی قیادت نے کمال بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی لابی کے اعتراضات کو مسترد کر دیا اور اہل تشیع کو کُھلے دل سے خو ش آمدید کہا اجتماع کے انتظامات کیلئے دولاکھ رضاکاروں کا فقید المثال انتظام تھا میڈیا کو لمحہ بہ لمحہ بریفنگ دی جاتی رہی پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا نے اجتماع کی کوریج میں بخل سے کام نہیں لیا اور اجتماع کی پوری روداد کو بلا کم و کاست شائع کیا جمعیت العلمائے اسلام کے امیر مولا نا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں دو با توں کی اہمیت پر بجا طور پر زور دیا پہلی بات یہ تھی کہ علماء امن کے علمبر دار ہیں دوسری بات یہ تھی اسلامی نظام کے نفاذ پر پاکستان کے مختلف مکاتب فکر میں کوئی اختلافات نہیں صد سالہ اجتما ع کے حوالے سے سوشل میڈیا میں ’’جتنے مہ اتنی باتیں ‘‘والا سلسلہ چل رہا ہے کسی کو امام کعبہ عبدالرحمن سدیس کے نہ آنے پر اعتراض ہے کسی کو مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ کرنے پر تحفظات ہیں ایک من چلے کا کہنا ہے کہ مولانا اسعد مدنی اور دیگر علمائے دیوبند بھارت میں سیکولرازم کو رحمت قرار دیکر سیکولر ازم کی حفاظت کیلئے جان، من ،تن دھن کی قربانی دینے کا عہد بار بار دہراتے ہیں پشاور آکر ان علماء نے سیکرلرازم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا عزم ظاہر کیا بقول سہیل وڑائچ ’’کیا یہ کھلا تضا د نہیں ‘‘بعض احبا ب نے فیس بک پر یہ بحث چھیڑی ہے کہ سعودی عرب کے عالم دین نے اضاخیل میں مسلمانوں کے اتفا ق و اتحاد کی ضرورت پرز ور دیا دوسری طرف سعودی عرب شام کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے یہ بھی کھلاتضاد نہیں تو کیا ہے؟ بعض اخبارنویسوں نے یہ نکتہ اُٹھایا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر احتجا ج گاہ تھا مگر مولانا سمیع الحق کو اجتماع میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ایسا کیوں ہوا ؟ ایک سینئر صحافی نے یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ جمعیتہ العلمائے ہند بنیادی طور پر گانگر یس کی حامی تھی اور پاکستان کی مخالف تھی جمعیتہ العلمائے اسلام کا صد سالہ اجتماع پاکستان میں منعقد ہونا اس با ت کا ثبو ت ہے کہ جمعیتہ العلمائے اسلام نے اپنے نامور اسلاف کے ’’اصولی موقف ‘‘سے رجوع کر لیا ہے اور توبہ تائب ہوکر مسلم لیگی رنگ اختیار کر چکے ہیں یہ جملہ ہائے معترضہ مختلف حوالوں سے وارد ہوئے اور ان کے جوابات بھی دئے گئے میں نے جمعیتہ العلمائے اسلام کے صد سالہ اجتماع سے دو اُمید یں وابستہ کی تھیں ایک اُمید یہ تھی کہ یہ اجتماع عالم اسلام کے اتحاد کا نقطہ آغاز ہوگا علامہ اقبال نے کہا ہے ۔
یہ ذکر نیم شی ،یہ مراقبے یہ سرور
تیر ی خودی کے نگہبان نہیں تو کچھ بھی نہیں
خودی کی نگہبانی کے لئے ہم نے امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کی گود میں پناہ لے رکھی ہے اور عالم اسلام کو موجودہ حالت میں عالمی سطح پر یا وطن عزیز پاکستان میں جو مسائل درپیش ہیں ان مسائل کی بنیادی وجہ یہی ہے امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کے گٹھہ جوڑنے مسلمانوں کے ہاتھوں سے قلم اور کتاب لیکر ان کے ہاتھوں میں بم اور بارود دیا ہے جب کوئی مولوی کا ذکر لے بیٹھتا ہے تو باقاعدہ سوال کیا جاتا ہے کہ موصوف درود والا مولوی ہے یا بارود والا مولوی ہے انیسویں صدی کے ٓاغاز میں علمانے سائنس کو کفر ،جمہوریت کو شرک اور مساوات کے تصور کو دہریت قرار دیا تھا علمائے دین سکولوں کے خلاف تھے کالجوں کے شدید مخالف تھے یونیورسٹی کو وہ کفر سمجھتے تھے جمہوریت کو شرک کا درجہ دیتے تھے اب حالات بد ل چکے ہیں سائنسی آلات کا استعمال عام ہو گیا ہے سکول ،کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو قبول لر لیا گیا ہے جمہوریت کو بھی قبولیت کا درجہ دیا گیا ہے 2003میں جن کارکنون نے جی ٹی روڈ پر تصویروں کے ہزاروں بورڈ اُکھاڑ پھینکے تھے انہی کارکنوں نے سیڑھیاں لگا کر اپنے قائدین کی تصویروں کے بورڈ لگائے اور مسلمانوں کے چندے کا بڑا حصہ تصویروں والے بورڈ وں کی حفاظت پر خرچ کیا یقیناًاللہ تعالیٰ اس محنت کو ضائع نہیں کرے گا قیامت کے دن تصویر بنانے والے اور بورڈ لگانے والے کو برابر ثواب ملے گا اجتماع کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ مخالف جماعت کے امیر سراج الحق نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مخالفین کو ’’شاخ زیتون ‘‘پیش اور کہا ’’میں تمام اختیار ات مولانا فضل الرحمن کو دیتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ مولانا صاحب اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر دکھا ئینگے۔ مگر حالت یہ ہے کہ بقول اقبال
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلا ک جا دوئے سامری تو قتیلِ شیوہ آذری
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button