چترال ( محکم الدین اور دیگر) چترال میں ایک مبینہ ذہنی معذور شخص کی طرف سے مبینہ طور جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے کی وجہ سے حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ جمعے کی شام تک چترال پولیس اور مظاہرین کے مابین سنگ باری اور آنسو گیس کے شیلنگ وغیرہ سے تین افراد زخمی ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق آج نماز جمعہ کے دوران شاہی مسجد میں چترال کے بالائی علاقے تورکہو سے تعلق رکھنے والے شخص نے مبینہ طور پر نبوت کا دعوی کیا جس پر لوگوں نے اُسے مارنے کی کوشش کی ۔ تاہم بعض افراد نے اُسے قریبی چترال تھانہ پہنچادیا۔ واقعے کی اطلاع آناً فاناً پورے علاقے میں پھیل گئی اور نماز جمعہ کے بعد سینکڑوں افراد چترال تھانے کے سامنے جمع ہوئے اور جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والے کو فوری طور پر اُن کے حوالے کرنے اور قتل کرنے کا مطالبہ کیا ۔
پولیس کی جانب سے انکار پر مظاہرین نے چترال تھانے پر سنگ باری کی اور رپورٹنگ روم کے شیشے توڑ دیے۔ جواب میں پولیس نے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کی شیلنگ کی ۔ اس تصادم میں تین افراد احسان ساکن مغلاندہ ، الطاف گل ولد معراج گل ریحانکوٹ اور محمد حسین زخمی ہوئے ۔ چترال میں کشیدہ حالات کی وجہ سے ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی ہے ۔ جبکہ چترال پولیس کی بھاری نفری جو کاغلشٹ فیسٹول کی سکیورٹی کی ڈیوٹی پر تھے واپس بلالی گئی ہے۔
حالت کو کنٹرول کرنے کیلئے کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس ، ڈپٹی کمشنر چترال اور ضلع ناظم چترال نے لوگوں کو پر امن رہنے کی اپیل کی اور یقین دلایا کہ مذکورہ شخص کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی ۔ لیکن مطاہرین نے کسی کی بات نہیں مانی اور بدستور نبوت کے مبینہ جھوٹے دعویدار کو سر عام قتل کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔
جھوٹی نبوت کے مبینہ دعویدار کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ قطر میں ذہنی توازن خراب ہونے کی بنا پر اُسے واپس گھر بھیج دیا گیا تھا اور اُس کابھائی اُسے علاج کیلئے پشاور لے جارہاتھا کہ یہ واقعہ رونما ہوا۔
ڈپٹی کمشنر چترال نے بتایا ہے کہ رات گئے مظاہرین نے تھانے کے باہر سے منتشر ہونا شروع کردیا۔ انتظامیہ نے مذکورہ شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، اور اس کی ذہنی حالت کے معائنےکے لئے ڈاکٹروں کی ٹیم تشکیل دی جارہی ہے۔
یاد رہے کہ ملکی قانون کے مطابق توہین مذہب اور توہین رسالت کی سزا موت ہے۔