کالمز
خطیب شاہی مسجد چترال ۔۔۔۔۔۔ ایک سچا عاشق رسولؐ
حضرت سیدنا اکاشاؓ عرب کے بددو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور ہر وقت پیغمبراسلامؐ کے خدمت میں رہتے تھے۔ حجتہ الودع کے بعد حضور رسالت مآبؐ مدینہ تشریف لائے اور مسجد نبوی میں تمام صحابہ کرمؓ کا ایک اجلاس بلایا۔ اس اجلاس کے آخر میں آپؐ نے تمام صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمائے کہ میرا آخری وقت قریب آرہا ہے اسلئے ضروری ہے کہ ایکدوسرے کے خطائیں معاف کیے جائیں اور میرے دل میں کسی کے لئے بھی کدورت نہیں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپؓ میں سے کسی کے دل میں کوئی کدورت ہو، یا کبھی میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی سے کوئی غلط کیا ہو،یا کسی کے واجبات میرے اوپر ہیں یا کبھی کسی کو پیٹاہوں تو وہ اگے آئیں اور مجھ سے حساب برابر کرے۔ صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کے منہ دیکھتے رہے اور رونے لگے اور عرض کئے یا رسول اللہؐ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں آپ رحمت اللعالمین ہیں اور اخلاق کے اعلی مرتنے پر ہیں ہم اور آپؐ سے بدلہ!!! اتنے میں آخری صف میں بیٹھا ہوا صحابی حضرت اکاشاؓ کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ غزوہ تبوک کے وقت آپؐ نےپوچھا تھا کہ صبح جلدی جگانےکی ذمہ داری کون لے گا اور میں نے ذمہ داری لیاتھا اور تھکان کی وجہ سے صبح مقررہ وقت پر آپؐ اور دوسرے صحابہؓ کو نہ جگا سکا تو آپؐ نے میرے پیٹھ پر ہاتھ اٹھایا تھا اور اب میں اپنا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر مجلس میں شریک دیگر صحابہ طیش میں آئے اور تلوارین نیام سے باہر نکال کر اکاشاؓ کو مارنے کی تیاری کئے اور اسرار کئے کہ اپنا موقف بدل دو ورنہ مار دئیے جائوگے۔ مگر اکاشاؓ بضد تھا اور کہا میں نے اپنا بدلہ لینا ہے صحابہ کرامؓ کھڑے ہوئے اور اکاشاؓ کو مارنے کی تیاری کئے تو حضورؐ نےممبر سے نیچے اترا اور فرمایا کہ سب لوگ ہٹ جائیں کوئی بیچ میں نہیں آئے گا۔ اکاشاؐ کا حساب میرے اوپر ہے اور میں اپنے اوپر کسی کا حساب نہیں رکھنا چاہتا ہوں قیامت کے دن کسی کا حساب میرے اوپر نہ ہو۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنا پیٹھ اکاشاؓ کی طرف کرکے فرمایا کہ اپنا حساب چکتا کرو۔ اکاشاؓ نے کہا نہیں یہ ناانصافی ہے جب آپؐ مجھے سزا دیا تھا اس وقت میرے پیٹھ پر کوئی کپڑا نہیں تھا اور آپؐ کو بھی قمیص اتارنا ہوگا۔ اور آپؐ نے فورا قمیص اپر کرکے اتارنے لگے تو اکاشاؓ فورا آپؐ کے دائیں کندھے کو جا کر چوما اور آپؐ کے قدموں پر گرکر چیخ چیخ کر رونے لگا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہؐ آپ ہی نے تو فرمایا تھا کہ نبوت کا مہر دائیں کندھے پر ہوتا ہے اور جس کسی کی نظر اس پر لگے اللہ تعالی اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دیتا ہے اور آج اس موقعے کو میں کیسے رد کر سکتا تھا۔ اس کے بعد عاشقان مصطفیؐ کی جان میں جان آگئی اور مسجد نبوی میں خوشی کی لہر پیدا ہوئی اورتمام صحابہ کرامؓ نے اکاشاؓ کو مبارکباد دئیے۔ چونکہ اس مجلس میں سارے عاشقان رسولؐ موجود تھے مگر سچا عاشق حضرت اکاشاؓ نکلا جو سب پر بازی لے گیا۔ اور مہر بنوتؐ کو چوما اور جہنم کی آگ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خود کو محفوظ کیا۔
پچھلے دنوں جب شاہی مسجد چترال میں نماز جمعہ کے دوران عاشقان مصطفیؐ کے سامنے جب ایک معلون شخص نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تو عاشقان مصطفیؐ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اسے شخص کو جہنم واصل کرنے کے لئے آگے بڑھے اور اس پر حملہ کرنے کی کوشش کئے تو خطیب شاہی مسجد چترال جناب خلیق الزمان صاحب نے اسے بچا کر قانوں کے حوالہ کیا۔ چونکہ خطیب صاحب کے لئے یہ ایک جان لیوا مسلہ تھا۔ عاشقان مصطفےؐ کے سامنے گستاخ کو بچانا گستاخی کے مترادف تھا مگر خطیب شاھی مسجد چترال نے یہ خطرہ موڑ لیا۔
یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ہمارے آئین میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے واضح قانون موجود ہیں مگر اس کے باوجود ہم کبھی کبھار جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ کہ ناموس رسالت کی خاطر ہماری جان بھی چلی جائے تو دریغ نہیں۔
اب حالیہ واقعے کی طرف آتے ہیں۔ کہ اگر خطیب شاہی مسجد چترال مولانا خلیق الزمان اس معلون کو پولیس کے حوالہ نہ کرتے تو یقیناً عاشقان مصطفےؐ اسے جہنم واصل کردیتے اور اس کے بعد کی صورت حال شاید پیچیدہ ہوجاتا۔ وہ یوں کہ پولیس حرکت میں آتی اور قانون ہاتھ میں لینے کے جرم میں کئی لوگوں کو گرفتار بھی کرتی۔ میڈیا میں بار بار اس مسلے کو منفی انداز میں اٹھایا جاتا اور چترال اور چترالیوں پر بھی بے امنی اور غیر مہذب ہونے کا لیبل لگ جاتا اور انٹرنیشنل میڈیا میں بھی چترال کی بدنامی ہوجاتی اور لوگ اس ایشو پر مضمون لکھنے لگتے، ٹاک شوز میں بھی منفی کفتگو ہوتے اور منفی پروپگنڈےکا بازار گرم ہوتا۔ جو کہ اچھا اقدام نہیں تھا۔ مگر پہاڑون کے دامن میں واقع یہ وادی جسے دنیا چترال کے نام سے جانتی ہے ایسے ایسے سپوتوں کو اپنے گود میں جنم دیا ہے جو اس وادی کو امن اور محبت کو گہوارا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اوراس وقت یہ تمام واقعے کا سہرا خطیب شاہی مسجد چترال مولانا خلیق الزامان کے سر جاتا ہے جنہوں نے اس معلون کو بحوالہ پولیس کیا اور اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈال دیا۔ جی ہان خطیب خلیق الزمان کا نام چترال کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ کیونکہ انہوں نے جس مشکل وقت میں عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہان چترال اور چترالیون کو ایک بڑی تباہی سے بچایا وہاں سچا عاشق رسولؐ ہونے کا بھی ثبوت دیا اور یہ سارا صورت حال دیکھ کر مجھے حضرت اکاشاؐ کی یاد آئی کہ عاشقان رسولؐ کے درمیان رہ کر سب پر بازی لے جانا کسطرح اہم ہوتا ہے.
جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ چترال میں موجود اس میانہ روی، مساوات اور اخوت کی جو فضا اب تک قائم ہے تو وہ صرف اور صرف ایسے ایسے سپوتون کی بدولت ممکن ہوتا چلا آرہا ہے۔ جو اپنے جان و مال کو تو خطرے میں ڈال دیتے ہیں مگر چترال کی نام کو داغدار نہیں کرتے۔ اور یقیناً ہمیں ایسے فرض شناس فرزندون پر فخر ہونا چائیے۔
چونکہ اس واقعے کے بعد جہان ایکطرف عام لوگوں کو تھوڑی بہت دقت کا سامنا ہوا مگر دوسری طرف سارا پریشر خطیب شاہی مسجد جناب خلیق الزمان پر پڑا اور مشتعل افراد نے اس کی گاڑی کو آگ لگایا اور اسے مارنے کی بھی کوشش کئے۔ خطیب صاحب نے اپنے منصب کی لاج رکھ کر جس فرض شناسی کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر نہیں ملتی اور اب یہ ہمارا فرض شناسی باقی ہےکہ ہم خطیب صاحب کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے اس وقت خطیب صاحب یقیناً ذہنی دبائو کا شکار ہونگے اور ایسے وقت میں اس کے ساتھ صرف اور صرف اظہار ہمدردی کے ضرورت ہے ۔ کیا ہم ملکر یہ نہیں کرسکتے ؟؟؟….. جی ہاں بلکل کرسکتے ہیں۔ اور اظہار ہمدردی کا سب بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سب انفرادی طور پر ایک ایک گلدستہ لیکر شاہی مسجد جائیں گے اور نیک خواہشات کے ساتھ یہ گلدستہ خطیب صاحب کے حضور میں پیش کریں گے اور خطیب صاحب کی اعلی کرکارگی اور معلون کی گرفتاری کی خوشی میں بارگاہ الہی میں شکرانے کی نماز موصوف کی امامت میں ادا کریں گے۔ تو یقیناً اس مشکل وقت میں ہماری طرف سے بہترین تعاون اور حوصلہ افزائی ہوگی اور ان عناصر کے لئے سبق ہوگا جو چترال کے امن کو خراب کرنے کی ناکام شازش کرتے رہتے ہیں۔ اور ضلعی و صوبائی حکومتوں سے پرزور اپیل ہے کہ وہ خطیب صاحب کی مالی نقصان کا جلد از جلد ازالہ کریں۔