ہفتہ 22اپریل کے اخبارات میں توہین رسالت اور دعوائے نبوت کی نئی خبر ملک کے شمالی ضلع چترال کی ڈیٹ لائن سے شائع ہوئی اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے واقعہ یوں ہوا کہ ایک نو جوان نے شاہی مسجد چترال میں نمازجمعہ کے بعد کھڑے ہوکر خواب،وحی اور نبوت کا دعویٰ کیا خطیب مسجد مولانا خلیق الزمان نے اس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا مسجد کے اندر بھی اشتعال پیدا ہوا مسجد کے باہر مشتعل ہجوم نے پولیس سٹیشن پر دھاوا بول دیا مقامی انتظامیہ نے ہجو م کو منتشر کر نے کے لئے علمائے کرام اور سیاسی قائدین کا ہنگامی اجلاس بلایا طے یہ ہوا کہ ملعون شخص پر توہین رسالت اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا مقدمہ درج ہوا ،ایف آئی آر کی کاپی حاصل کر لی گئی اور علماء کو بھی کاپی دیدی گئی ملزم کو رات کی تاریکی میں سوات منتقل کیا گیا جہاں اس کو تفتیش کے عمل سے گزارا جائے گا اور اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ توہین رسالت کے مروجہ قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
چترال میں دفعہ 144نافذ کیا گیا ہے ٹاون کے تمام تعلیمی ادارے بند کردئے گئے ہیں تاہم ایف اے اور ایف اے سی کے امتحانات کے لئے کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل نظام الدین شاہ نے سیکورٹی فراہم کی ہے حالات بد ستور کشیدہ ہیں عوام کو یہ خدشہ ہے کہ جج کی عدالت سے مجرم با آسانی اپنی ضمانت کرائے گا اور آسانی سے بیرون ملک فرار ہو جائے گا۔
پہلے دن سے کچھ لوگوں نے ملزم کو فاتر العقل ،پاگل اور جنونی قرار دینا شروع کیا۔ ایک ’’قطری شہزادے ‘‘کی گواہی لائی گئی ہے کہ دماغی توازن خراب ہونے کی وجہ سے اس کو قطر سے ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا اس قسم کی افواہوں سے عوام کے جذبات مزید مشتعل ہوتے ہیں۔ قیاس یہ ہے کہ ملزم کو بچانے کے لئے ’’قطری شہزادے‘‘کی شہادت لائی جارہی ہے۔
سنجیدہ حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کرنل نظام الدین شاہ کی وساطت سے یہ مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کیا جائے دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ سول عدالتوں میں کیا برائی ہے حقیقت یہ ہے کہ سول عدالتوں میں کوئی عیب یا برائی نہیں دو طرح کی قانونی پیچید گیاں ہیں پہلی بات یہ ہے کہ سول عدالتیں وقت زیادہ لیتی ہیں 10سالوں میں بھی اس مقدمے کا فیصلہ نہیں آئے گا دوسری پیچیدگی یہ ہے کہ سول عدالتوں سے اس طرح کے بے شمار ملزموں کو بری کر دیا گیا ہے لوگوں کو خدشہ ہے کہ ملزم بری ہوجائے گا اور ہجوم کی طرف ملزم پر حملے کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام کا عدلیہ پر اعتما د نہیں رہا انتظامیہ پر اعتماد نہیں رہا اس لئے مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے فوجی عدالت ایک ماہ کے اندر ملزم کو پھانسی کی سزا دے گی آرمی چیف کی طر ف سے سزا کی توثیق کے بعد ملزم کو پھانسی دی جائے گی اس لئے فوجی عدالت پر عوام کا اعتماد ہے اور بھر پور اعتماد ہے اگر سول عدالت پر عوام کا ایسا ہی اعتماد ہوا تو عوام اس طرح جرائم میں ملوث مجرموں کو خود مارنے کی کو شش نہیں کرینگے قانون کو اپنے ہاتھ نہیں لینگے بلکہ مجرم کو پکڑ کر عدالت کے حوالے کرینگے تین چار ہفتوں میں ملزم کے خلاف فیصلہ آئے گا اور سر عام اس کو پھانسی دی جائیگی ایسے گھناؤ نے جرائم میں ملوث مجرموں کا ایسا انجام ہونا چاہیے اور سول عدالتوں میں یہ کام ناممکن ہے۔
مردان اور چترال کے دو واقعات 10دنوں کے اندر رونما ہوئے دنوں واقعات میں سو شل میڈیا بے حد غیر ذمہ دارنہ کر دار ادا کیا میسج سروس ،واٹس ایپ ،ٹویٹر اور فیس بک پر ایڈیٹنگ اور اور فلٹر کا کوئی سسٹم نہیں ہے جس کے جی میں جو بات آتی ہے وہ آگے بھیجی جا تی ہے سو شل میڈیا پر گالی دینا بہت آسان ہے کسی کے گھر کو جلانا لمحوں کی بات ہے کسی کی گاڑی یا دکان کو جلانا بائیں ہاتھ کی کچی اُنگلی کا کام ہے اور یہ ہم سبکو معلوم ہے ما نچسٹر ،بریڈ فورڈ ،مشی گن ،ہیوسٹن یا دوحہ میں بیٹھا ہوا شخص منٹوں میں مردان اور چترال کے اندر ہجوم کو مشتعل کرکے شہریوں کی جان ومال کو نا قابل تلا فی نقصان پہنچاتا ہے بعد میں ’’سوری‘‘کرتا ہے اور کہتاہے مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا ۔
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہا ئے اُس زود پشیمان کا پشیما ن ہونا
21اور22اپریل کو چترال میں بے شما ر شارٹ میسجیزآگئے جن میں مسلمانوں کی غیرت کو جگا کر مخصوص نا م کے دفتروں پر حملے کے لےئے اکسایا گیا ایسے گیارہ پیغامات کے فون نمبرون کو خفیہ ایجنسیوں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ مسیج بھجنے والا خود کراچی ،گوجرانوالہ ،سیالکوٹ ،مردان ، یا نو شہرہ میں مقیم ہے وہ چترال میں آگ لگا کر دور سے تماشا دیکھنا چا ہتا ہے لطف کی با ت یہ ہے کہ دوسروں کو ایمانی غیرت کا حوالہ دے کر بدنا می پر اکسانے والا اتنا غیرت مند اور بہادر ہے کہ اپنا نام بھی لکھتا ہے ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے ایک بار کہا تھا کہ میں پاکستان کے لئے اپنی جا ن دیدونگا مگر میں پاکستان نہیں آونگا کیونکہ میری جا ن کو خطرہ ہے مردان میں مشال خان کو ہجوم نے قتل کیا یہ عدالتوں پر عدم اعتما د کا عملی اظہا ر تھا چترال میں ملزم کو قانون کے حوالے کیا گیا ہے ہمیں معلوم ہے کہ سول عدالت 10سال بعد انصاف نہیں کرسکے گی اس لیے یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ ملزم کو فوجی عدالت کے ذریعے 4ہفتون کے اندر سزا دی جائے تاکہ ٓا یندہ کوئی اس طرح کے جرم کی جرت نہ کر سکے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button