تحریر۔ارشاد اللہ شادؔ
بکرآباد چترال
یوں تو آج کل توہین رسالت،ختم نبوت،اقلیتوں کے حقوق وغیرہ پر بہت باتیں اور جگہ جگہ بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔مجھ جیسے عام شہری کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔آج ہم یہاں اسلام میں توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے بات نہیں کریں گے بلکہ عمومی جائزہ لیں گے کیونکہ اگر اسلامی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو اس کے لئے علم کا معیار بھی کافی بلند ہونا چاہیے،اور ویسے بھی یہ ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے ایک ایک قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے اسلئے آج ہم عمومی جائزہ ہی لے لیتے ہیں۔
پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن وامان سے چلایا جاسکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرابھی سزا سے نصیحت پکڑلے اور جرم سے دور رہے۔قانون پر عمل درآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔عوام کسی جرم کی نشاندہی کرسکتے ہیں،جرم روکنے میں حکومت کی مدد کرسکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگتے ہیں۔ایک تو یہ سیدھا سادھا جرم کرتے ہیں اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہوجائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہورہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کرواسکتے ہیں ۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے عجیب عجیب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں ، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، و ہ کیا جائے وغیرہ ۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ہم پر ایسے حکمران بیٹھے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی ملک ، کوئی قانون نبیﷺ تو دور کی بات ایک عام انسا ن کی توہین کی اجازت نہیں دیتا ، یہاں یہ بات یاد رہیں کہ توہین رسالت کی سزا کیا ہے ؟ اور کیا ہونی چاہیے ۔ اس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسمبلی اور پارلیمنٹ وغیرہ اسلامی نقطہ نظر سے ضرور بحث کر سکتی ہے اور قانون میں تبدیلی کر سکتی ہے ۔ لیکن یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ توہین رسالت کے قانون میں ذرا برابر ترمیم کی جائے۔ ذرا سوچئے ! دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی ، پیغمبر یا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرتا ۔ مسلمانوں کو ایک طرف کرکے فرض کریں کہ اگر کوئی ہندو یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسیؑ کی شان میں گستاخی کرتاہے تو کیا عیسائی برداشت کریں گے؟ اگر کوئی مسلمان ہندؤں کی دیوتا کی توہین کرتا ہے توکیا ہندو یہ برداشت کریں گے ؟ ہر گز نہیں کریں گے اور کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعویٰ کردیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے ، چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہویا پھر کسی بھی مذہب کی ہو۔ کسی کی توہین بھی ہر گز قابل قبول نہیں ۔ یہاں ایک بات یاد رکھیں کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے ۔ اس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہوجاتا ہے اور عدالتیں ایسی حرکت میں آتی ہے کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے ۔ میں کوئی قانون دان تو نہیں بلکہ ایک حقیر قلمکار اور طالبعلم ہونے کے ناطے یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیت اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا ، دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
مسلمان اپنے آقاﷺ کے نام و ناموس پر مر مٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں ۔ اس پر تاریخ کی کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی ایسی شہادت موجود ہے جو ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے ، لیکن یہ بات اس وقت منظر عام پر آسکتی ہے جب ایک شعور رکھنے والے فرد توہین و گستاخی کرے۔ لیکن ایک شخص کی دماغی حالت ٹھیک نہیں وہ بہت کچھ بک بک کرسکتا ہے لیکن اس وقت سارے لوگ اس پر ٹوٹ پڑ کر اس کو قتل کردے ، اس کو شریعت بھی اجازت نہیں دیتا اور قانون بھی اجازت نہیں دیتا ، جب تک جانچ پڑتا ل نہ کی جائے ۔ ویسے تو یوں لگتاہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سازش علی الاعلان کیا جارہا ہے کہ ہر مذہبی شر پسندی کے پیچھے یہ دینی علماء کاہاتھ ہوتا ہے ، حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے ۔ علماء کرام ہر زمانے میں قانون کی بالادستی، امن و امان کا قیام، سلامتی کی بات کی ہیں یہ بات عوام الناس جان بوجھ کر نظر انداز کریں تو الگ بحث ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ اب دیکھے بھری مسجد کے اندر ایک شخص اٹھتاہے اور مسجد کے اندر ہی نبوت کا اعلان کرتاہے ، ایسے حالات میں لوگوں کا مشتعل ہونا ظاہری قول ہے ، کہیں یہ واقعہ پیش آتا تو اس شخص کو اسی وقت سر تن سے جدا کر دیا جاتا، لیکن شاہی مسجد چترال کے خطیب نے لوگوں کو پُر امن رہنے کی ہدایات دی اور اس شخص کو لوگوں کی چنگل سے نکال کر حکومت کے حوالے کر دیا۔ اگر بالفرض اس کی دماغی حالت جھانجے بغیر نعرہ مستانہ بلند کرکے خطیب صاحب مقتدیوں سے اس کو قتل کرنے کا کہہ دیتا اس کی اجازت نہ شریعت دیتا اور نہ ہی قانون۔ دوسرا راستہ یہی تھا کہ اس کو حکومت کے حوالے کیا جائے ، اس کو خطیب صاحب نے اختیار کیا۔ لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ آئے دن کچھ جاہل لوگوں کو ذرا بھی عقل نہیں کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، عشق رسولﷺ کے تقاضے اور آداب و احترام سے یہ ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ دریں حالات میں جذباتی عوام قانون کے ساتھ ساتھ شریعت کو بھی مکمل اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ اگر یہی شخص عوام کے ہاتھوں قتل ہوتا تو الزام کیا ہوتا اس وقت ، دیکھے بھائی علماء کسی کام کے نہیں ان کی موجودگی میں مسجد میں قتل و غارت ہوتی ہے ، اور بد نام علماء ہوتے ، اور اس کا جرم پس منظر میں چلا جاتا ۔ علماء نے قانون کی پیروی کرکے اپنا احسن طریقہ نبھایا ، اب رہی بات قانون اور ملزم کی ۔ اب قانون کو بھی حرکت میں آنا چاہیے اور جلد از جلد اس کی سزا کا تعین کرنا چاہئے۔ ایک شخص کی وجہ سے اگر آنے والے وقت چترال کا پرامن فضا خراب ہوگی تو ذمہ داری قانون کے اوپر ہوگی۔ علماء اس عظیم ہستی جناب رسولﷺ کے وارثین میں سے ہیں ۔ عوام ایک پاگل اور دیوانے کی بات پر اس وارثین رسول کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں جس شخص کے اقتداء میں تم نے برسوں نمازیں پڑھی ہیں ، شرم تم کو ہم کوسب کومگر نہیں آتی۔
چترال کے عوام سے میرا اپیل ہے کہ ہمارے پر امن ماحول کو گندہ نہ کرے اور حالات بغیر کسی تحقیق کے خراب نہ کریں ۔ علماء کرام کی ہدایات پر عمل کریں ۔ آپﷺ کی عشق پر ہم ذرا برابر بھی شک نہیں لیکن جو لوگ ہم سے عشق رسولﷺ کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہے ان سے اس طرح کے موقعوں پر الزام تراشی کے بجائے رہنمائی لینا چاہئے ۔ شریعت اور قانون کے اپنے ہاتھ نہیں لینا چاہئے ۔ اس بد بخت شخص کے متعلق قانون اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سزا کا مطالبہ کرنا سب مسلمانوں پر لازم ہے۔ اور شاہی خطیب سے میرا گزارش ہے کہ جس طرح قانون کی پیروی کرکے مجرم کو قانون کے حوالے کیا اب ٹھیک اسی طرح حکومت وقت سے مطالبہ و مفاہمت کا کام بھی آپ ہی سر انجام دیں تا کہ عوام کو جلد از جلد جیلوں سے رہائی ملے ۔ اور پھر وہی فضا قائم ہوگی جو پہلے تھی۔ وگرنہ یہ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ چلتا رہا تو پھر چترال کی پر امن فضا کو بھی خد ا حافظ کہنے میں دیر نہیں ہوگی۔
نوٹ؛ یہ کوئی فتویٰ نہیں بلکہ میرے خیالات و نظریات ہے۔ ،اور کوئی بھی ضرورت نہیں کہ آپ بحث برائے تعمیر کے بجائے بحث برائے تنقید شروغ کردیں۔
قلم ایں جا رسید و سر بشکست….!!