کالمز

  یوم مزدور پاکستانی مزدوروں کے لئے ایک مشکل دن۔۔۔۔۔

"آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ میں نو کٹوٹی” کا یہ نعرہ حق بلند کرتے ہوئے مزدور یونینزکا سالانہ کنوینشن اکتوبر 1884ء کو امریکی شہر شکاگو میں منعقد ہوا جس میں امریکہ بھر سے مزدور رہنما شریک ہوئے ۔ اس اجلاس میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ میں نو کٹوٹی کا نعرہ بلند کرکے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ یکم مئی 1886ء سے باقائدہ طور پر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ورنہ ہڑتال کو یقینی طور پر کامیاب کرکے مزدورں کے حقوق کے لئے باقائدہ اسٹینڈ لیا جائے گا۔ مگر طاقت کے نشے میں مست سرمایادار جو مزدور طبقے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، کہاں مزدوروں کی احتجاج پر کان دھرنے کی زحمت کرتے اور بلاآخر مزودورں کی جانب سے دیا گیا الٹی میٹیم آپہنچا اور یکم مئی 1886ء کو امریکہ بھر میں ہڑتال کیا گیا۔ جب دو دن یہ ہڑتال جاری رہا تو سرمایادار حلقے میں اضطراب پھیل گیا اور مزدوروں کو سبق سکھانے کا روایتی انداز اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور 3 مئی کو "ہےمارکیٹ اسکوائر” شکاگو میں مزدوروں کی ریلی پر فائرنگ کیا گیا اور چار مزدور جابحق کئے گئے۔ سرمایا دار جنہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس فائرنگ سے مزدور خوفزادہ ہو کر تحریک ختم کریں گے اور واپس کام پر آجائیں گے۔ مگر اگلے دن یعنی چار مئی کو "ہے مارکیٹ اسکوئر” شکاگو میں مزدوروں کا ایک زبردست پرامن احتجاج شروع ہوا اور پوری امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا، تو سرمایا داروں کو یہ ہضم نہیں ہوا اور اس احتجاج کے نزدیگ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکارون پر ایک نامعلوم شخص کے ذرئعے بم حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سات پولیس افسران اور چار مزدور جانبحق ہوئے۔ اس کے بعد سرمایاداروں کے اشارے پر چلنے والی سرکار نے مزدور رہنمائوں کو گرفتار کیے اور  سات کو پھانسی دیا گیا اور باقی کو عمر قید کے طور پر زندان خانے میں ڈال دئے گئے مگر مزدور اپنے حقوق لینے میں کامیاب ہوئے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ یکم مئی کو ہر سال شکاگو کے ان شہیدون کی یاد میں منایا جائے گا اور اسطرح یکم مئی یوم مزدور سے منسوب کیا گیا اور دنیا بھر میں محنت کش اس دن آرام کرتے ہیں اور اپنے ان شہیدون کو یاد کرتے ہیں جو ان کے لئے سولی پر تو چڑھ گئے تھے مگر ان کی حقوق پر سمجھوتہ نہیں کئے تھے۔

 چونکہ مملکت خداداد میں بھی یوم مزدور بھرپور انداز سے منایا جاتا ہے مگر یہاں سب کچھ الٹ ہے۔ یہاں مزدور طبقے کی بہت بڑی تعداد آج بھی ان بنیادی حقوق سے محروم ہے جن کی خاطر مزدور رہنمائوں نے آج سے 131 سال پہلے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حاصل کئے تھے۔ اور اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سرمایہ دار براہ راست حکومت کررہے ہیں اور پالیسی ہمیشہ اپنے سرمائے کی حفاظت اور مفاد کر مد نظر رکھ کر بناتے ہیں اور مزدوروں کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں اور اگر کوئی انفرادی طور پر یہ جرت بھی کرے تو سرمایا دار سرکار کی مدد سے اسے باآسانی دبا دیتے ہیں۔ اسطرح مزودورں کی بڑی تعداد ایک نوالے کا محتاج ہوکر رہ گئی ہے۔ اور لاکھوں کی تعداد میں محنت کش روزانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں اور اپنے حقوق کے لئے آواز اگر بلند کرنا بھی چاہیں گے تو ان کے گھروں کے چولے بند ہو جاتے ہیں اور بچے فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ان سے دیکھا نہیں جاتا۔ یوم مزدور یعنی یکم مئی کو چھٹی ہوتی ہے اور افسران بالا آرام فرماتے ہیں مگر دہاڑی پر کام کرنے والے آج بھی روزگار کی تلاش میں اپنے مقررہ جگہوں پر حاضر ہوتے ہیں اور شاید وہ یہی سوچتے ہیں کہ ان نصیب میں شاید آرام نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے اور بہت سون کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ آج کا دن مزدوروں کے نام ہے اور دنیا بھر میں انہی کی حقوق کے لئے آواز بلند کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں وہاں حق کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حق کے نام پر سیاست کرنے والے تو بہت ہیں مگر حق کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ حقوق اللہ کے نام پر آئے روز انسانون کا قتل عام ہوتا ہے مگر حقوق العباد ان کے لئِے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مزدوروں کی حقوق کے نام پر سیاست کرنے والے بھی صرف اور صرف ائیرکنڈیشن ہالون میں پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں مگر مزدور آج کے دن بھی ان پرگرامات کے انتظامات میں مصروف رہتے ہیں اور کرسیان لگانے اور واپس جمع کرنے میں ان کا دن نکل جاتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والوں سے یہ کہہ کر دن بھر سخت مشقت لیا جاتا ہے کہ شام کو گھر میں لیبر ڈے کے موقع پر ایک پارٹی رکھی گئی ہے جسمیں کچھ مہمان آنے والے ہیں جسکی وجہ سے مزدور پر معمول سے زیادہ لوڈ پڑھ جاتا ہے۔ گو کہ یہ دن مزدوروں کے لئے واقف ہے مگر اس دن فکٹریون میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدورں کے ہاں  فاقہ کشی ہوتا ہے  اور رہی بات روڈ کے کنارے بیٹھے ہوئے ان مزدوروں کا جن میں رنگ ساز، ترکان، موچی، حجام، لوہار، مستری، کدال بلچے کا کام کرنے والے مزدور، پلمبر اور وہ تمام مزدور جو روزانہ کی اجرت پر کام ڈھونتے مختلف چوراہوں پر بیٹھے ہوتے ہیں سب کے ہاں فاقہ کشی ہوتا ہے اور وہ سارا دن فارغ بیٹھ کر واپس چلے جاتے ہیں اور کام کا کوئی آسرا نہیں ملتا۔ اور یوں یوم مزدور مزدوروں کے لئے انتہائی پریشانی کن دن ثابت ہو کر گذر جاتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button