تصوف بحیثت ایک مکتبہ فکر تمام مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا اور ہے ۔ اس نےتاریخ میں مخلوق خدا کو جہاں روحانی سکوں سے آشنا کیا وہیں انسانوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے اور احترام انسانیت کا درس بھی دیا۔ آج کے اس سائنسی دور میں جبکہ انسان کو تباہ و برباد کرنے کی غرض سے آتے روز مختلف اقسام کے سائنسی ایجادات کا سہارا لیکر وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، تصوف کی اس عالمگیر تحریک کا احیا از حد ضروری ہے ۔ بصورت دیگر فی زمانہ انسانیت کو ہر لمحہ کسی نہ کسی خطرے سے دوچار کرنے کی غرض سے ایسی ایسی تدابیر سوچی جارہی ہے جن کے نتیجے میں پوری دنیائے انسانیت میں کوئی بھی خطہ ایسا موجود نہیں جہان پر جنگ کے بادل نہ منڈلارہے ہوں۔
انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں جن کے پیش نظر انسان دلوں میں امن و سکوں اور ایک ورحانی قوت کی ضرورت ہے جس کی بدولت انسانوں میں خوف خدا ، ہمدردی ، محبت، اخوت، توکل و صبر کی لافانی دولت سے مالامال رہیں اور یہ پرسکوں صورتحال ٖصرف توجہ کے مطالعہ اور غوروفکر سے بحال ہوسکتی ہے۔
اپنے دل کو عشو و محبت اور احدیت کی جلوہ گاہ قرار دے ۔ اپنی فکر کو مرحلہ نسبت اور عالم سفلی کی کثرت سے وحدت عالم علوی کے مقام پر پہنچاہے۔ ضمیر کے آئینہ کو صاف رکھے تاکہ اپنے اندر خدا کا جلوہ دیکھ سکے اور معرفت سے روشناس ہوسکے ۔ اپنے پندار و گفتار و رفتار میں مظہر حق و حقیقت بن جاہے ۔ اس نورانی نظر کے پر توسے عالم انسانی مٰں بھی وحدت اصلی کو دیکھے اور یہ جان لے کیہ تمام فرقے اور تمام مذہبی جھگڑے انسان کی ناسمجھی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔
تصوف صدیوں سے دنیاتے انسانیت کی وہ عالمگیر تحریک ہے جس نے ہر مذہب اور ملت کے انسانوں کو ایک دوسرے سے محبت، صلع، امن و آشتی کا پیغام دیا ہے ۔ یہ تحریک بنی نوح انسان میں اپنے آغاز سے آج تک قبول عام کی منزلیں باقاعد گی سے طے کر رہی ہے اور جب سے انسان شعور کی دولت سے مالا مال ہوا ہے ۔ تصوف کسی نہ کسی رنگ میں اس معاشرے مین رائج رہاہے۔ یہ دنیاہے انسانیت میں کسی ایک مذہب کسی ایک ملت کی میراث نہیں اور یہ مسلک تمام بنی نوح انسان کو ہر دور میں احترام ادمیت و قومیت کی تلقین کرتا رہا ہے ۔اس کی بدولت عام انسانی زندگی امن کی لازوال دولت اور صبر و سکون کے نذبے سے سرشار رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید دور کے مادی تقاضے انسانی ضرورت میں اہم قرار دیے گیے ہیں اور ضرورت انسانی کو مادیت سے ہم اہنگ کیے بغیر زندگی اپنے ارتقا کی منازل طے نہیں کرسکتی لیکن اس حقیقت سے بھی منطقی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مادیت کا علبہ دنیا کے لیے تباہی و بربادی کا پیغام بھی ثابت ہوا ہے۔
اس سلسلے میں اگر ماضی کے دو عالمگیرجنگوں کو ہی مد نظر رکھیں تو یہ ساری تباہی و بربادی مادیت کی بے پناہ ترقی کا ہی نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے جس سے انسان سے انانیت، مروت،ہمدردی، خلوص اور احترام کا جذبہ چھین لیا اور مضبوطی سے اپنے پاوں جمائے۔
ایسے دور میں تصوف اور صوفی کا وجودضروری ہو جاتاہے کیونکہ اسکی بدولت انسان کی مادی اور روحانی ترقی کے ہمراہ مجموعی انسانی زندگی میں ایک توازن پیدا ہوجاتاہے جو انسان خلوص، محبت، رحم، مروت، ہمدردی اور دیگر بلند پایہ اقدار زندگی سے مالامال کرتاہے بصورت دیگر انسانی زندگی اور حیوانی زندگی میں آنکھ کی جنبش کے برابر درمیانی فاصلہ رہ جاتاہے۔
تصوف کی تحریک کو دنیائے انسانیت نے اپنے لافانی افکار کے زریعہ عام کرنے میں سب سے زیادہ اہل مذہب اور اہل علم نے بھرپور کردار ادا کیا ہے ۔
تصوف کے عالمگیرموضوع پر ہر مذہب اور ہرملت کےبزرگوں نے دنیاکے تمام ترقی یافتہ زبانوں میں تصوف کے صحائف دنیا کی رہنمائی کے لیے عام کیے ہیں۔ ان میں زیادہ تر تعداد صوفیائے کرام ،شعرا حضرات اور اہل مذہب حضرات نے کی ہے۔
تصوف کے موضوع اور اس کی افاقیت کو آج کے دن تک زمانے کی گہنگی مروزمانہ اور ایجادات کی ترقی متاثر نہیں کرسکی۔
یہی حقیقت ہے اس موضوع کی پختگی اور ثابت قدمی کی دلیل ہے صدیوں کا سفر طے ہوتاگیا لیکن تصوف کی ضوفشانیاں پوری تابانیوں کے ہمراہ دنیائے انسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر دل ودماغ کو روشنی سے ہم اہنگ کرتی رہی ہیں۔ جو بنی نوع انسان کی عظمت کی وہ معراج ہے جہان فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔
وقت کی گردش تصوف کے موضوع اور اس کے وقار کو کسی صورت بھی مدہم نہیں کرسکی جو اس تحریک کے جاندار ہونے کی ایک اور واضع زندہ دلیل ہے
سائنس کی یلغار اور دیگر مادی ترقی کے باوجود تصوف کا موضوع اپنی تازگی اور حسن و جمال کو محبت کی لازوال میراث اور آمن وسکوں کی لازوال مہک سے معطر کر رہاہے۔
بنی نوع انسان کی ایجادات اور سائنسی تحریکیں ایک مخصوص مدت تک اپنی چمک دھمک دکھانے کے بعد صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوگئیں اور آج کی دنیا میں ان تمام تحریکوں ککے آثار اگر کہیں ملتے ہیں تو فقط تاریخ کےویرانوں میں ہیں جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیاگیاہے اس کے برعکس تصوف کی تحریک آج بھی زندہ ہے اور تاقیامت تک زندہ رہے گی۔
اس موضوع کی مناسبت سے پروفیسر یوسف سلیم چشتی تاریخ تصوف میں یوں رقم طراز ہے۔
عالم روزگار کے صوفیانہ آدب اور صوفیوں کے اقوال کے مطالہ سے یہ بات واضع ہے کہ اپنی ماہیت کے اعتبارسے تصوف اس اشتیاق کا نام ہے جو ایک صوفی کے دل و دماغ میں خدا سے ملنے کے لیے اس شدت سے موجزن ہوتاہے کہ اسکی پوری عقلی و جذباتی زندگی پر غالب آجاتاہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ صوفی اسی خدا کو اپنا مقصود حیات بنالیتاہے گفتگو کرتاہے تو اسی کا خیال کرتا ہے اس کو یاد کرتا تو اس کا کلمہ پڑھتاہے شفق کی سرخی میں دریا کی روانی میں پھولوں کی مہک میں ، صحرا کی وسعت میں باغ کی شادابی میں الغرض تمام مظاہر فطرت اور مناظر قدرت میں اسے خدا ہی کا جلوہ نظر آتا ہے۔
سمایا ہے تو جب سے نظروں میں میری
جدھردیکھتاہوں ادھر توہی توہے
ہرجماعت کا یہی خیال ہے کہ اسکی فکر صالح ہے۔ انسانی گمراہی بس یہیں سے شروع ہوتی ہے ، یہیں سے اختلاف رونما ہوتے ہیں اور یہیں سے لڑائی جھگڑے کی ابتداہوتی ہے اسی لطیف نکتہ کو ایران کے عارف شاعر نے آج سے سات سو برس پہلے کہا تھا انسانیت بڑی حد تک جہل کی اندھیروں میں بھٹک رہی تھی ۔بڑے دلنشین پرائے میں بیان کیا ہے اور ایرانی تفکر کی ہمہ گیری اورتوانائی کا خوب مظاہرہ کیاہے ۔ انسانیت کی رہنمائی اور اس کی نجات ے لیے ضروری ہے ہ ظاہر سے گزر کے حقیقت کا مشاہدہ کیا جائے۔
حقیقت کو صرف حقیقت بین آنکھ ہی دیکھا جاسکتاہے اور ایسی نظر حاصل کرنے کے لیے ریاضت ، تہذیب نفس اور کسب فضائل لازمی ہے ورنہ انسانی سایہ کو حقیقت اور سراب کو آب سمجھنے لگے گا۔لیلیٰ کی دید کے لیے مجنوں بننا ضروری ہے ۔ ناداں خیال کے پیچھے دوڑتے ہیں سایہ کو پکڑنا چاہتے ہیں اور حق و باطل میں تمیز نہیں کرے۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Mashallah.
God bless you.