شعر و ادب

آنگن میں اُگے خواب

تحریر: ارشد حسین جگنوؔ

جب بھی میں اپنی کتا ب کے بارے میں دوست و احباب سے مشاورت کر رہا ہوں تو سب یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ کتاب کے دیباچے میں جان پیدا کروں جو کہ پوری کتاب کا نچوڑ ہوتا ہے تاکہ لوگ دیباچہ پڑھنے کے بعد پلک جھپکے پوری کتاب کا مطالعہ کریں۔ 28فروری 2017کو آسیہ سحر سے مختصر سی ملاقات کے بعد ان کی شعری و افسانوی انتخاب ’’آنگن میں اُگے خواب ‘‘ مل گیا ۔کتاب تھامے اپنے آشیانے کی طرف رخ کر لیا اور کتاب کو شیلف پہ رکھ دیا دل چاہ رہا تھا کمرے کے کسی کونے میں دبک کر آسیہ سحرؔ کے جذبات کو سمجھوں جو کہ ’’آنگن میں اُگے خواب ‘‘ کی شکل میں میرے پاس تھی ۔شام کو چہل قدمی کیلئے بڑے بھائیوں کیساتھ ساحل سمند ر کی طرف رخ کرلیا،سمندر کے کنارے کافی دیر تک سمندر کی گہرائی ناپنے کی کوشش کرنے کے بعد ناکام لوٹ پڑا جو اپنے اندر ایک شور سمیٹے بیٹھا تھا اور آس پاس اک دنیا آباد تھی جہاں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن تھا ،دن بھر کی تھکان دور کرنیکی کوشش میں محو تھے مگر چہروں پہ سجی مسکراہٹ اک بناوٹ تھی جس کے پیچھے بے شمارسوالات چھپے تھے جن کے جوابات ڈھونڈنا میرے بس سے بھی باہر تھا ، اچانک’’ دے بابا اللہ کے نام پہ کچھ دے ‘‘ کی آوازیں سننے کے بعد میں بھی تخیل کی دنیا سے واپس لوٹا جہاں میں ساحل سمند سے واپسی کے دوران پہنچا تھا ،گھر پہنچتے ہی سیدھے کمرے میں جا کر شیلف سے آسیہ سحر کی کتاب ’’ آنگن میں اُگے خواب ‘‘ اٹھا لایا اور کتا ب کو کھولنے پر پہلی ہی نظر دیباچے پر پڑی جہاں’’ ناظم آباد سے شاہ فیصل کالونی تک کا سفر ‘‘ ’’ہجر کی رات ‘‘ اور پورے سال کی ’’365راتیں‘‘ اپنے اندر ایک دکھ ،درد احساس سمیٹے تھیں کچھ پل کیلئے تو سوچ میں پڑ گیا کہ اپنے ارد گرد کھڑے انجان چہروں کے کٹے پھٹے خدوخال،بھوک سے نڈھال لب، محرومیوں کے بوجھ تلے رینگتی خواہشوں کی قطاریں اور ایسے اجاڑ سفر میں دن کیسے گزرے ہونگے مگر جب خود کو سنبھالنے کی ذمہ داری خود پہ آن پڑے تو پانی میں ڈوبتی چونٹی کو کنارے تک پہنچنے کیلئے ’’ پتہ‘‘ مل جاتا ہے ۔

اس مادہ پرست دور میں دولت و شہرت کی فکر کیئے بغیر انسانی محبت دل میں لیئے انسانی محسوسات کی ترجمانی اور فکری سوچ لیئے قلمی جہاد کرنا بہت کم لوگوں کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے جن میں آسیہ سحرؔ کا بھی شمار ہوتا ہے جس نے اپنی کتاب ’’آ نگن میں اُگے خواب‘‘ میں زمانے نے جو دیا انھیں حوادث کی شکل میں لوٹا دی ہے جہاں تجربات کے انگارے بھرے ہیں’’اعلان‘‘ ’’فلسفہ کبوتر‘‘ ’’ناسور کی سڑن ‘‘ اور ’’ ایک بھیانک موڑ‘‘ جیسی نظموں کی شکل میں احساسات کا آئینہ ہیں ۔بعض غزلوں میں جذبوں کی شدت اور مشاہدے کی گہرائی پائی جاتی ہے مگر بعض نظمیں ایسی ہیں جن پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا البتہ جذبات کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ایک مسافر ہے اور زندگی ایک مسافت اور اعمال زادِ سفر ہوتے ہیں ،کسے کو انسانیت کے لبادے سے نکل کر پتھر کے دور میں پہنچنے میں صدیا نہیں لگتیں اور معاشرے میں انسان نما درندے روز بروز دندناتے جذبات کو کچلتے پھریں تو کچھ کمزور سوچ کے لوگ مایوسی کے شکار اپنے آپ سے دور اور حالات سے مقابلے کی سکت کھو بیٹھتے ہیں اور مردوں کی بالادستی کے معاشرے میں عورتوں سے جو حسن سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ بھی کسی سے دھکا چھپا نہیں ہے ایسے میں آسیہ سحر کی شاعری صبح کی کرن کی طرح ہے جو رات کی تاریکی کا سینہ چاک کر نمودار ہوتی ہے اور ہر طرف اپنی روشنی بکھیر دیتی ہے ۔

جہاں آسیہ سحرؔ نے اپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعے زمانے کے دکھوں کا پرچار کیا ہے وہاں اپنی کتاب ’’آنگن میں اُگے خواب‘‘ میں شامل افسانوں’’آکسیجن کہاں ہے؟‘‘ موسموں کی ادا‘‘ ’’ کس سے منصفی چاہیں ‘‘ اور ’’ ناموس ‘‘ کے ذریعے بھی پیار و محبت کا پیغام اور موجودہ صورتحال پر خوب نظر ثانی کی ہے ۔شعروں کا حوالہ دیکر مضمون کو مکمل کرنے کا قائل نہیں ہوں ،ایسی شاعری دلوں کو چھو لیتی ہے جو دل سے نکلی ہو ،لازمی نہیں کہ پوری کتاب کی معلومات فراہم کی جائے ’’آنگن میں اُگے خواب ‘‘ آپ کے ہاتھ میں ہے البتہ آسیہ سحر کی شاعری دل میں اتر جانے کی تاثیر رکھتی ہے۔

دل ٹھہر گیا ہو جیسے

وقت مر گیا ہو جیسے

اُ س نے آنا کیا چھوڑا

رستہ اُجر گیا ہو جیسے

ہمارے آج کے معاشرے میں لوگ جس مایوسی اور گٹھن کے شکار ہیں ان کیلئے آسیہ سحرؔ کی شاعری حوصلے اور جذبے کیساتھ صحرا میں بارش کی مانند ہے جہاں پانی کے قطرے اترنے کے بعد ہوا میں ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے اور صحرا نشینوں کو جینے کی آس پیدا ہوتی ہے ۔مجھے امید ہے کہ زمانے کے دئیے دکھوں سے کچھ پل کیلئے چھٹکارہ پانے کیلئے ’’ آنگن میں اُگے خواب‘‘ کو سہارا بنائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

Back to top button