کالمز
ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے
اگر چہ مردان ،پشاور ،سوات ،کرک اور بنوں میں بھی 2012کی ترقیاتی سکیمیں ادھوری پڑی ہیں مگر خیبر پختونخوا کے شمال میں واقع ضلع چترال کا بُرا حال ہواہے گذشتہ 4سالوں میں ضلع چترال کے اندر صوبائی حکومت نے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا ہر سال بجٹ کو استعمال کئے بغیر واپس کیا گیا 2013اور2015کے سیلابوں میں سڑکوں ،نہروں اور پُلوں کو جو نقصان پہنچاتھا اُن سکیموں کی مرمت نہیں ہوئی اس کے باوجود تقریروں میں سرکا ری عہدیدار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ترقیاتی عمل ہماری’’پہلی ترجیح‘‘ہے گذشتہ 3دنوں کے اخبارات میں تین بڑے لیڈروں کے بیانات ملاحظہ کریں تو آپ کو غصہ بھی آئے گا ہنسی بھی آئے گی سلیم خان ایم پی اے کا بیا ن سب سے اہم ہے آپ فرماتے ہیں چترال کی ترقی میری پہلی ترجیح ہے آپ نے شاید ڈسی آفس روڈ پر چترال گول ندی کے اوپر دو پیدل پُلوں کو نہیں دیکھا ہو گا بی بی فوزیہ یہ ایم پی اے اور پی ٹی آئی کے ضلعی صدر عبداللطیف نے دعویٰ کیا ہے کہ چترال سے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں ملے پھر بھی چترال کی ترقی پر پی ٹی آئی نے خطیر رقم خرچ کی ہے دونوں لیڈر شاید ہیلی کا پٹر میں آتے جاتے ہیں چترال ٹاون کے مرکز میں بازار کے اندر کشمیر بیکری اور ماونٹین اِن کے قریب گولدور کا پیدل پُل اور زنانہ سکول کے راستے میں زرگراندہ کا پیدل پُل دونوں نے نہیں دیکھا جولائی 2015ء میں دونوں پُل سیلاب میں بہہ گئے تھے اگر آفتاب شیر پاو ،اکرم درانی اور امیر حیدر خان ہوتی کی حکومت ہوتی تو یہ دونوں پُل 2مہینوں کے اندر بحال ہوجاتے پرویزخٹک اور عمران خان ، جہانگیر ترین وغیر ہ کی حکومت میں دو سال گزرنے تک دونوں پیدل پُل بحال نہیں ہوئے
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں میر ا بھلانہ ہوا
مرزاغالب نے تو یہ بھی کہا تھا ’’میں نہ اچھا ہوا بُرا نہ ہوا ‘‘سب سے بڑا بیا ن ضلع نا ظم حاجی مغفرت شا ہ کا آیا ہے انہوں نے یاد دلا دیا ہے کہ موجود ہ حکومت ریکا رڈ ترقیاتی کام کررہی ہے پو لو گراونڈ میں ترقیاتی منصوبے پر کام جاری ہے ہما ر اخیال ہے ضلع نا ظم نے کبھی چترال گول نالہ نہیں دیکھا انہوں نے کبھی گول دور اور زرگراندہ کے دو پیدل پُلوں کا حال نہیں دیکھا انہوں نے زندگی میں ایک بار بھی پولو گراونڈ کی طرف آ نکھ اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی اگر ضلع نا ظم چترال ٹاون کے حالات سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ پولو گراونڈ میں کسی منصوبے کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں تھی کسی کا مطالبہ بھی نہیں تھا اگر ضلع ناظم کبھی ڈی سی آفس جاتے ہوئے کشمیر بیکری سے زچہ بچہ ہسپتال کی طرف جانے والے راستے پر موڑکے پاس دائیں طرف دیکھتے تو ان کو بٹ خیلہ سے آئے ہو ئے تا جر کا جھولا (زانگو)نظر آتا جس کے ذریعے 10روپے دیکر سکول کے بچے اور بچیاں نیز ہسپتال جانے والی خواتیں ندی کو پار کرتی ہیں اگر کمیشن نہ لیا جائے تو3لاکھ روپے میں پیدل پُل بن سکتا ہے کمیشن ملاکر ٹینڈر جاری کیا جائے تو 10لاکھ روپے میں یہ پیدل پُل بحال ہو سکتاہے اسی طرح زرگراندہ میں زنانہ سکول کے سامنے اُن کو تین سیڑھیا ں نظر آئینگی دو سیڑھیوں کے ذریعے بچے اور بچیاں ندی کے اندر اترتی ہیں ایک سیڑھی کی مدد سے ندی کو پار کرتی ہیں جولائی 2015کے سیلاب کے بعد 22مہینے گذرگئے ضلع ناظم کو اقتدار میں آئے ہوئے 18 مہینے ہو گئے 6لاکھ روپے کی لاگت سے دو پیدل پلوں کو بحال کیا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہو اا گر چترال ٹاون کے اندر ترقیاتی سکیموں کا یہ حال ہے تو کریم اباد ،تریچ، کھوت ، لاسپور اور ارندو میں کیا حال ہو گا ؟
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی