کالمز

انسان یا کسٹمر

تحریر: بابر خان خانہ آبادی(اجُونے موری)

آج کل کے اس پُر فتن دور اور زمانے میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ؛
۱۔ ایک نا خواندہ شخص کی طرف سے کیا گیا کوئی بھی ناپسندیدہ فعل یا کام کسی حد تک قابلِ معافی ہوسکتا ہے اور اس کے لئے یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ وہ شخص نا خواندہ ہے۔
۲۔ پڑھے لکھے لوگ شدت پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔بہت سی شدت پسند کاروائیوں میں زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان ملوث پائے گئے ہیں۔
۳۔ دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات کیاہیں
۴۔ کیا دورانِ تعلیم ہمارے سکولوں، کالجوں،پری انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں، انجینئرنگ یونیورسٹیوں او ر میڈیکل کالجوں میں فنی علوم کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں پڑھنے والے طلباء کو دینِ اسلام کی ان بنیادی تعلیمات یعنی عفو ودرگزر، حلیمی، بُردباری،عاجزی، عدل وانصاف ، مساوات، رواداری، برابری، ایکد وسرے کی مدد، شرم وحیا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، مظلوم کی مدد کرنا اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا، بچوں سے شفقت اور بزرگوں سے ہمدردی ، مل کر کام کرنا اور مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے مل کر جدوجہدکرنا،بڑوں اور چھوٹوں کا خیال رکھنا، خواتین کا احترام اور ان کا خیال رکھنا ، ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھنااور اس طرح کے دیگر سماجی معاملات کے بارے میں بھی تعلیم دیجاتی ہے؟
میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا تمام اداروں میں دینِ اسلام کے ان بنیادی تعلیمات کے حوالے سے کچھ بھی نہیں بتایا جاتا ہے۔
ایک میڈیکل کے سٹوڈنٹ کو ان بنیادی تعلیمات کی بجائے پورے کورس کے دوران انسانی جسم کی بناوٹ اور اس کے اعضاء او ر ان اعضاء کے کام کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور بیماری کی صور ت میں بیماری کی علامات اور اس بیماری کے علاج کے بارے میں بتا یا جاتا ہے۔اور پھر عملی زندگی میں اپنے مریض یا گاہک یعنی کسٹمر کو مطمئن کرنے کے اصول بتائے جاتے ہیں۔ اس کو انسان اور انسانیت کے بارے میں کبھی بھی نہیں بتایا جا تا ہے بلکہ انسان کا نام تبدیل کرکے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت” کسٹمر” (Customer)رکھاگیا ہے۔اب جوبھی مریض کسی ڈاکٹر کے پاس اپنے علاج کی غرض سے جاتا ہے تو ڈاکٹر اس کے ساتھ ایک انسان کی حثیت سے نہیں بلکہ ایک کسٹمر کے طور پر اس کو دیکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے کسٹمر کو کس طرح مطمئن کرے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے اور یہ دینِ اسلام کے بنیادی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح دیگر شعبوں کے لوگ بھی عام لوگو ں کو بحثیت انسان نہیں بلکہ ان کو کسٹمر سمجھ کر ان کے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں۔ اب تو انسان کا نام اور انسانیت ختم ہوگئی ہے ان پیارے ناموں کی جگہ کسٹمر کے لفظ نے اپنی اجارہ داری قائم کی ہے اور ہر جگہ پر انسان نہیں بلکہ کسٹمر ہی نظر آتے ہیں جیسے؛
بجلی کا بل ادا کرنے والے کون ہیں ؟ کسٹمرز
موبائل استعمال کرنے والے کون ہیں؟ کسٹمرز
انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کون ہیں ؟ کسٹمرز
میں اور آپ کون ہیں؟ کسٹمرز
اب مندرجہ بالا اداروں سے دینِ اسلام کے بنیادی تعلیمات سے بے خبر صرف کسٹمر کو مطمئن کرنے کی ڈگری لے کر نکلنے والے لوگ جن کے ساتھ ہماری بڑی توقعات وابستہ ہوتی ہیں کہ یہ لوگ چونکہ پڑھے لکھے ہیں اور اس وجہ سے عام سماجی زندگی میں ہماری مدد کریں گے ۔ ہمیں کیا پتہ کہ یہ پڑھے لوگ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم تو ان کے کسٹمر ز ہیں اور ان لوگوں کو ان کے تعلیمی اداروں میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم نے عملی زندگی میں لوگوں کو انسان نہیں بلکہ کسٹمر سمجھ کر ان کے ساتھ اپنے معاملات چلانا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں یہ پڑھے لکھے جاہل لوگ جن کو اپنے دین کے بنیادی اصولوں کا نہیں پتہ اور نہ ان کو دورانِ تعلیم یہ بتایا گیا ہے کہ دینِ اسلام کی نظر میں انسانیت کیا چیز ہوتی ہے ، شدت پسند نہ بنیں گے تو اور کیا بنیں گے؟ اب ایسی ڈگری کے حامل لوگ جب کسی شدت پسند کاروائی میں ملوث ہوتے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا ، وہ یہ کاروائیاں دوسرے لوگوں کو انسان نہیں بلکہ کسٹمرز سمجھ کرتے ہیں اور ایسی کسی شدت پسند کاروئی میں اگر چند کسٹمرز کی جان چلی بھی جائے تو ان کے کسٹمرز کی تعداد میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ان کو کسی انسان جس میں ، میں اور آپ سب شامل ہیں کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں اور نہ ان کو ان کے تعلیمی اداروں میں انسان اور انسانیت کا کوئی درس دیا گیا ہے نہ ان تعلیمی اداروں میں ان کو یہ بتایا گیا ہے کہ عملی زندگی میں جب تمہارے پاس کوئی مجبور و لاچار یا کوئی مریض انسان آجائے تو تم لوگوں نے اس کا بہت خیال رکھنا، اس کی دادرسی کرنا، اس کی مدد کرنا، اگر وہ بیمار ہے تو اس کی صحت کا خیال رکھنا، ایسے لوگوں کے ساتھ کسٹمر ز نہیں بلکہ انسانوں والارویہ روا رکھنا۔ یہاں پر غلطی کس کی ہے؟سسٹم کی غلطی ہے یا اداروں کی غلطی ہے یا پڑھانے والے اساتذہ کی کوئی غلطی ہے؟میرے خیال میں اس میں تعلیمی پالیسیاں بنانے والوں کی سب سے زیادہ غلطی ہے۔ ورنہ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے لوگ پتھر بن کر کیوں نکلتے ہیں ؟ وہ مُوم کی طرح کیوں بن کر عملی زندگی میں نہیں آتے۔
کاش ہماری تعلیمی پالیسی میں دینِ اسلام کے مذکورہ بنیادی اصولوں کو شامل کیا جاتا اور ان بنیادی اصولوں کے تحت ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء کو دورانِ تعلیم، پورے کورس کے دوران دیگر فنی علوم کے ساتھ ساتھ یہ بھی سکھایا اور پڑھایاجاتا کہ:
۱۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو اپنے پیشے سے مخلص رہنا اور اپنی فیس بڑھانے کے بجائے مریض کی صحت یابی میں اس کی مدد کرنا اور ان کو کسٹمر کے بجائے انسان سمجھ کر مریض کے ساتھ معاملات طے کرنا
۲۔ اگر آپ انجینئر ہیں تو ائیر کنڈیشن دفتروں میں اور ایئر کنڈیشن گاڑیوں میں گھومنے کے بجائے ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے مجبور لوگوں کی مدد کریں اور ان کے فائدے کے لئے کام کریں
۳۔ اگر آپ جج یا وکیل ہیں تو اپنے پیشے سے انصاف کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی میں لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلے کرنا اور کسٹمر ز سے فیس لیکر اپنا بینک بیلنس بنانے کے بجائے انسانوں سے پیار کرنا اور ان کے درمیان عدل و مساوات قائم کرنا۔
۴۔ اگر آپ دکاندار ہیں تو ناپ تول میں کمی نہ کرنا، بلیک مارکیٹنگ نہ کرنا، بلاوجہ چیزوں کی قیمتیں نہ بڑھانا۔ کسٹمرز نہیں انسان کو انسان سمجھ کر ان سے پیار کرنا اور ممکن حد تک ان کی مددکرنا۔
میں نے اپنی آنے والی کتاب میں دین اسلام کے ان بنیادی اصولوں کو اجاگر کرنے کی ممکن حد تک کوشش کی ہے۔میرا خیال ہے کہ ان اصولوں پر عمل کیے بنا ہم اپنی زندگی کو کبھی بھی با مقصد نہیں بنا سکتے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button