تحریر: محمد صابر گولدور ، چترال
سعودی عرب امریکہ اتحاد کو ئی نئی اتحاد نہیں ہے بلکہ حالیہ ریاض مذاکرات ان ممالک کی 70سالہ اتحاد کا تجدید نو ہے ۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان 70سالوں سے جاری اتحاد میں اس وقت سرد مہری دیکھنے کو آئی کوآئی جب11/9کو ورلڈٹریڈ سنڑ کو دہشتگردوں نے گرایا۔ اس حملے میں 3000ہزار لو گ لقمۂ اجل بن گئے۔اس حملے میں کل 17دہشتگرد تھے جن میں سے 15 کاتعلق سعودی عرب سے تھا ۔ اس حملے کی و جہ سے امریکہ سعودی عرب اتحاد کو زبردست دھچکا لگا۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے لیے سخت الفاظ کا استعمال ہوا۔ امریکی عوام کی جانب سے ا مریکی حکومت پر دباؤ بڑھتاگیاکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو یکسر ختم کر کے اس کے خلاف کاروائی کی جائے مگر امریکی حکومت اس کی متحمل نہیں تھی اور نہ ہی ہو سکتی تھی۔ کیونکہ باہمی طور دو طرفہ مفادات دونوں ممالک کے وابستہ تھے ۔ 1933ء میںیہ دونوں ممالک امریکہ اور سعودی عرب پہلی بار ملے یہ وہ وقت تھا جب سعودی عرب میں تیل کا وجود ہی نہیں تھا بس امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ شاید تیل کے وافر ذخا ئر ہوں ۔ چونکہ امریکہ ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی سے لیس ملک تھا اور امریکی جانتے تھے کہ تیل کے وافر ذخائر سعودی خطے میں موجود ہیں لہذاسعودی حکومت نے ایک امریکی آئل کمپنی جس کانام اسٹنڈرڈ آئل کمپنی تھی کے ساتھ پانچ سالہ معاہدہ کیا سعودی عرب کے شہر دمام میں اس آئل کمپنی نے کام کرتے ہوئے خاطر خواہ کامیابی حاصل کیے اور تیل کے چند ذخائر دریافت کیے۔ اس دوران لگ بگ دس سال بیت گئے اور امریکی کمپنیاں سعودی عرب میں تیل کے حوالے سے کا م کرتے رہے اسی اثناسعودی عرب اور امریکہ نے ایک مشتر کہ انٹرنشینل آئل کمپنی کی ساکھ بھی رکھی جس کا نام ارامکو تھا۔بعد ازاں امریکہ سے سعودی عرب نے اس کمپنی کے باقی حصص بھی خرید لیے اب اس آئل کمپنی پرسعودی عرب کی مکمل گرفت ہے ۔ چونکہ ہم مسلمانوں کی ایک کمزوری یہ رہی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی میں باقی قوموں سے کافی پیچھے رہتے چلے آئے ہیں۔ اس وجہ سے ہم باقی اقوام کے ہاتھوں پر مجبوربھی رہ چکے ہیں ۔ سعودی عرب امریکہ کی تعاون اور مدد کے بغیر تیل کے ذخائر تک نہیں پہنچ سکتاتھا اور ناہی تیل کا صحیح استعمال کرسکتا تھا لہذا مجبوراسعودی عرب کو امریکہ کے ہاتھوں کئی بار استعما ل ہونا بھی پڑا۔ بہرحال ہر ایک ملک کی ذاتی مفاد اور پسند ناپسند کی بات ہوتی ہے۔ پھر ان تعلقات میں ایک نیاموڑ آیا۔ایک بحری جہاز میں ایک سعودی بادشاہ اورایک امریکی صدر کی ملاقات ہو تی ہے ان راہنماؤں کے درمیان ایک سمجھو تہ طے پاتاہے کہ سعودی عرب امریکہ کو تیل دے گا اور بدلے میں امریکہ سعودی عرب کی سکیورٹی کا خیا ل رکھے گا اسے دفاعی ساز و سامان دیگا۔حالیہ ریاض مذاکرات بھی اسی دفاعی معاہدے کی ایک نئی جہت ہے ۔ ان مذاکرات میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان 3 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔جس میں 150 ارب ڈالردفاعی سازو سامان اسلحہ وغیرہ کی خرید و فرخت اور 150 ارب ڈالر باقی شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔
ٹرمپ جب ریاض کے ائیر پورٹ پہنچے تو سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن السعود ان کے استقبال کے لیے وہاں پر موجود تھے۔اس موقعے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔امریکی صدر کے ساتھ ان کی اہلیہ ایلانیا ٹرمپ اور ان کی بیٹی ایونکا ٹرمپ اور ان کے شوہر بھی ساتھ تھے۔مسس ٹرمپ اور ان کی بیٹی خلاف روایت کھلے بال مگر فل ڈریس میں تھیں۔سعودی عرب میں ایک جشن کا سا سماں تھا۔ محفوظ امریکہ کے لیے محفوظ سعودی عرب ناگزیر ہے جس کے حصول کے لیے امریکہ کو اپنی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔اور خطے میں توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بڑھتی ہوئی طاقتوں کو لگام دینا ہوگا۔یہاں ایک بات اور میں بتاتا چلاوں کہ عرب ممالک میں عدم استحکام پاکستان کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔خلیجی ممالک میں جب بھی معاشی مسائل پیدا ہوئے پاکستانی معیشت بھی اس سے براہ راست متاثر ہوتی دیکھائی دی۔تقریبا 30 سے 35 لاکھ پاکستانی عرب ممالک میں کام کرتے یں جیسا کہ کویت ،قطر،یواے ای اور سعودی عرب وغیرہ وغیرہ۔جہاں سے لاکھوں، کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان منتقل ہوتا ہے۔یہی نہیں بلکہ سعودی عرب اور عرب ممالک پاکستان کے قریبی ملک حلیف اور اتحادی ہیں۔
ریاض اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بھی مدعو تھے ۔ اور ان کی امریکی صدر کے ساتھ الگ نشست بھی متوقع تھی مگر وقت کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا اور وزیر اعظم خطاب بھی نہ کر سکے۔کیونکہ امریکی صدر کو ریاض اجلاس میں تین الگ الگ اجلاسوں میں شرکت کرنی تھی۔بہرحال پاکستان کی اس اجلاس میں شمولیت بھی اہمیت کی حامل تھی۔اس اجلاس کے فوائد بہت زیادہ دور رس اور افادیت کے ساتھ ساتھ تاریخی بھی تھے۔سعودی عرب امریکہ 70 سالہ اتحاد کی تاریخ کے سب سے بڑے اور جامع معاہدوں پر دستخط ہوئے۔مگرریاض مذاکرات کے منفی پہلوؤں میں سے ایک بڑا پہلو بقول ڈاکٹر فیضی صاحب کے ان مذاکرات کی بنا پر بیجنگ اور ریاض کے درمیان بڑھتے فاصلے ہیں۔میں فیضی صاحب کی بات سے مکمل اتفاق کروں گا کیونکہ مجھے یاد آرہا ہے جب امریکی صدارتی انتخابات قریب تھے اور ٹرمپ کو اسلام مخالف اور اسلام دشمن وغیرہ کہا جارہا تھا۔اور سعودی عرب کے اندر بھی تشویش پائی جارہی تھی کہ ٹرمپ امیریکی انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ سعودی عرب کے ساتھ برا کریں گے مبادہ سعودی عرب کو ایک دہشتگرد ملک ثابت کرنے کے لیے بل پاس کریں ان خدشات کی بنا پر سعودی عرب کے سلامتی امور کے وزیر اچانک چین کا دورہ کرتے ہیں اور دفاعی اور سکیورٹی کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہیں ۔مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بعد الیکشن سعودی عرب کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا ہی دونوں ممالک کو پھر سے ایک صف پر لے آئی۔
مختصرا ریاض اجلاس خطے میں توازن کو صحیح معنوں میں برقرار رکھنے کے لیے بالکل درست اقدام تھا جو کے آنے والے وقتوں میں درست فیصلہ ثابت ہوگا۔اجلاس میں طے شدہ فیصلوں کی رو سے عرب ممالک میں استحکام آئے گا اور دہشتگردی اورخانہ جنگی کا بھی خاتمہ ہوگا۔اور سعودی معیشت پھر سے بہتری کی جانب گامزن ہو جائے گی۔جس کے فوائد خلیج ممالک سمیت آس پڑوس کے ممالک کو بھی پہنچیں گے۔پھر ایران کی بے جا مداخلت اور دہشتگردوں کی مالی معاونت اور ان کی تربیت کی راہ میں رکاوٹ ڈا ل کرعرب ممالک کو خانہ جنگی سے نکالا جائے گا۔اور پھر سے یمن بحرین شام اور عراق میں امن و آمان کی سی صورت حال پیداکی جائے گی۔ایران کے خلاف سعودی عرب اورا تحادی ممالک کو مضبوط کیا جائے گا۔بین الاقوامی سیاست اور دوست دشمن ممالک کے مابین آئے روز تعلقات کے اتارچڑھاؤ کو دیکھ کر میں ریاض اجلاس کو خطے کے بہتر مفاد میں دیکھتا ہوں خصوصا پاکستان کے لیے بھی اس میں بہت سے فوائد پوشیدہ ہیں ۔جو کہ آنے والے وقتوں میں نظر آئیں گے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button