ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی ؔ
عید الفطر میں ابھی 25دن رہتے ہیں چاند دیکھنے کا جھگڑاا روز بروز کسی نہ کسی صورت میں زور پکڑتا جا رہا ہے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وفا قی حکومت کی وزارت مذہبی امور نے شعبا ن سمیت 5دیگر مہینوں کو 30دن کا کر لیا اب شرمند گی سے بچنے کے لئے رمضان کو بھی 30دنوں کامہینہ بنا یا جائے گا ورنہ وزارت مذہبی امور کے اعلان پر روزہ رکھنے والوں کے روزے 27ہو نگے ایک روزہ پہلے دن کم ہوا دوسرا روزہ آخری دن کم ہو گا دیگر حلقوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ رُویت ہلا ل کمیٹی کو 28سال ہو گئے اب یہ کمیٹی ٹوٹ جا نی چاہیے مولانا تقی عثما نی ،مولانا مفتی زر ولی خان ،مولانا شہاب الدین پو پلزی یا کسی اور عالم دین کی سربراہی میں نئی کمیٹی بننی چاہیے جس کی بنیا د جہل ، عناد ، ضد اور دشمنی کی جگہ علم ، اخلاص اور محبت پر رکھی گئی ہو ’’ انتہا پسند ‘‘ مسلمانوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ وزارت مذہبی امور کو ختم کر کے اس کا حج والا حصہ دفتر خارجہ کے ڈویژن میں اور رُویت ہلال ، سیرت کا نفرنس وغیر ہ کے شعبے وزارت داخلہ میں ضم کئے جائیں بھارت ، نیپال ، جاپان ، چین، امریکہ اور برطانیہ میں مذہبی امور کی وزارت نہیں وہاں کے مسلمان حج بھی کرتے ہیں روزہ بھی رکھتے ہیں اعتدال پسند مسلمانوں کا خیا ل ہے کہ وزارت مذہبی امور ’’ بد عت حسنہ ‘‘ ہے اس کو برقر ار رہنا چاہیے البتہ مرکزی رویت ہلا ل کمیٹی ’’ بد عت سےۂ‘‘ کے زمرے میںآتا ہے اس کا بور یا بستر گول ہونا چاہیے رویت ہلال کمیٹی بنی کر یم ﷺ کی مبارک زندگی میں نہیں تھی خلفائے راشدین کے دور میں نہیں تھی اس بد عت کاسر کچل دینا چاہیے بنیاد پر ستوں کا ایک گروہ اس پر سوال اُٹھا تا ہے کہ بنی کریم ﷺ کی مبارک زندگی میں سنی اور شیعہ بھی نہیں تھے دیو بندی اور بریلوی بھی نہیں تھے تو حید لا سلام کے دو جنگجو دھڑ ے بھی نہیں تھے لشکر اسلام اور انصار اسلام کی آپس میں لڑائی بھی نہیں تھی سپا ہ صحابہؓ اور سپاہ محمدﷺ کی آپس میں دشمنی بھی نہیں آخر ان تمام بدعتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے اگر یہ ساری بد عتیں اسلام کا لازمی حصہ بن چکی ہیں تو رویت ہلا ل کمیٹی کی صورت میں ایک اور بد عت کو قبول کر نے میںآخر کیا ہر ج ہے ؟ ہم جیسے سادہ لوح مسلمان جو 5 اوقات کی نمازیں پڑھ کر سربکف اور دست بہ شمشیر بیٹھے ہیں پشتو محاورے کی رُو سے املوک کے تول میں حساب ہو کر نہ تین میں آتے ہیں نہ تیر ہ میں بلکہ تین پانچ کی صورت میں نو دو گیا رہ ہو جاتے ہیں رمضان المبارک کی آمد سے پہلے وفاقی حکومت کی طرف سے ایک کو شش ہوئی تھی کہ پورے ملک میں ایک دن روزہ ہو مگر اس کی راہ میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی حائل ہوئی کمیٹی کے چےئر مین نے چاند ہونے کی 120شہادتوں کو مسترد کرنے کے بعد اعلان کیا کہ ’’قابل قبول شہادت‘‘موصول نہیں ہوئی ’’قابل قبول ‘‘کی ترکیب میں ’’انا نیت ‘‘کا بُت چھپا ہوا ہے یہ بُت کسی شہادت کو قبول کرنے نہیں دیتا ورنہ شریعت میں دو شہادتیں کا فی ہو ا کرتی ہیں گردن کا سر یا بہت خطرناک ہے یہ سر یا گردن کو جھکانے نہیں دیتا خیبر پختو نخوا کے 12بڑے اضلاع میں شعبان کا چاند 29تاریخ کو نظر آیا ہفتہ 27مئی کو پہلا روزہ رکھا گیا 14 اضلاع میں مطلع ابرآلود تھا ریڈیو اور ٹیلی وژن پر وزارت مذہبی امور کے اعلان کا انتظار کیا گیا اتوار 28مئی کو پہلا روزہ ہو ا پہلے روزے کے دن غروب آفتاب سے 40منٹ پہلے مہینے کی دوسری تاریخ کا چاند نظر آیا پہلی تاریخ کا چاند بمشکل 5منٹ یا 7منٹ کے لئے جلوہ دکھاتا ہے 40منٹ تک نظارا کبھی نہیں دیتا بعض مسلمان پہلا روزہ ضائع ہونے پر فکر مند ہیں بعض لوگ کہتے ہیں ’’ اَلاَ بَلا بہ گردنِ مُلا‘‘یہ پشتو میں ضرب المشل ہے جب مولوی سے فتوی لیکر گنا ہ کا کوئی کام کیا جائے تو اس گنا ہ کے وبال سے بچنے کا یہ بہانہ تراشا جاتا ہے کہ یہ جیسابھی گناہ ہے اس کا ذمہ دار مولوی ہے اب بال حکومت کے کو رٹ میں ہے اگر حکومت عیدالفطر پر قوم کو متحد دیکھنا چاہتی ہے تو 28سال پہلے قائم ہونے والی رُویت ہلا ل کمیٹی کو تحلیل کرکے دوسری کمیٹی بنائے کمیٹی کا سربراہ ایسا عالم دین ہونا چاہیے جس کو پتہ ہو کہ قمری سال کے 10مہینے 29دن اور صرف 2مہینے 30دن ہو تے ہیں 30 دن والے 8 مہینے لانے کی گنجائش نہیں ہوتی جن لوگوں نے وزارت مذہبی امور کے اعلان کی روشنی میں یکم رمضان کا روزہ نہیں رکھا ان پر کفار ہ لازم ہو اہے مگر وہ کہتے ہیں کوئی کفارہ نہیں ’’الا بلا بہ گردن ملا ‘‘
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button