کالمز

حکومت کا روزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تنویر احمد

رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اپنی پوری رحمتوں کے ساتھ جاری ہے ،روزہ بنیادی طور پر تحمل و برداشت کا نام ہے اس ماہ صیام میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح گلگت بلتستان کے باسی بھی اس کے تینوں عشروں سے عملی و روحانی طور پر فیضیاب ہورہے ہیں۔لیکن غریب اور متوسط طبقے کو اس ماہ مبارک میں بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔وفاقی حکومت نے رمضان المبارک میں کئی ارب روپے کی سبسڈی دی ہے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے اسی طرح ملک کے دیگر صوبوں کی حکومتوں نے بھی عوام کی سہولت کے لئے اشیائے خورد ونوش پر سبسڈی دی ہے ،گلگت بلتستان واحد صوبہ ہے جہاں عوام کو یوٹیلیٹی سٹورز میں دستیاب اشیائے ضروریہ کی سبسڈی پر ہی اکتفا کرنا پڑرہا ہے۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت جس کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر عوام کو ماہ صیام میں چند کروڑ روپے کا کوئی ریلیف دینے کی بجائے چپ کا بھی روزہ رکھے ہوئے ہے۔گلگت بلتستان حکومت کی اس حوالے سے خاموشی کو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت کی مقامی انتظامیہ نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر میں رمضان سستا بازار کا اہتمام کیا ہے جہاں دن بھر کی مشقت کے بعد شام کو گھر لوٹنے والے مزدوروں اور متوسط طبقے کو عام مارکیٹ کے مقابلے میں دس سے پندرہ فیصد سستے نرخوں میں اشیائے خورد ونوش مل رہی ہیں اور اس رمضان سستا بازار کا رخ کرنے والے لوگ انتظامیہ کے اس اقدام کو سرارہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ صوبائی حکومت ماہ صیام کے دوران کوئی سبسڈی عوام کو نہیں دے رہی ہے۔ بہر صورت عوام کے اس سوال کا جواب وزیر اعلیٰ ہی دے سکتے ہیں جنہیں منتخب کر کے عوام نے اپنا خادم اعلیٰ بنایا ہے۔محدود وسائل کے باوجود مقامی انتظامیہ کی طرف سے لگایا گیا رمضان سستا بازار یقینی طور پر ایک قابل تحسین اقدام ہے جس کا سہرا انتظامی سربراہ کو ہی جاتا ہے۔شہر کے بازاروں میں مہنگائی کنٹرول کرنے میں بھی انتظامیہ کا کردارقابل ستائش ہے ماضی میں رمضان المبارک کے دوران دکاندار بالخصوص پھل اور سبزیوں کے دکاندار فٹ پاتھ پر بھی قابض ہوتے تھے اور پیدل چلنے والے افراد کو سڑک کے بیچوں بیچ سے گزرنا ہوتا تھا یہ صورتحال گزشتہ کچھ عرصے کے دوران تبدیل ہو چکی ہے اور مہنگائی پر بھی بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو رہا ہے۔ گلگت بلتستان حکومت گو کہ مفاد عامہ کے بہت سے کاموں میں کامیاب ٹھری ہے لیکن براہ راست عوام کو ریلیف پہنچانے کے کاموں میں اب بھی حکومت کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کو چاہیئے کہ وہ اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائے اور اپنے سیاسی گرو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرح کم از کم رمضان کے مہینے میں گلگت بلتستان کے عوام کو براہ راست ریلیف پہنچانے کے لئے رمضان پیکج کینام سے تھوڑی سی سبسڈی فراہم کرے کیوں کی گلگت بلتستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے میں غریب افراد کے لئے ان کا اس طرح کا کوئی اقدام ان کے سیاسی قد کاٹھ میں مذید اضافے کا باعث بھی بنے گا جس کا فائدہ انہیں میدان سیاست میں بھی ہو گا۔ مقامی انتظامیہ کا رمضان سستا بازار ہی گلگت کے عوام کے لئے سب سے بڑا رمضان پیکیج ہے اور حکومت کا روزہ چپ کا روزہ ہے۔قارئین کرام میرے خیال میں اگر صوبائی حکومت ماہ صیام کے دوران عوام کے لئے اپنے خزانے سے چند کروڑ روپے خرچ کرتی ہے تو اس کا اجر بھی اسے عوامی پزیرائی کی شکل میں ملے گا اور عوامی خدمت کا دعویٰ بھی پورا ہوگا۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں شاید ایسی ہی صورتحال ہے جن علاقوں میں یوٹیلیٹی سٹورز دستیاب نہیں وہاں کے روزہ داروں کو گاوں کی گنی چنی دکانوں میں کئی گنا مہنگے داموں اشیائے ضروریہ خریدنا پڑ رہی ہیں اور کیوں نہ ہو جب صوبائی دارلحکومت میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں تو میلوں دور گاوں کے باسیوں کی فریاد کون سنے گا۔وزیر اعلیٰ صاحب کو بچت کی بڑی فکر رہتی ہے وہ علاقے کے وسائل بچاکر اسے ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں بھلے اس دوران عوام جئے یا مرے۔لیکن اگر انہی بچائے ہوئے پیسوں فلاح عامہ پر صرف کیا جائے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ وزیر اعلیٰ صاحب سرکاری میٹینگز سے فرصت ہو تو ایک نظر گلگت کے باسیوں کے رمضان پیکیج کی طرف بھی توجہ مبذول کیجئے گا اور انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں اکرام سے نوازیئے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button