کالمز

گونگی آبادی کو زبان دو

پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے شماریات ڈویژن کو حکم دیاہے کہ گونگی آبادی کو زبان دوآنے والی مردم شماری میں چترال ، گلگت بلتستان اور پاک وطن کے بڑے شہروں میں بسنے والی 20لاکھ آبادی کی مادری زبان کھوار کو بھی شامل کرو1998کی مردم شماری میں ہندکو ، کشمیری اور براہوی مادری زبانوں میں شامل نہیں تھے پشاور ہائی کورٹ نے 1998ء میں اخونزادہ مختار علی نیئر وغیرہ بنام سرکار کے زیر عنوان رٹ پٹیشن پر فیصلہ دیا اور 2017کی مردی شماری میں 3نئی زبانوں کو شامل کیا گیا اگر عدالت کا حکم نہ ہوتا تو 1911کے فارم کو لیکر مردم شماری کرائی جاتی اور چار مادری زبانوں کے ساتھ قومی زبان اردو کو لیکر باقی زبانوں کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ۔

شماریات ڈویژن کا کام مردم شماری ہے جو 10سال بعد ہونی چاہیے اس ڈویژن کی نالائقی ، حکام کی نا اہلی اور سستی کی وجہ سے 20سال بعد مردم شماری ہوتی ہے اس میں زبانوں اور مذاہب کو شامل نہیں کیا جاتا ایک کنبے کے بارے میں جو معلومات حاصل کی جاتی ہیں ان میں مذہب اور زبان کا ذکر نہیں ہے۔ گویا کنبے میں 5افراد رہتے ہیں ان کا کوئی مذہب نہیں، ان کی کوئی زبان نہیں یہ گونگی آبادی ہے اور کسی بھی مذہب کو نہیں مانتی۔ چترال اور گلگت بلتستان میں مردم شماری کا عملہ جو معلومات جمع کرتا ہے وہ مذہب کے خانے میں صفر اور زبان کے خانے میں صفر لکھتا ہے کیونکہ دنیا کی قدیم ترین مذہب کالاش کا نام اس فارم میں نہیں ہے سنسکرت کے بعد سب سے پرانی زبان کھوار کا نام اس فارم میں نہیں ہے کھوار بولنے والوں کی گنتی وغیرہ وغیرہ یا دیگر کے خانے میں درج ہوتی ہے جس کیلئے خانے کے اندر صفر لکھ دیا جاتا ہے مشہور شعراء امین الرحمن چغتائی ؔ ، نقیب اللہ رازیؔ ، فضل الرحمن شاہدؔ ، ذاکرمحمد زخمیؔ اور مہربان الہٰی حنفیؔ کے فارم میں مادری زبان صفر لکھا گیا ۔ پروفیسر اسرار الدین ، ڈاکٹر میر کلان شاہ، بریگیڈئیر خوش محمد خان ، قاری بزرگ شاہ الازہری اور مولانا عبدلاکبر چترالی کے فارم میں مادری زبان کے لئے صفر لکھا گیا گویا پاکستان میں کھوار بولنے والوں کی 20لاکھ آبادی گونگی ہے تاہم شکر ہے کہ شاہد علی خان یفتالی وغیرہ بنام فیڈریشن کے عنوان سے جو رٹ پٹیشن بیرسٹر وقار علی اینڈ عامر علی ایڈوکیٹس نے پشاور ہائی کورٹ میں داخل کی تھی شماریات ڈویژن کے حکام نے جواب دعویٰ داخل کرنے میں لیت ولعل سے کام لیاتیسری پیشی میں جواب دعویٰ داخل ہوا تو اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے اُٹھائے گئے نکات کا کوئی جواب نہیں تھامادری زبان کی شناخت کے حق سے آبادی کو محروم کرنے کے جرم پرکوئی تبصرہ نہیں تھا اس میں دو طرح کے عذر پیش کئے گئے پہلا عذر یہ تھا کہ مردم شماری عنقریب ہونے والی ہے اس کا سافٹ وئیر لندن سے منگوایا گیا ہے اس سافٹ وئیرکو لندن کی کمپنی کے سوا کوئی تبدیل نہیں کرسکتا اس لئے موجودہ مردم شماری میں کسی نئی زبان کا اندراج ممکن نہیں مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے پیرسٹر وقار علی خان نے موقف اختیار کیا کہ سافٹ وئیر کی ڈیزاننگ کے وقت مادری زبانوں کو اس میں شامل کرنا شماریات ڈویژن کی ذمہ داری تھی اس ڈویژن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی عدالت عالیہ انسانی حقوق کے اہم مقدمے میں وفاقی حکومت کواس حوالے سے حکم دے سکتی ہے عدالت عالیہ کا فیصلہ ایک سنگ میل ثابت ہوگا فیصلے والے دن پشاور ہائی کورٹ کا کورٹ روم نمبر ون کھچا کھچ بھرا ہوا تھا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ اس پر وفاقی حکومت کا موقف بھی سنایا گیا، صوبائی حکومت اور صوبائی سینسس کمیشنر کا موقف بھی سنایا گیاپچھلے 3مہینوں کے دوران عدالت کی کاروائی کا پورا ریکارڈ ملاحظہ کرنے کے بعد عدالت عالیہ نے فیصلہ سنایا کہ کھوار کو مردم شماری کے فارم میں مادری زبان کے طور پر شامل کیا جائے یوں گونگی آبادی کو زبان مل گئی موجودہ مردم شماری گزر چکی ہے اگلی مردم شماری میں چترال ، گلگت بلتستان ،غذر اور پاکستان کے بڑے شہروں میں رہنے والی 20لاکھ آبادی کی زبان کھوار کو الگ نمبر الاٹ ہوگا اور مردم شماری دستاویز میں کھوار بولنے والوں کی آبادی کو الگ دکھایا جائیگا۔

اگرچہ عدالت عالیہ کا فیصلہ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے تاہم ’’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘ ابھی پاکستان میں 74زبانوں میں سے 65مادری زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کو شماریات ڈویژن نے صفر کے ساتھ ضرب دیا ہے مردم شماری کی دستاویز میں ان زبانوں کا ذکر نہیں۔ یورپ ، امریکہ، چین اور جاپان کے محققین جب ریسرچ کے لئے آتے ہیں مردم شماری رپورٹ اٹھاتے ہیں تو مایوس ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسی مردم شماری ہے جس میں بلتی، بروشسکی، شینا ، وخی، کھوار ، کلاشہ ، گاوری اور توروالی کی طرح اہم مادری زبانوں کا ذکر نہیں ہے؟ یہ کیسی رپورٹ ہے جس میں یدغہ اور اُرمڑی زبانوں کا نام تک نہیں لیا گیا جو زرتشت کے دور کی باقیات میں اہم شمار کی جاتی ہیں؟

عدالت عالیہ کا حکم آیا تو ایک دوست نے گرہ لگائی ’’ بہت دیر کی مہربان آتے آتے ‘‘ ہم نے منیر نیازی کا مصرعہ پیش کیا ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ‘‘ بزرگوں کا قول ہے’’دیر آید درست آید‘‘۔چترال کی رائے عامہ کے لیڈروں نے بیرسٹر وقار علی ، عامر علی اور ان کی ٹیم کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ عدالت عالیہ کے حکم کو آنے والی نسلیں سنگ میل کے طور پر یاد رکھینگی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button