کالمز

پارلیمانی سال کا آغاز

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہوا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اپنے خطاب میں انہوں نے معزز ایوان کو یا دلایا کہ پاکستان میں جمہوریت نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں درحقیقت اس روز بھی پارلیمنٹ کے اندر جمہوریت نے نشیب و فراز کو قریب سے دیکھا پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے سینئر صحافیوں اور مہمانوں کی گیلری سے نظارہ دیکھنے والے سفارت کاروں نے ایک دوسرے کے کانوں میں ایک ہی سرگوشی کی ’’کیا آئین میں ترمیم کرکے صدر کے خطاب کی رسم کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟‘‘ سب کا اتفاق تھا کہ 2018آنے سے پہلے آئین میں ترمیم کرکے اس رسم کو ختم کرنا چاہیے مسلم لیگ (ن) 1989ء میں اپوزیشن کی بڑی جماعت تھی اور اس سال غلام اسحاق خان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کے لئے آئے تو مسلم لیگ (ن) نے ’’گو بابا گو‘‘ کے نعروں سے ایوان کو مچھلی بازار بنا دیا صدر مملکت نے شور شرابے میں ایوان سے خطاب کیا ایوان میں اپوزیشن نے صدر کے خطاب کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیے پارلیمنٹ کا فرش ردی کاغذات سے بھر گیا اس واقعے کو 28سال گذر گئے 28سالوں میں 3سال ایسے خوش قسمتی کے تھے جب پارلیمنٹ نہیں تھی 5سال ایسے خوش نصیب تھے جب صدر مملکت چیف آف آرمی سٹاف تھا باقی 20سال ایسے بدنصیبی کے سال تھے کہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کاذاتی دشمن حکومت میں آیا اوراس نے ذاتی دشمنی اور انتقام کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہلٹر بازی اور غنڈہ گردی کا وطیرہ اختیار کیا ہر سال صدر کے خطاب کی کاپیاں پھاڑی گئیں ہر سال معزز ایوان کی توہین کی گئی اس لئے اب سنجیدہ حلقے یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کی رسم کو ختم کرنا پارلیمنٹ ، جمہوریت اور آئین کے مفاد میں ہوگا اس روز بد قسمتی سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی ’’یہ کاروائی‘‘ٹیلی وژن چینلوں پر براہ راست دکھائی جارہی تھی پاکستانی بھی یہ کاروائی دیکھ رہے تھے غیر ملکی بھی یہ روداد سن رہے تھے اور تماشا ان کے آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا امریکہ، برطانیہ ، مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا سر اس روز شرم کے مارے جھکا جارہا تھا وہ افسوس کے ساتھ کہہ رہے تھے کاش!ملک میں ایوب خان ، یحییٰ خان ،ضیاء الحق یا مشرف کی حکومت ہوتی یا ہماری پارلیمنٹ ہی نہ ہوتی یا پارلیمنٹ کے اوپر کسی جرنیل کا ’’ڈنڈا‘‘ لہرا رہا ہوتاپنجابی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ آسمان سے پانچ کتابیں اتاری گئیں اور پانچویں کتاب کا نام ڈنڈا رکھا گیاپاکستان کے موجودہ جمہوری مسائل کا واحد حل پانجویں آسمانی کتاب ہے اس کا کوئی دوسرا حل نہیں افتخارعارف کی غزل کا شعر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر حرف بحرف صادق آتا ہے
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
کہانی یہ ہے کہ دو یا تین کنبوں کی ذاتی دشمنی ہے اس ذاتی دشمنی نے سیاست پر قبضہ کیا ہوا ہے ہر گروہ نے اتحادی ڈھونڈ لیا ہے اور ان گروہوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پارلیمنٹ کے ایوان اور عدلیہ کے کورٹ روم کو میدان جنگ بنالیا ہے پارلیمنٹ کے ایوان میں شہری حقوق پر بحث کبھی نہیں ہوتی عدالتوں میں شہریوں کو انصاف مہیا کرنے کے مقدمے کبھی راہ نہیں پاتے سیاست کے نام پر ذاتی دشمنی کا انتقام لینے والے پریشر گروپ کبھی پارلیمنٹ کو استعمال کرتے ہیں کبھی عدالت کو استعمال کرتے ہیں پارلیمنٹ میں شہریوں کے مسائل ہمیشہ زیر التوا رہتے ہیں عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات 25سالوں میں بھی فیصلے تک نہیں پہنچتے نان ایشوز پر سیاسی جھگڑے عدالتوں کا وقت لیتے ہیں بھارت ، ایران ، ترکی، امریکہ اور برطانیہ کی پارلیمنٹ کے اراکین شہری سہولیات پر بحث کرتے ہیں سوشل سیکورٹی پر اظہار خیال کرتے ہیں انصاف کی فراہمی پر بات کرتے ہیں شہری سہولیات پر گرما گرم تقاریر ہوتی ہیں شہریوں کو دی جانے والی مراعات پر بحث اور قانوں سازی ہوتی ہے ہمارے ہاں اس طرح کے عوامی مسائل پارلیمنٹ میں کبھی زیر بحث نہیں آتے عوامی مسائل پر اپوزیشن بائیکاٹ نہیں کرتی ، اپوزیشن میں جو بھی ہو ، مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلز پارٹی ہو، ایم کیوایم ہو، جماعت اسلامی ہو، جمعیتہ العلمائے اسلام ہویا اے این پی ہو یا تحریک انصاف ہو، اپوزیشن کا شور نان ایشوز پر ہوتا ہے، خورشید شاہ کی تقریر ٹی وی پر کیوں نہیں دکھائی گئی؟ پانامہ کیس سننے والے ججوں کو کیوں دھمکیاں دی گئیں؟ عمران خان پر منی لانڈرنگ کا الزام کیوں لگایا گیا؟ اس طرح نان ایشوز پرپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہنگامہ ہوتا ہے آرمی چیف مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر اس ہنگامے سے لطف اندوز ہوتا ہے مارشل لاء کے حامی یہ منظر دیکھ کر کہتے ہیں ایسی جمہوریت سے ’’پانجویں کتاب ‘‘ کی حکومت ہزار گنا بہتر ہے ٹی وی پر اس طرح کے شرم ناک مناظر دیکھنے والے افتخار عارف کا شعر زیر لب گنگناتے ہیں
سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہینگی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملک کے سالانہ خطاب کے موقع پر اپوزیشن کا شرم ناک ہنگامہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا بیسواں ہنگامہ تھا دوسری پارٹی اپوزیشن میں ہوگی تو اس کا بدلہ چکائیگی اس لئے سنجیدہ حلقوں کا جائز مطالبہ ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کی سالانہ تقریر والی رسم کو ختم کیا جائے ’’ نہ رہے بانس نہ بجے نانسری‘‘

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button