کالمز

صدقات خیرات اور دہشتگرد تنظیمیں

اعزاز احمد

مذہب سے ہر انسان کی وابستگی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے لیکن بعض اوقات ہم جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی قدم ایسا اٹھاتے ہیں جس سے مذہب کی خدمت تو نہیں بلکہ انسانوں کی بربادی کا سامان کرتے ہیں ہم جس دین کے پیروکار ہیں وہ تو انسا کی فلاح کی بات کرتا ہے اسلام سلامتی کا دین ہے اور انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے اسلام صدقات اور خیرات کا درس دیتا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حق حقدار تک پہنچے ،ایسا نہ ہو کہ ہمارا صدقہ اور خیرات انسانوں کی فلاح کے بجائے انسانوں کی بربادی پر لگا دیا جا ئے ،رمضان المبارک میں تو مسلمان صدقات اور خیرات زیادہ کرتے ہیں اور با الخصوص ہمارے ملک پاکستان میں دل کھول کر صدقہ اور خیرات کیا جاتا ہے ، چندہ زندگی چھیننے کے بجائے بچانے والوں کو ملنا چاہیے۔

آج پاکستان میں یہ بات لازم ہو گئی ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری دی گئی زکواۃ، خیرات اور صدقات غریب و نادار لوگوں کی فلاح و بہبود، نیکی کی راہ اور دوائی لینے پر خرچ ہو رہی ہے یا اس سے ہماری ہی زندگیاں چھیننے کے لئے خودکش جیکٹس اور بم تیار تو نہیں کئے جا رہے،کیونکہ اس کا جواب قیامت کے روز بھی دینا پڑے گا۔

پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ خیرات دینے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔پاکستان صدقات، خیرات اور عطیات دینے والے دنیا بڑے چار ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جس کے عوام سالانہ 554 ارب روپے سالانہ صدقات، خیرات اور زکواۃ کی مدد میں لوگوں اور اداروں کو عطیہ کرتے ہیں۔554 ارب روپے سالانہ صدقات، خیرات اور زکواۃ کی مدد میں لوگوں اور اداروں کو عطیہ کرتے ہیں لیکن ریسریچ کے مطابق ان رقم کی90 فیصد فلاحی کام کی بجائے دہشت گردی، انتہا پسندی اور فلاحی اداروں کے بجلی، گیس اور دفاتر کی کرایہ کی مد میں ضائع ہورہی ہے جس سے غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور حق حقدار کو پہنچنے سے رہ جاتاہے۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مختلف رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ ادارے صدقات، فطرات اور زکوٰۃ جمع کرنے کیلئے سرگرم ہوجاتے ہیں تاہم ہر سال علماء کرام کی طرف سے شہریوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ صدقات اور خیرات کی ادائیگی سوچ سمجھ کر اور صرف رجسٹرڈ اداروں کو دیں تاکہ ان عطیات کا غلط استعمال مکمل طور پر ختم ہو سکے۔ نیک نام رجسٹرڈ تنظیم کو اپنے عطیات دیں۔ اس کام میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ ان عطیات کو دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں سے بچایا جا سکے۔عوام دہشت گردگروہوں کے طریقہ واردات سے واقفیت حاصل کریں۔ القاعدہ، داعش، تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اور دیگر تخریب کار گروہ براہ راست ان رقوم کو اکٹھا کرتے ہیں تاہم ان کے فرنٹ آرگنائزیشن ہی بنیادی طور پر اس مہم میں حصہ لیتی ہیں۔ یہ گروہ مسجدوں، مدرسوں جہاد اور یتیموں اور بیوؤں کی فلاح و بہبود کی آڑ میں یہ کاروائی سر انجام دیتے ہیں۔ ان تنظیموں کا پروپیگینڈا انہی امور اور موضوعات کے گرد گھومتا ہے۔ اگر عوام چند نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے زکوٰۃ وخیرات کی ادائیگی کریں تو انتہا پسند گروہوں کے ہتھکنڈوں سے بچا جا سکتا ہے ۔

ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے اور افواج پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مصروف عمل ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں سے اپنے عطیات اور صدقات اور فطرانہ پہنچنے سے بچانے کیلئے انتہائی احتیاط، چھان بین کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں کی آلہ کار کوئی تنظیم یا فرد یہ عطیات حاصل نہ کر سکیں۔ بعض رجسٹرڈ ادارے منظم طریقہ سے مخیر اور مستحق افراد تک لوگوں کے عطیات پہنچاتے ہیں اور بعض جعلساز ادارے بھی سرگرم ہیں کیونکہ رمضان المبارک کے دوران ہر مسلمان روزہ دار اپنا فطرانہ، زکوٰۃ، خیرات ادا کرتا ہے۔ ماہ رمضان میں ہر شخص کی زیادہ سے زیادہ اجروثوت کمانے کی کوشش ہوتی ہے۔ عوام اپنے خیرات، صدقات اور زکواۃ رجسٹرڈ دینی مدارس اور فلاحی تنظیموں کو دیں لیکن پہلے اپنے پڑوس میں یتیم، مساکین اور غریب لوگوں کا امداد کرے جو انھیں جانتے ہیں کہ اس کو خیرات اور صدقات کی ضرورت ہے،کہاکہ تاجر بھی کسی ادارے کے چندہ بکس رکھتے وقت تسلی کریں کہ واقعی یہ ٹھیک ادارے کا چندہ بکس ہے۔ بعض ادارے، شرپسند عناصر اور دھوکے باز لوگوں کے چندہ کے بارے لاعلمی کا غلط فائدہ اٹھا کر انسانیت کی خدمت کی بجائے دہشت گردی اورسیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں جس کی روک تھام میں عوام، علماء کرام، صحافی، ملازمین اور تاجر برادری حکومت کا ساتھ دیں۔

یہ حقیقت ہے کہ رمضان کے مہینے میں لوگ اپنے صدقات زکوٰۃ اور عطیات کو مستحقین میں پہنچانے کے لیے پر عزم ہوتے ہیں لیکن انجانے میں یہ رقم مستحقین کو ملنے کے بجائے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جاتی ہے جس سے وہ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں نے دکانوں کے باہر باکس فلاحی اداروں کی امداد کے نام پر رکھے ہیں ان کی رقوم سے وہ دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھتے ہیں اس لئے صدقات اور زکوٰۃ دیتے ہوئے تسلی ضروری ہے کہ یہ غرباء مستحقین اور مستند اداروں کو ہی ملے کیونکہ دہشت گردی کی معاونت ایک سنگین جرم ہے۔ ہر سال پاکستانی عوام اربوں روپے کی زکوٰۃ و خیرات دیتے ہیں جو کہ بلا شبہ بہت بڑی رقم ہے۔ لیکن ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ دہشتگرد تنظیمیں اگر اس رقم کا ایک فیصد بھی ہتھیا لیں تو ملک میں کس قدر تباہی آ سکتی ہے۔ یقیناً اس سرمائے سے متعد د خودکش اور دہشتگردانہ حملے کر سکتے ہیں جن میں بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں جا سکتی ہیں۔ اس پہلو کو مدِنظررکھتے ہوئے ہمیں ماہ رمضان میں پوری احتیاط برتتے ہوئے زکوٰۃاور دیگر صدقات و خیرات کی ادائیگی کرنی چاہیے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button