کالمز

مجھے جینے دو – حصہ اول

تحریر: احمد سلیم سلیمی

وہ بڑی قاتل شب تھی۔دل کی بے کلی پہلے، ایسی کب تھی؟چاروں اور اندھیراتھا۔ایک سکوت چھایا ہوا تھا۔ابتدائی دنوں کا چاند ،ہلکے بادلوں کی اوٹ سے چَھب دکھلا کر چُھپ رہا تھا۔

میرا ہم زاد بسمل فکری مدتوں بعد میر ے ساتھ تھا۔شہتوت اور خوبانی کی شاخوں سے چھن چھن کر اترتی چاندنی میں اس کے چہرے کا تناؤ صاف دکھائی دے رہا تھا۔جنوبی سمت سے آنے والی ہواؤں میں خنکی تھی۔مگر اندر کی آگ یوں شعلہ فشاں تھی کہ لگ رہا تھایہ ہوائیں برف زاروں سے نہیں ،درد کے ریگ زاروں سے آرہی ہیں۔

یکایک بسمل فکری نے ایک گہری سانس لی اور بوجھل لہجے میں کہا ۔’’ گرو! ہم سانس لینے کی مشقت کیوں اٹھا رہے ہیں؟ہم انسانوں سے رونقِ حیات ہے۔پھر یہ معاشرہ ہم سے ہی جینے کا حق کیوں چھین رہا ہے؟‘‘

میں نے کہا ۔’’زندگی بہت خوب صورت ہے۔یہ اللہ کی نعمت ہے۔تم سدا کے قنوطی ہو ۔کبھی زندگی کا روشن پہلو بھی دیکھو۔یہ سچ ہے انسانوں سے ہی رونقِ کائنات ہے۔یہ نہ ہوں تو پھولوں میں مہک نہیں ،رنگوں میں چمک نہیں ۔بہاروں میں دل کشی نہیں اور سب سے بڑھ کر دنیا کی رنگینی نہیں۔‘‘

اس نے بڑے جوش سے راستے میں پڑے جوس کے ایک خالی ڈبے کو ٹھوکر ماری۔پھر چلّا کر کہا۔’’پھر ایسا کیوں ہے،انسان ہی اپنا دشمن کیوں بن جاتا ہے؟یہ رونقِ جہاں اس کے لیے امتحان کیوں بن جاتی ہے؟ یہ زندگی اتنی بے قدر کیوں بن جاتی ہے؟‘‘

میں نے کہا۔’’اپنا خون مفت میں جلا رہے ہو۔اگر تمہارا مطلب خودکشی سے ہے تو یہ ایک فیشن بن گئی ہے۔اور فیشن ایسی بلا ہے اس کی لپیٹ میں خشک و تر سبھی آتے ہیں۔کیا اچھا ہے کیا برا ہے؟ فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔دوسروں کی دیکھا دیکھی بہت سے لوگ اسے گلے سے لگاتے ہیں۔یہ جو تواتُر سے مبینہ خودکشی کے واقعات ہو رہے ہیں اس کے پیچھے بھی یہی نفسیات ہے۔‘‘

اس نے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا ۔’’خدا کی پناہ !پچھلے چند برسوں میں غذر جیسے مہربان اور ماں کی آغوش کی طرح محبتوں بھرے علاقے میں سینکڑوں خودکشی کے واقعات ہو ئے ہیں۔یہ سب کیا ہے؟ یہ حقوقِ انسانی کی تنظیمیں ،سماجی بہبود کے ادارے اور اس علاقے کے مذہبی ،سیاسی رہنما خدا جانے اور کس قیامت کے انتظار میں ہیں؟وہاں کے صحافی اور قلم کار ،خودکُشیوں کے اعداد و شمار اور الٹے سیدھے محرکات ،اخبارات اور سوشل میڈیا میں بریکنگ نیوز کے طور پر بیان کر نے کے علاوہ کوئی قابل عمل اور موْثر حل تلاش کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے ان واقعات کی حقیقت اور وجوہات سائنٹفک بنیادوں پر تلاش کیوں نہیں کرتے؟یہ ادارے فرض شناسی سے محروم زیادہ ہیں یا پیشہ ورا نہ اہلیت سے محروم زیادہ ہیں؟‘‘

میں نے کہا۔’’بہت سی تنظیمیں اور ادارے اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں ۔کم از کم اخبارات اور سوشل میڈیا پہ ان کے تبصروں اور بیانات سے تو یہی لگتا ہے۔شاید وہاں کے تہذیبی ،سماجی اور ماحولیاتی عوامل ایسے پیچیدہ ہیں کہ کوئی بھی کوشش کارگر ثابت نہیں ہورہی ہے۔‘‘

بسمل فکری نے ایک بلند بانگ قہقہہ لگایا۔رات کے اندھیرے میں چاروں طرف پھیلے سکوت میں اس کی کاٹ دار آواز سنائی دی۔’’آپ بھی بڑے خوش گمان ہیں گرو!یہ جن کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ کوششیں کر رہے ہیں ۔اصل میں ایک ڈھکوسلا ہے۔بڑے بڑے بقراطوں نے اپنی دانش کے جوہر دکھاتے ہوئے دفتروں کے دفتر بھر دیے ہیں۔کتنے ہی برس گزر گئے ہیں ،انہوں نے تحقیقات کے پہاڑ کھود کھود کر ایسی ایسی وجوہات نکالی ہیں کہ مثل صادق آتی ہے…’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘۔

’’کوئی اسے غیرت کے نام پر قتل قرار دیتا ہے۔کوئی نام نہاد پدرسری سماج کی ستائی عورت کی بے بسی بیان کرتا ہے۔کوئی اسے عشق کا جذباتی ردعمل کہتا ہے۔کسی کے نزدیک پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان مالی مشکلات سے اتنے عاجز آتے ہیں کہ نفسیاتی مریض بن کے خودکشی کرتے ہیں۔کوئی سائنسی بنیادوں پر دور کی کوڑی لاتا ہے کہ وہاں کے پانی میں بعض کیمیائی مادوں کا اثر ہے۔جس کی وجہ سے اعصاب کم زور پڑ جاتے ہیں ۔اک ذرا جذباتی صدمہ انہیں خودکشی کی طرف راغب کرتا ہے۔

’’کوئی یہ نکتہ سنجی کرتاہے کہ وہاں لبِ دریا آبادیاں ہیں ،اور دریا کا رومانس انہیں کود کر خودکشی پہ ابھارتا ہے۔(دریا کا قریب ہونا خودکشی کا ذریعہ ہو سکتا ہے ،سبب نہیں)۔کوئی کہتا ہے وہاں مذہبی تعلیم کی کمی ہے۔اسلام میں خودکُشی کی ممانعت اور بھیانک انجام کا انہیں علم نہیں۔یہی وجہ ہے ایسا کرنے والے محض دنیاوی دکھوں کی وجہ سے ایساتو کرتے ہیں،انجامِ آخرت کی فکر نہیں کرتے۔کوئی یہ انکشاف کرتا ہے وہاں منشّیات کا استعمال عام ہے ۔اس سے حواس مختل ہوتے ہیں اور خودکشی بُرا فعل نہیں رہ جاتی ،پریشانیوں سے نجات کا عمل بن جاتی ہے۔۔۔۔‘‘

’’یہ سب درست سہی،مگر اصل بات وجوہات ہی تلاش کرنا نہیں ۔ان کی درستگی کے لیے موٗثر اورپُر خلوص اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔کم و بیش اس طرح کی وجوہات کے بارے میں برسوں سے سُن رہے ہیں۔لیکن کسی ادارے یا کسی فرد کی تحقیقی رپورٹ کو سامنے رکھ کر ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گیے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ ساری کوششیں ٹُھس ہو کر رہ گئی ہیں۔‘‘

میں نے کہا ۔’’بِسمل فکری !وجوہات تلاش کرنا ہمیشہ آسان رہا ہے۔اصل بات اصلاح کے لیے عملی اقدامات کرنا ہے۔اور یہ مرحلہ ہمیشہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔ورنہ دنیا میں کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا ۔پوری دنیا میں لوگ خودکُشی کرتے ہیں۔کہیں کم کہیں زیادہ۔اس کی وجوہات بھی کہیں ایک جیسی ہیں ۔کہیں مخصوص ماحول اور سماجی رویوں کی بہ دولت مختلف ہیں۔۔۔

یہ خودکُشی اصل میں کیا ہے؟اپنی ذات کی شکست کا انتقام ہے۔اپنے وجود کی بے قدری کا اعلان ہے۔انسان کی عظمت اور عزم کا انکار ہے۔اور یہ وہی کرتا ہے جو اندر سے ٹوٹا پھوٹا ہوتا ہے۔دوسرے لفظوں میںیہ انسان پہلے اندر سے مر جاتا ہے پھر ردعمل میں باہر سے خود کو مار دیتا ہے۔اب اصل بات اس اندر کے انسان کو مرنے سے بچانے کی ہے۔یہ زندگی جس میں رنگ ہے،حسن ہے،جذبہ ہے۔مگر اس خودکشی کرنے والے کے لیے عذاب کیوں بن جاتی ہے؟اصل بات انسان کو اس دنیا وی عذاب سے نکالنے کی ہے۔ (جاری ہے)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button