بلاگز

تحصیل اشکومن اور نیٹکو ہائیس سروس کی خستہ حالی

تحریر: ایم حسن شاہ

ناردر ن ا یر یا ز ٹرانسپورٹ کارپوریشن گلگت بلتستان میں ٹرانسپورٹ کی ایک بہت بڑی کمپنی ہے۔جو کہ گلگت بلتستان قراقرم ہائی وے میں بس اور ہا ئیس سروس مہیا کرتی ہے۔ اور گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بھی نقل وحمل کابہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن گلگت بلتستان کے خو بصورت ضلع غذر کے گاؤں چٹورکھنڈ سے پسنجر کے لیے ہائیس دی گئی ہے۔جو کہ تحصیل اشکومن سے گلگت روزانہ مسافت طے کرتی ہیں۔ ان کی سست رفتاری اور کنڈیشن کو دیکھ کر ان میں سفر کرنے کو دل نہیں کرتا۔ایک دن ایک دوست کی وجہ سے مجھے بھی اس گاڑی میں سفر کرنا پڑا۔گاڑی کے اندر جاکے بیٹھا توکسی جھو نپڑی کا منظر پیش کر رہی تھی۔جس میں مجھ سے پہلے دس سواری بیٹھے ہوئے تھے۔جب گاڑی راوانہ ہوئی تو عجیب عجیب اوازئیں اس کے ہر پرزے سے أرہی تھی۔ صبح کی نیند جو دماغ کے کونے میں باقی رہ گئی تھی دماغ کے کونے سے غائب ہو گئی اترائی میں بے قابو گھوڑے کی طرح بھاگ رہی تھی۔چڑھائی میں ایسا لگ رہا تھا جیسے دس بندے اس کو دھکا لگا رہے ہیں۔ کچھ سواری جو روڑ میں کھڑے گاڑی کا انتظار کر رہے تھے اس گاڑی کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے تھے شائد وہ اس کی حالت سے پہلے واقف تھے ۔ڑرائیور میوزک سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر رہا تھا گانے کی اواز بھی ڑرائیور تک محدود تھی۔گاڑی میں بیٹھے ہر سواری کی حالت پرزوں کے شور سے سقیم ہوگئی تھی کوئی ہینڈ فری کانوں میں لگا کر شور سے جان چھڑانے کی کوشش کر ر ہا تھاتو کوئی چلا چلا کر فون میںآپنی بات دوسرے تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف تھاتوکوئی سر پکڑ کے منزل تک پہنچنے کا انتظار کر رہا تھاسب کے چہرے میں غم و غصے کی کیفیت تھی ۔زنگ الود جسامت کو لے کر گاڑی منزل کی طرف جا رہی تھی سواری اس کی حالت پرکبھی نیٹکو کی زمہ داران کی غفلت کی شکایت کرتے تو کبھی عوام کو ان گاڑیوں میں سفر نہ کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ اخری سیٹ پہ ٹکٹ چیکر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس جگے میں چی چا چوں کی اوازیں ہر پرزیں نکال رہے تھے۔ وہ شاید اپنی تنخواہ کی وجہ سے اس شور کو برداشت کر رہا تھا۔ اس کے اترنے کے بعد کسی کی ہمت نہیں ہوئی اس سیٹھ پر بیٹھنے کی جوں ہی گاڑیوں کی ہارن بجتی تو یہ اپنی سستی کا اقرار کرکے ندامت سی محسوس کر کے ان کو جگہ دیتی تھی اور ان کے پیچھے خراماں خراماں چلتی تھی اخرکار منزل آہی گیاہم گلگت پہنچ گئے۔ باہمت ہے یہ ڑرائیور جو ان گاڑیوں کو باخیروعافیت منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔قابل رحم ہے یہ عوام جو ان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔غریب عوام جایں تو کہاں جاےءں پرائیوٹ گاڑیوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہے۔چودہ سیٹر ہائیس میں اٹھارہ پسنجر بیٹھاتے ہیں ان گاڑیوں میں بیٹھنے کے بعداپ کو ادھر ادھر دیکھنے اور ہلنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی سانس بھی مشکل سے لیا جاتا ہے لیکن عوام کی اس حالت پر انتظامیہ خاموش تماشائی ہے بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے سیاسی نمائندوں اور حکومتی زمہ داران کو عوام کی کیا فکر ہے وہ نہ تو ان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور نہ ان کی حالت سے واقف ہے وہ اپنی مفاد کے لئے فعال اور عوام کے مفاد کے لئے کاہل ہیں ان کوصر ف غر یب عوام کے رہائشی مکان کی تعمیر پر این۔او۔سی یاد ہیں۔گاڑی کی حالت جیسی بھی ہو بسں روڑ پہ چلتی ہوئی دیکھائی دیں عوام کے لئے قابل سفر سمجھا جاتا ہے۔ان کے لئے شا ئدکسی این۔او۔سی کی ضرورت نہیں۔جو روزانہ دو سے تین گھنٹے انسانی قیمتی جانوں کو لے کر سفر کرتی ہیں۔نیٹکو کے زمہ داران سے گزارش ہے کہ دس روپیہ کرایہ سستہ کرنے کے بجائے دس روپیہ زیادہ لے کر گاڑیوں کی حالت بہترکریں تا کہ سواری سکون کے ساتھ سفر کر سکے۔ٹرانسپورٹ کی ایک بڑی کمپنی ہونے کی وجہ سے عوام اپ سے اچھی ٹرانسپورٹ سروس کی توقع رکھتی ہے لیکن ان گاڑیوں کی حالت دیکھ کر ان میں سفر کرکے مایوسی ہوتی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button