گھنٹی بجتے ہی کلاس ششم بی کے دروازے پر ایک گلاب چہرہ دوسرے استاد کا منتظر کھڑی دیکھائی دے گی۔اس کی آنکھیں نشیلی ہیں ۔۔چہرہ روشن ہے ۔پیشانی چمکتی ہے ۔۔دانتیں موتی جیسی ہیں ۔۔سرو قد ہے۔۔ کومل ہاتھ ہیں ۔۔ستواں ناک ہے ۔۔معصوم مسکراہٹ ہے ۔۔اس کے مسکان سے شمع شرماتی ہے ۔۔آواز سن کر بلبل گونگی ہو جاتی ہے ۔۔سر ہلا کے سلام کرتی ہے اور مسکرا کر سلام کے جواب کا انتظار کرتی ہے ۔۔کپڑے اجلے ہیں ۔۔جوتے چمکتے ہیں ۔۔دوپٹا سلیقے سے پہنی ہوئی ہے ۔۔اپنی کلاس کو نمایاں حد تک صاف رکھتی ہے ۔۔کاپی لکھتی ہے ۔۔گھر کاکام کرتی ہے ۔۔ایک دن بھی غیر حاضر نہیں ہوتی ۔۔اس کی کلاس میں مسکان کے ہوتے ہوئے شور نہیں ہوتا ۔۔جب بھی دیکھو کام کر رہی ہے ۔۔کاپیاں جمع کر رہی ہے ۔۔کاپی لکھ رہی ہے ۔۔بورڈ صاف کر رہی ہے ۔۔کھڑکیاں جھاڑ رہی ہے ۔۔استاد کے پیچھے بھاگی جا رہی ہے ۔۔’’سر سر !آپ کی کلاس ہے ‘‘۔۔۔اتنی چھوٹی عمر میں مسکان سب کو پیاری ہے سب کی دلاری ہے ۔۔ایک پھول ،ایک شگوفہ ، ایک روشن مستقبل ،گلشن انسانیت کا ایک مہکتا پھول ،تہذیب کی آکاش کاچاند ،گھر کی ملکہ،والدیں کی آنکھوں کا تارہ ،کلاس روم کی رونق،مسکراہٹ کا ایک حوالہ ،معصومیت کی ایک کائنات ۔۔مجھے بچوں سے بہت پیار ہے ۔۔مجھے اپنے شاگرد بے مثال لگتے ہیں ۔۔ایک دفعہ جب ایک ڈاکٹر کو گلے لگایا تواس نے ہنس کر کہا ۔۔۔’’سر !دیکھو میں اتنا بڑا ہو گیا ہوں ‘‘میں نے کہا ۔۔۔نہیں تم اب بھی میری کلاس میں میرے سامنے بیٹھے ہو ۔۔وہ پھر میرے گلے لگ گیا اور کہا سر!استاد کے لئے شاگردواقعی چھوٹا بچہ ہی رہتا ہے ۔۔۔مسکان ایک چھوٹی سی دنیا ہے ۔۔ایک کائنات ۔۔اس کی نمایاں عادات اس کے خاندان کے مہذب ہونے کی نمائندگی کرتی ہیں۔۔۔اس کی ذات میں ہر اچھائی بھر دی گئی ہے ۔۔اس کو محبت اور احترام سیکھاگیا ہے ۔۔اس کو روایات کا پابندبنایا گیا ہے ۔۔اس کی باتیں پیاری ہیں ۔۔اس کے جذ بات معصوم ہیں ۔۔وہ یہ تو نہیں سمجھتی کہ غم کیا ہوتا ہے ۔۔مصیبت کیا ہوتی ہے ۔۔درد کس بلا کا نام ہے البتہ وہ یہ ضرور سمجھتی ہے کہ مسکان کتنا پیارا جذبہ ہے ۔۔محبت کتنی خوشیاں دیتی ہے ۔۔کسی کے احترام کرنے میں کتنا مزہ ہے ۔۔وہ استاد کو اپنا ،گھر کو اپنا ،سکول کو اپنا، سہیلیوں کو اپنا ،کلاس روم کو اپنا سب کو اپنا سمجھتی ہے ۔۔اس کو حسد ،بغض، کینہ ،نفرت کا تجربہ نہیں ۔۔اس کے دل میں کبھی درد کی ٹہیسیں نہیں اٹھیں ۔۔نہ اس کی آنکھوں نے درد کے نیر دیکھے ۔۔وہ گل نورس ہے ۔۔سوال ہے کہ مسکان کی کیسی تربیت کرنی ہے ۔۔استاد کی تربیت ،گھر آنگن کی تربیت ،معاشرے کی تربیت کیسی ہونی چاہیئے ۔۔اس کو قوم کی عظیم بیٹی بنانے میں کس کس کا کیا کیا کردار ہونا چاہیئے ۔۔وہ کس کس کی امانت ہے ۔۔وہ کس نرسیری کا پھول ہے ۔۔وہ کس تہذیب کی نمائندہ ہے ۔۔ہم سٹک ہولڈرز ہیں ۔۔ہماری ہر بچی مسکان ہے ہر بچہ شیر ہے بیمثال ہے ۔۔لیکن ہم اپنا فرض ادا کرنے میں غافل ہیں ۔۔ہم نے کبھی مسکان کی اچھائیوں کا اندازہ نہیں کیا ۔۔کبھی اس کی تربیت کا خیال نہیں کیا ۔۔پھر آگے جا کر ہمیں خام مالوں سے شکوہ ہے ۔۔مسکان پیاری ہے اس کی آنکھوں میں ایک خوبصورت سا پیغام ہے کہ ہمیں تربیت چاہیئے ۔۔ہم فاطمہؓ کی وارث ہیں ۔۔ہم عائشہؓ کی نمائندہ ہیں ۔۔ہم چترالی بیٹیاں ہیں تپش اور درد میں پگھلی ہوئی عظیم بیٹیاں ۔۔لیکن صد افسوس ہے کہ آج کئی مسکان جیسی بیٹیوں کے دوپٹے غائب ہیں ۔۔ایک بیٹی پتلون پہن کر ستار بھی بجا رہی ہے گا بھی رہی ہے ۔۔لکھا ہے کہ پہلی ستار نواز ۔۔خاکم بدہن کیا یہ شروعات ہیں ۔۔کیا مسکان ستار بجائے گی ۔۔نہیں مسکا ن عفت اور پاکیزگی کا حوالہ ہوگی ۔۔لوگ اس کی مثالیں دینگے ۔۔وہ چترال کی پہچان ہوگی ۔۔اس پر آشوب دور میں ہمیں اپنے گھر آنگن کا خیال رکھنا ہوگا ۔۔اپنے بچوں کے سامنے ڈھال بننا پڑے گا ۔۔بے ترتیبی قوموں کو تباہ کرتی ہے ۔۔اخلاق اصل ہتیار اور اصل پہچان ہے ۔جو قوم اخلاق کھو دیتی ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے ۔۔عریانی ،فحاشی اور ظلم کائنات کے مالک بھی معاف نہیں کرتا ۔۔سچائی ایک ایساہتیار ہے جو تباہی کے سامنے ڈھال ہے ۔۔یورپ سچائی کا دامن پکڑا ہوا ہے ۔ اس لئے ترقی کر رہا ہے ۔ ۔فحاشی نے روس کو تہس نہس کیا ۔۔ہمیں سر پکڑ کے سوچنا ہوگا ۔۔ہم انگریزی ،ریاضی اور سائنس کے مضا مین کو تعلیم کہتے ہیں ۔۔اصل تعلیم کردارہے جوقوم اس سے عاری ہے وہ ان پڑھ ہے ۔۔اس کے پاس بے ترتیبی بربریت اور حیوانیت ہوگی ۔۔انسانیت کا شرف تو نہیں ہوگا ۔۔ہماری ساری بچیاں مسکان ہیں۔ان کی آنکھوں میں عضب کی چمک ہے ۔۔وہ تربیت کی پیاسی ہیں ہماری تہذیب امرت دھارا ہے ۔۔تریاق ہے ۔۔وہ خالص رہے تو بہتر ہے ۔۔میری مسکان اسی طرح سدا مسکراتی رہے ۔۔۔۔میری شگوفہ۔۔۔۔۔