بلاگز

ویژن مستوج یا اندھیر نگری

کریم اللہ

ضلع چترال کے بالائی خطہ یعنی سب ڈویژن مستوج کا کل رقبہ آٹھ ہزار چھ سو مربع کلومیٹر سے زائد ہے، انیس سو ترپن سے انیس سو انہتر تک یہ علاقہ علیحدہ ضلع کی حیثیت سے موجود رہا البتہ جب انیس سو انہتر میں چترال کی ریاستی حیثیت کا خاتمہ کرکے اسے باقاعدہ پاکستان کے ساتھ ضم کیا گیا تو مستوج کی ضلعی حیثیت کا خاتمہ کرکے اسے سب ڈویژن مستوج میں بدل دیا۔

اس انیس سو نوے کی دہائی میں حکومت پاکستان نے سب ڈویژن مستوج میں چرس کے کاشت کو ختم کرنے کے لئے دو میگا پراجیکٹ علاقے میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے ایک چترال بونی روڈ کی کشادگی و پختگی تھا جبکہ دوسرا ریشن کے مقام پر بجلی گھر کا قیام عمل میں لا کر سب ڈویژن کے عوام کو بجلی کی سہولت سے مستفید کرنا تھا۔ چار اعشاریہ دو میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت کے حامل ریشن پاؤر ہاؤس سن انیس سو پچھانوے چھیانوے میں کام شروع کیا۔

اس وقت سے لیکر دو ہزار پندرہ تک تقریبا بیس برسوں تک ریشن پاؤر ہاؤس سب ڈویژن مستوج کے بڑے حصے اور سب ڈویژن چترال کے کچھ علاقوں کو بجلی فراہم کرتے تھے۔ اس بجلی گھر سے پندرہ ہزار گھرانے مستفید ہوتے رہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ریشن پاؤر ہاؤس کی کل آمدنی تمام تر اخراجات کے بعد تیس لاکھ روپے فی ماہ تھی۔

بدقسمتی سے جونہی سن دوہزار پندرہ کے موسم گرما میں مون سون کی ہوائیں چترال میں داخل ہونے کے بعد یہاں پہلی مرتبہ مون سون کی تباہ کن بارشین شروع ہوئی تو سترہ جولائی دوہزار پندرہ کی رات ریشن بجلی گھر نے جواب دیا۔ چوبیس جولائی دوہزار پندرہ کو ریشن کے آبی نالے میں ایک طغیانی آئی جس کی وجہ سے بجلی گھر کو جزوی نقصان پہنچا اس کے بعد تو گویا ریشن پاؤر ہاؤس کے صارفین بجلی کو بھول گئے۔ ریشن بجلی گھر کو پہنچنے والی نقصان کی سب سے بڑی وجہ محکمہ شیڈو(موجودہ پیڈو) اور بجلی گھر کے انتظامیہ کی نااہلی تھی کیونکہ اگر طغیانی اور سیلاب کے راستے میں پشتیں تعمیر کئے جاتے تو شائد بجلی گھر کو کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ لیکن اندھیر نگری اور مفادات کے کھیل میں قومی مفادات کون دیکھتا ہے۔ دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوگئی لیکن حکومت وقت، عوامی نمائندگان اور انتظامیہ میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ریشن پاؤر ہاؤس کی دوبارہ بحالی کے لئے عملی اقدامات اٹھاتے۔

ریشن پاؤر ہاؤس کو متاثر ہوئے تقریبا دو برس مکمل ہونے کو ہے لیکن تاحال اس کی دوبارہ بحالی کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں حکومت وقت اور علاقے کے منتخب نمائندگان سے مایوس ریشن پاؤر ہاؤس کے صارفین نے مئی جون دوہزار سولہ کو بجلی کی دوبارہ بحالی کے لئے تحریک شروع کی جو پرامن جمہوری انداز سے بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا جو کہ تقریبا ایک ماہ تک جاری رہی اور بالاآخر ایم پی اے مستوج سردار حسین صاحب کی بجٹ سے قبل وزیر اعلی کے پی پرویز خٹک سے ملاقات اور پاؤر ہاؤس کی بحالی پر جلد ازجلد کام شروع کروانے کے لئے اسی کروڑ روپے کے اعلان کے بعد اس امید پر اختتام پزیر ہوئی کہ شائد تبدیلی والی سرکار اپنے وعدے کی پاسداری کرکے جلد اس بجلی گھر کی دوبارہ بحالی پر کام کی شروعات کریں گے لیکن اس اعلان کو بھی ایک سال کا عرصہ  بیت چکا ہے لیکن تاحال ریشن پاور ہاؤس پر کام شروع نہ ہوسکا۔

انصاف والی سرکار کی یہ ناانصافی اور نمائندگان کی بے حسی کی وجہ سے علاقہ دو برسوں سے تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے..

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button