کالمز

زنانی لاش کی تصویر، میرے آنسو اور مشال خان کے کپڑے ؟

میں نے اس تصویر سے بچی کی توجہ ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ بار بار اس سوال پر بضد رہی کی پاپا اس خاتون کو ہوا کیا ہے؟ میں نے بچی کو ٹالنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا مگر مطمئن نہ کرسکا۔ بچی کے اطمینان کی خاطر کبھی ٹی وی پر کارٹون لگا دیئے تو کبھی یوٹیوب پر پوئمز، کبھی الماری کھول کر اس کے سامنے کھلونوں کے ڈھیر کر دیئے تو کبھی جیب سے پیسے نکال کر دکان جانے کی منت سماجت ۔ مگر بچی کو سکون نہیں مل رہا تھا۔

آخر کار کمبل اوڑھ کر سونے کی ٹھان لی مگر بچی نے پیچھا نہ چھوڑا ۔ وہ میرے اوپر سے کمبل اٹھا کر پھینک دیتی اور مسلسل یہ استفسار کرتی رہی کہ پاپا پلیز بتا دیں کہ اس بیچاری کو ہو ا کیا ہے ۔ ایک طرف اضطرب بچی کی ضد تو دوسری طرف عید کے روز خودکشی کرنے والی خاتون کی تصویر دیکھ کر میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل پڑے۔

بے بسی کے عالم میں بیگم اور چھوٹے بھائی کو بھی بُلا لیا مگر وہ بھی بچی کے ہاتھ سے موبائل چھینے میں کامیاب نہیں رہے۔ اب میرے پاس غصے سے ڈانٹ ڈپٹ کر بچی سے موبائل چھین لینے کا آپشن باقی تھا۔ مگر اس کام کے لئے مجھ میں ہمت نہ تھی کیونکہ عید تو دشمنو ں کے ساتھ بھی دوستی کا ہاتھ بٹانے کا موقع ہوتا ہے ایسے میں تین سال کی ایک معصوم بچی کو بھلا کیسے دل آزار کیا جائے ۔

بہر حال مجبوری کے عالم میں بچی سے مخاطب ہو کر بولا بیٹا یہ عورت سو رہی ہے۔ بچی میرے اس جواب سے ذراء بھی مطمئن نہ ہوئی اور فوراً دوسر ا سوال اٹھایا کہ پاپا یہ بغیر بستر اور کمبل کے کیسے سو رہی ہیں اور نیچے ریت ہے۔ میں نے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا یہ بیچا ری گرمی کے مارے اس حالت میں سو رہی ہے ، شاید اس کے گھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو۔ بچی نے پھر سوال کیا کہ پاپا تو پھر اس کا چہرہ عجیب سا کیوں ہے اور چہرے پر خون اور زخم کے نشانات۔۔۔

میں اس کشمکش میں تھا کہ اب بچی کے اس سوال کا کیا جواب دوں کہ اتنے میں باہر سے مہمان داخل ہوئے۔ مہمانوں کے ساتھ علیک سلیک کے دوران میں نے بچی سے موبائل اٹھایا اور فوراً اس بندے کو اپنے فیس بکی دوستوں کی فہرست سے خارج کر دیا جس نے ایک بابرکت دن کے موقع پر ایک مظلوم خاتون کی نعش کی تصویر کو اس قدر بے توقیری سے سوشل میڈیا پر چڑھا کر پوری عورت ذات کی عزت و تکریم میں خیانت کی تھی۔ باوجود اس کے رات گئے تک بچی کے ذہن میں بار بار اس تصویر سے متعلق سوالات جنم لے رہے تھے اور میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔

عید کے روز سوشل میڈیا پر ایک طرف خوشی اور مبارکباد کے پیغامات پر مبنی پوسٹس زیر گردش تھے تو دوسری طرف ایک خاتون کی نعش کی وہ تصویر تھی ، جس کے غمزدہ چہرے سے معاشرے کے لئے بہت سے سوالات اُبھر رہے تھے۔ مگر کوئی ٹس سے مس نہ تھا اور ہر کوئی جانے انجانے میں اس تصویر کو شیئر کر رہا تھا۔

ایک پولیس آفیسر کی پوسٹ کے ذریعے معلوم ہو ا کہ خاتون کا تعلق ہنزہ سے ہے اور عارضی طور پر گلگت میں رہائش پذیر تھی۔ پولیس آفیسر کے بقول خاتون نے خاوند کی طرف سے مبینہ تشدد سے تنگ آکر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا ۔ وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب سب مرد صبح سویرے بن سنور کے عید کی نماز کو جا رہے تھے اور خواتین گھروں میں مہند ی کی رسم میں مشغول تھیں۔ ایسے میں کیا گزرتی ہوگی ان بچوں پر جنہیں عید کے روز صبح سویرے عیدی کی اُمید میں ماں کی لاش مل جائے۔ توبہ!

گلگت پولیس اور ریسکیو اہلکاروں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے خاتون کی نعش کو دریا گلگت کے خونی موجوں سے تو برآمد کر لیا مگر فوری طور پر اس کی تصویر کشی کر کے اسے سوشل میڈیا پر چڑھا کر نہ صرف اپنے کئے پر پانی پھیر دیا بلکہ ایک زنانہ نعش کی اس قدر بے حرمتی کر کے پوری قوم کو مہذہب دنیا کے سامنے رسوائی کا موجب بنا دیا۔

ایسی تصویر دیکھ کر ہر ذی شعور فرد کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہوگا کہ آخر اس خاتون کا قصور کیا تھا جسے اس قدر بے توقیری کے ساتھ سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہے۔ کیا وہ توہین مذہب کا مرتکیب بن رہی تھی یا ملکی سالمیت کے خلاف کسی مہم کا حصہ تھی؟ یا کوئی اشتہاری مجرمہ ؟ نہیں تو پھر خودکشی کے ایک واقعے کی تصویر اٹھا کر سوشل میڈیا کی زینت بنانے کا کیا مقصد؟ ایک ایسے واقعے کی تصویر جس میں قاتلہ بھی وہی مقتولہ وہی۔

آخر اس نے کونسا نیا کام کر دکھایا جو دنیا کے لئے حیرت کا باعث ہو۔ وہی تو کیا جو گزشتہ کئی سالوں سے گلگت بلتستان میں ہوتا آ رہا ہے ۔ البتہ ریشو کے اعتبار سے یہ واقعات کسی ضلع میں کم کہیں پر کثرت سے رونما ہو رہے ہیں۔ کہیں سے یہ واقعات میڈیا میں رپورٹ کئے جا رہے ہیں اور کہیں پر پرُاسرار خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔

یہ واقعات تو قومی و بین الاقوامی سطح پر بھی روز کا معمول ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سال 2015 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق سری لینکا دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان اس فہرست میں 177 ویں نمبر ہے۔ خودکشی کے یہ واقعات بھارت ، چین، امریکہ، اور برطانیہ سمیت کئی اہم ممالک میں بھی کثرت سے رونما ہوتے ہیں۔ ماہرین ان واقعات کے پیچھے بہت ساری وجوہات کو کارفرما قرار دیتے ہیں ۔ تاہم ان واقعات کے تدارک کے لئے ماہرین کی سرتوڑ کوششیں بھی کوئی خاص رنگ نہیں لاسکی ہیں۔

گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں گزشتہ کئی سالوں سے خودکشیوں کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جو معاشرے کے ہر فرد کے لئے پریشانی کا سبب ہیں ۔ غذر میں خودکشی کے واقعات کو میڈیا میں اجاگر کرنے پر بعض لوگ اس علاقے کے صحافیوں سے خائف نظر آ رہے ہیں۔ وہ محض اس بات پر کہ صحافی غذر میں کثرت سے رونما ہونے والے خودکشی کے واقعات کو اخبارات کی زینت بنا دیتے ہیں جس سے علاقے کی بدنامی ہو رہی ہے۔

لیکن اس بات پر کسی نے دہیان نہ دی کہ ان صحافیوں نے کسی بھی واقعہ کی رپورٹنگ کے دوران خودکشی کے مرتکب افراد کی ذاتی زندگی، خاندان وغیرہ کا تذکرہ کیا نہ کوئی ایسی غیر مہذہب تصویر اخبار میں شائع کرنے کی کوشش کی جو معاشرتی اقدار اور علاقائی روایات کے منافی ہو۔ اکثر اوقات صحافی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خودکشی کرنے والی کسی خاتون کے مکمل نام کی بجائے مسماۃ م۔ ش۔ ت۔ ک وغیرہ کے الفاظ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ مگر اس باوجود سوشل میڈیا پر صحافیوں کو ہی لعن تعن کیا جاتا رہا ہے۔

صحافی جہاں کا بھی ہو معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات سے متعلق ابتدائی معلومات اپنے متعلقہ اخبار یا ٹی وی چینل تک پہنچانا ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ اگر کوئی صحافی کسی طرح سے بھی مصلحت کا شکار ہو کر اس طرح کے واقعے سے آنکھیں چرانے کی کوشش کرے تو یہ اس کا اپنے پیشے سے خیانت کے مترادف ہے۔ البتہ ایسے واقعات کی رپورٹنگ کے دوران صحافتی اقدار و اخلاقیات کا خیال رکھنا بھی ایک اہم صحافتی ذمہ داری ہے۔

بہرحال واقعہ خودکشی کا ہو یا قتل یا کو ئی اور اس کی رپورٹنگ تو صحافی کی ذمہ داری ہے۔ لیکن خودکشی کرنے والی خواتین کی تصاویر سوشل میڈیا میں وائرل کرنے کی روایت تو اب پولیس اور ر یسکیو والوں نے دے ڈالی۔ اب کوئی ہوگا جو ان اداروں کی جانب سے اخلاقیات سے گری ہوئی اس حرکت پر اظہار مذمت کرے؟ سوال یہ ہے کہ کیا معاشرتی روایات اور صحافتی حدود و قیود میں رہتے ہوئے خودکشی کے واقعات کو میڈیا میں رپورٹ کرنا باعث جرم ہے یا تمام حدوں کو پار کر کے کسی مظلوم خاتون کی نعش کی تصویر کشی کر کے اسے عید کے روز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر نا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پولیس کا کام عوام کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت اور معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کی انکوائری ہے یا ان کی منظر کشی کر کے سوشل میڈیا پر تشہیر؟

عید کے روز گلگت میں خودکشی کرنے والی خاتون کی اس تصویر کو فیس بک پر ایک کثیر تعداد نے شیئر کیا اور بہت ساروں نے اس پر غم و غصے کا بھی اظہار کیا۔ ایک صاحب نے کیا خوب کومنٹس کئے ۔

لکھتے ہیں ’ اگر یہ تصویر کسی اجنبی خاتون کی بجائے تمہاری ماں، بہن یا بیٹی کی ہوتی تو کیا تم میں اسے اس طرح شیئر کرنے کی جرات ہوتی‘۔۔۔

بعض اسلام کے نام نہاد ٹھیکہ داروں نے تصویر پر کومنٹس میں بھی تو حد کر دی ۔ کہتے ہیں ’ بغیر دوپٹے کے خاتون کی اس طرح کی تصویر اسلام میں حرام ہے‘۔

لیکن عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے گا کہ بھائی خاتون میں جان باقی ہو تو سر پر دوپٹہ رکھنے کا ہوش آئیگا۔ جان نکل جانے کے بعد اگر کسی کو معاشرتی اقدار اور عزت و ناموس کا خیال آجاتا تو مشال خان کے کمرے میں کپڑوں کی کونسی کمی تھی!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button