بلاگز

سیاسی کشمکش ،پیپلز پارٹی کا اصل مقابلہ کس کے ساتھ۔۔۔۔۔؟

تحریر ۔ شمس الر حمن شمس

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے8جون2015کو ہونے والے عام انتخابات میں جس طرح سے گلگت بلتستا ن کے چند حلقے سیاسی طور پر اہمیت کا حامل تھے ان میں سے ایک حلقہ جی بی ایل ائے 4نگر کا بھی تھا ۔۔۔۔۔اس حلقے میں مقابلہ ہمیشہ مذہبی جماعتوں کا ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح2015کے ہونے والے انتخابات میں عام طور پر 6امیدواروں نے اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا ۔جن میں تحریک اسلامی پاکستان ،پیپلز پارٹی ،ایم ڈبیلو ایم ،حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سمیت کئی آزاد میدوار بھی حصے لئے تھے مگر تجزیہ نگاروں اور نگر کے سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کے مطابق اسٌ حلقے میں الیکشن میں اصل مقا بلہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سیاست میں ابھرتے ہوئے نوجوان اور مشہور کاروباری شخصیت جاوید حسین اور تحریک اسلامی کے امیدوار شیخ محمد علی حید ر کے درمیان تھا بعد میں انٌکا یہ تجزیہ بھی درست ثابت ہوا اور تحریک اسلامی پاکستان کے امیدوار شیخ محمد علی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار جاوید حسین کے درمیان کانٹے مقابلہ رہا اور چند ووٹ سے تحریک اسلامی پاکستان کے امیدوار شیخ محمد علی حیدر نے جاوید حسین کو شکست دے دیا ۔۔۔۔۔۔بد قسمتی سے ایک سال 7ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد تحریک اسلامی کے رکن اسمبلی شیخ محمد علی حیدر اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے بعد از الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے اس حلقے میں نئے انتخابات کروانے کے لئے9جولائی کو الیکشن شیڈول جاری کر دیا ۔ مگر اب 9جولائی کو آنے میں چند د ن رہ گئے اور اس بار بھی انہی جماعتوں کے امیدوار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے جاوید حسین اور تحریک اسلامی کے ٹکٹ سے شیخ محمد علی حیدر کا چھوٹا بھائی شیخ باقر آمنے سامنے ہیں ۔اس بار تو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے نگر4سے ضمنی انتخابات میں الیکشن میں حصہ نہیں لینے کا فیصلہ کیا اور معزز وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اسیٌ وقت تحریک اسلا می کے امیدوار شیخ باقر کی بھر پور حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ دوسری جانب مذہبی جماعت ایم ڈبلیو ایم کی صوئی قیادت نے بھی اپنا امیدوار کو تحریک اسلامی کے امیدوار کے حق میں دستبردار کروایا اور ان کی بھر پور حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ شیخ باقر کو اس وقت ان کے بڑئے بھائی کی وفات پر ہمدردی کے ووٹ بھی مل سکتے ہیں۔۔۔۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے امیدوار جاوید حسین بھی جیت کے لئے پر عزم دکھائی دیں رہے ہیں ویسے بھی پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کو یہ سیٹ جیتا ہو گا کیونکہ جب سے پیپلز پارٹی کی وفاقی قیادت نے صوبائی قیادت کو تبدیل کر کے امجد ایڈوکیٹ کی سربراہی میں جمیل احمد سعدیہ دانش سمیت دیگر اراکین کی ایک اچھی ٹیم تشکیل دی ہے اس کے بعد پیپلز پارٹی کی اس ٹیم نے ان دوسالوں میں اپنا کھویا ہوا اعتماد بحالی کرنے میں دیر نہیں لگائی اور ایک ایسا نعرہ لیکر عوام میں آیا جسے عوام نے ہاں سے ہاں ملاکر پیپلز پارٹی کا بھر پور ساتھ دیا ۔۔۔۔اب اسی لئے اگر پیپلز پارٹی اس سیٹ کو جیتنے میں کامیاب ہو سکی تو ان کی کا میابی کا پہلا ذینہ ہو گا ۔ویسے توپیپلز پارٹی کے صوبائی صدراور ان کی کابینہ نے گزشتہ کئی دنوں نے بڑی تہک دوکر کے پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر جو کہ 2015کی الیکشن میں ٹکٹ نہ ملنے پر نہ صرف پارٹی کے خلاف بغاوت کیا تھا بلکہ پارٹی کو خیر باد کر کے پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے۔۔۔۔۔ انہوں نے موصوف محمد علی اختر کو منوایا اور محمد علی اختر ان دنوں پیپلز پارٹی کی حمایت اور کمپین کر کے پارٹی کو اس حلقے سے جیتوانے کے لئے مصروف عمل ہیں۔۔۔۔ ۔اور خاص طور پر دوسری پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ان دنوں نگر میں ڈیرئے ڈالے ہوئے ہیں اور اس سیٹ کو کامیاب بنانے کے کئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروکار لا رہے ہیں اگر چہ اس حلقے میں عوامی جھکاو ہمیشہ مذہبی جماعتوں کی طرف ہو تا ہے شاید اس بار ایسا نہیں ہوگا جس طرح سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جاوید حسین نے ہارنے کے باجود بھی اپنے حلقے میں رہ کر عوام کی خد مت کرنے اور اپوزیشن کا رول پلے کرنے میں اپنا کلیدی کردار داد کیا ہے۔۔۔۔۔ اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کی صوئی قیادت ایک جوش ولوولہ اور حوصلے کے ساتھ الیکشن میں کامیابی کے دعوئے کر رہے ہیں شاید وہ بھی حلقے کے حالات کے مطابق درست ثابت ہونے جا رہا ہے ۔چونکہ اب 9جولائی کا دن دور نہیں بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں اب فیصلہ تو آخر عوام نے ہی کرنا ہے کہ عوام 9جولائی کا وہ دن کس کے نام کرنے جار رہی ہے آنے والے وقت میں ہی پتا چل جائے گا ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button