پانامہ پیپرز پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں آف شور کمپنیاں پوری دنیا میں کام کرتی ہیں وطن عزیز پاکستان میں پانامہ پیپر ز نے تجسّس سے بھر پور ڈرامہ سیرئل کی داغ بیل ڈالی ہے سپریم کورٹ میں سماعت کا سسپنس ،جے آئی ٹی میں تحقیقات کا سسپنس ،پھر سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ کی سماعت کا سسپنس ،انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ،ٹی وی ٹاک شوز میں بے تکی باتیں کی جارہی ہیں سو شل میڈیا میں الم غلم مواد آرہا ہے کمیونیٹی براڈ کاسٹ نامی ریڈیو پروگرا موں میں اخلاق سے گری ہوئی باتیں کی جارہی ہیں صورت حال یہ ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ‘‘فیس بک ،ٹوئیٹر اور کمیونیٹی براد کاسٹ نے اخلاقیات کو بہت نقصان پہنچایا ہے جب ٹی وی نہیں تھا سوشل میڈیا نہیں تھا ریڈیو ہی خبروں اور تبصروں کا واحد ذریعہ تھا اعلیٰ پایے کے ماہرین کو ریڈیو پر مائیک دیا جاتا تھا کمیونیٹی براڈ کاسٹ کے پروگراموں میں فون کے ذریعے ہر کسی کو مائیک دیا جاتا ہے وہ جو کچھ بولتا ہے نشر ہو جاتاہے بقول غالب
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب ابرو ئے شیوہ اہل نظر گئی
نہ زبان کی اصلاح کا موقع آتا ہے نہ مواد کو پرکھنے کا وقت ہوتا ہے اسی طرح فیس بُک ،ٹوئیٹر اور آن لائن اخبارات میں ہر خبر پر بے تکے تبصرے ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات جھوٹی اور بے بنیاد باتوں کو خبر کا درجہ دیا جاتا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان میں مقدمہ ، عدالت کے حکم پر جے آئی ٹی کی انکوائری اوراس انکوائری کی رپورٹ سنجیدہ معاملہ ہے مگر یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہو نے سے 10گھنٹے پہلے سو شل میڈیا میں فیس بک اور واٹس ایب کے ذریعے پھیلائی گئی طریقہ کار یہ تھا کہ رپورٹ رازداری کے ساتھ عدالت کے سامنے رکھی جاتی سات جلدوں میں دستاویزات اور 126صفحات کی رپورٹ کو پڑھنے کے لئے ججوں کو ہفتہ کم ازکم چاہیے اس کے بعد مقدمے کی سماعت اور اس رپورٹ پر سپریم کورٹ کا حکم آئے گا یہ عدالت کا استحقا ق ہے وہ رپورٹ کو منظر عام لائے گی یا صیغہ راز میں رکھ کر اپنا حکمنا مہ جاری کرے گی پوری دنیا میں یہ دستور ہے کہ جو معاملہ عدالت میں زیر عوز ہو اس پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کوئی بحث نہیں ہوتی اس کو سب جوڈس (Sub-Judice) کہا جاتاہے اگرکسی زیر غور اور زیر تصفیہ مقدمے کے نکات کو میڈیا میں اچھالا گیا تو عدالت اس کا نوٹس لیتی ہے توہین عدالت کے جر م میں اس پر الگ مقدمہ چلتاہے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عمران خان اور بابر اعوان کو توہین عدالت کے جرم میں پکڑا تھا دونوں نے باقاعدہ معافی مانگ کر جان چھڑائی 1997میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اُس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا تھا جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں گھر کا راستہ دکھایا مگر اب چلن ایسا ہو گیا ہے کہ لوگ عدالت کو جلسہ عام کا درجہ دیتے ہیں جس طرح پریس کا نفرنس اور جلسہ عام پر بحث ہو تی ہے اس طرح عدالت کی کاروائی کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور عدالت ٹس سے مس نہیں ہو تی سسپنس یا تجسس سے بھر پور ڈرامہ سیرئیل کی طرح عدالتی کاروائی میڈیا میں آتی ہے اب کیا ہو گا؟قوم سانس روکے انتظارمیں ہو تی ہے پہلی بات یہ ہے کہ جے آ ئی ٹی کی رپور ٹ ایک فنی اور تکنیکی رپورٹ ہے اس میں اگر نیب کاذکرہے تو وہ بھی قانونی اور آئینی معامہ ہے اگر سٹیل ملز،اوجی ڈی سی،ریلوے ،پی آئی اے یا واپڈا سے پیسہ نکا ل کرذ اتی کاروبار میں لگانے کا ذکرہے تو اس کو بھی آڈٹ کے قانوں کی روشنی میں دیکھا جا ئے گا عدالت عظمی اس رپورٹ کے مندرجہ جات پر قانونی نکات کی روشنی میں غور کرے گی اگر رپورٹ میں نیب قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے تو یہ بھی عدالت عظمی کا اختیار ہے کہ اس پر غور کرے کسی عام شہری کو اس پر بحث کرنے کا حق نہیں پہنچتا یہ صرف عدالت کے دائرہ اختیار کی بات ہے مگر یہاں کوئی نہیں پوچھتا جے آئی ٹی رپورٹ پر مبنی تجسس یا سسپنس سے بھر پور ڈرامہ سیر ئیل ہے ہم اس ڈرامے سے محظوظ ہو رہے ہیں ہو سکتا ہے معاملہ نیب کے پاس چلا جائے اور مزید ڈرامے دیکھنے کو ملیں ۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تما شا میرے آگے