جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ سپریم کورٹ میں داخل کرنے سے پہلے اخبار والوں کو دیدی گئی، فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے گھرگھر پہنچ گئی اس کا خلاصہ ہر شہری کے موبائل فون کی زینت بن گیا ذاتی دشمنی میں ایک دوسرے کو سپریم کورٹ میں پنچا دکھانے کی کوشش کرنے والوں میں سے کسی بھی فریق نے مٹھائی نہیں بانٹی البتہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں آسمان کو سرپر اٹھالیا گیارپورٹ ااگر ،مگر، چین ، چناں ، بہرحال اور بہرکیف ، بہرصورت پر مبنی ہے جو باتیں پانامہ پیپرز آنے سے پہلے عام شہری کے علم میں تھیں، وہی باتیں سپریم کورٹ کے حکم میں تھیں ،وہی باتیں جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ہیں نہ پانامہ پیپرز میں کوئی نیا انکشاف تھا نہ جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی نئی بات ہے
پتا پتا ، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
دو ماہ پہلے جے آئی ٹی کی کاروائی شروع ہوتے ہی پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ مسلم لیگ (ن) کو اگلے انتخابات میں پھر جتوانے اور چوتھی بار اقتدار میں لانے کے لئے کام کررہی ہے اس کا کوئی دوسرا نتیجہ نہیں آنے والا‘‘ کم وبیش ایسا ہی ہوا ہے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے مسلم لیگ (ن) کو جے آئی ٹی نے تقویت دی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو شمال سے جنوب تک پھیلے ہوئے دو ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی نے استحکام دیا ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کرپٹ ہیں ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اچھا مقرر ہونا الگ معاملہ ہے بڑا جلسہ کرنا الگ مسئلہ ہے عوام کے ووٹ سے دونوں کا تعلق نہیں 1946کے انتخابی مہم کا نتیجہ آیا تو احرار کے مشہور لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے کہا تھا’’یہ عجیب بات ہے لوگوں نے تالیاں میری تقریروں پر بجائیں اور پولنگ سٹیشن جاکر جناح کو ووٹ دیا‘‘ سہیل وڑائچ ایسے مواقع پر سوال اٹھایا کرتے ہیں ’’کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘‘ہماری معاشرت اور سیاست ایسے تضادات سے بھری ہوئی ہے۔جے آئی ٹی کی رسمی کاروائیوں میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کی اولاد کو جس طرح میڈیا میں شہرت دی گئی اس طرح کا کوریج وہ تین چار ارب روپے خرچ کرکے بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ ضیا محی الدین نے ایک بار ٹی وی پر آکر واقعہ سنایا تھا پاگل خانے کے ڈاکٹر کے پاس نیا مریض لایا گیا ڈاکٹر نے مریض سے پوچھا کیا بیماری ہے؟ مریض نے کہا میں نے 35سالہ عورت سے شادی کی اس کی 18سالہ لڑکی تھی جو میرے باپ کو پسند آگئی اور میرے باپ کی بیوی بن گئی اب میری بیوی میرے باپ کی ساس بھی ہے بہو بھی، میں اپنے باپ کا بیٹا بھی ہوں سسر بھی ایک سال بعد میرے باپ کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی وہ میری سوتیلی بہن بھی ہے نواسی بھی اور میں اس کا سوتیلا بھائی بھی ہوں نانا بھی اس طرح میرا بیٹا میرے باپ کا پوتا بھی ہے اور سالہ بھی میرا باپ میرے بیٹے کا۔۔۔۔۔۔۔ مریض یہاں تک پہنچا تو ڈاکٹر نے اس کو روک کرکہا چپ کرو یا تم مجھے بھی پاگل بناوگے۔ڈاکٹر کے سامنے پاگل کا بیاں جے آئی ٹی رپورٹ سے مختلف نہیں ہے دونوں میں حد درجہ مماثلت ہے اور یہ پاکستانی قوم کو پاگل بنانے کی کوشش ہے جس طرح جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دے کرپاکستان پیپلز پارٹی کو مضبوط سیاسی طاقت بنا دیا اس کی بیٹی کو پاکستان کا نمبر ایک لیڈر بنا دیا اس طرح جے آئی ٹی بھی مسلم لیگ کو پنجاب میں قومی اسمبلی کی 200نشستیں جیت کر 2018ء میں چوتھی بار اقتدار میں آنے کی راہ پر ڈال رہی ہے پنجاب کے ووٹروں کا مزاج سب کو معلوم ہے پنجاب کے اندر ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ ایسا نعرہ ہے جیسا کہ سندھ میں ’’جئے بھٹو‘‘ اور پاکستان کھپے‘‘اور ملک پر حکمرانی کے لئے پنجاب اور سندھ کے ووٹوں کی اہمیت سے سب آگاہ ہیں یہ 1991کا ذکر ہے تحریک پاکستان کے نامور لیڈر اور سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔صحافیوں کا ایک گروپ ان کی عیادت کے لئے گیا باتوں باتوں میں نئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ذکرآیاتو جی ایم سید نے کہا ’’پنجاب کی تاریخ میں دو ہی لیڈر پیدا ہوئے پہلا لیڈر مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا دوسرا لیڈر میاں نواز شریف ہے‘‘ صحافی جی ایم سید سے وفاقی حکومت کے خلاف کوئی بات اگلوانا چاہتے تھے انہوں نے صحافیوں کی نیت کو بھانپتے ہوئے کہا’’ ہماری آپس میں کوئی مخالفت نہیں ہم قوم پرست ہیں وہ ہمارے ہی ایجنڈ ے کو آگے بڑھا رہا ہے اس کو آپ طنز کا نام دیں یا تعریف کے زمرے میں ڈال دیں بات واضح ہے 1991ء میں بھی نواز شریف پنجابی قوم پرستی کو ہوا دے کر کامیاب ہوا تھا 2013ء میں بھی پنجابی قوم پرستی کا فیکٹر فیصلہ کن ثابت ہوا 2018ء میں ایک بار ایسا ہی ہوگا دوسری بڑی بات یہ ہے کہ جس لیڈر کے خلاف کرپشن کا پروپیگنڈہ ہوتا ہے لوگ اس کواپنی امیدوں کا محور قرار دیتے ہیں کیونکہ عوام کے مزاج میں یہ بات شامل ہے وہ ایسا لیڈر پسند کرتے ہیں جو کھانے اور کھلانے والا ہو، پینے اور پلانے والا ہو نگر اور کراچی کے ضمنی انتخابات میں پی پی پی کی فتح اس کا ثبوت ہے ۔رہی بات جمہوریت کی ، تو جمہوریت صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہے عملی سیاست میں ہم نے دو طرح کے لیڈر دیکھے ہیں خاکی والا ڈکٹیٹراور مفتی والا ڈکٹیٹر ۔ تیسرا لیڈر ہمیں آج تک نہیں ملا آئندہ بھی اس کی اُمید نہیں ہماری قسمت میں نیلسن منڈیلا، رجب طیب اردگان، لی کوان یو اور مہاتیر محمد جیسا کوئی لیڈر نہیں ٹی وی آن کریں تو ایسا لگتا ہے کہ چوتھی عالمی جنگ پاکستان میں لڑی جارہی ہے ’’نان ایشوز ‘‘ پر اتنا شور مچایا جارہا ہے کہ اصل مسائل اس شور میں دب جاتے ہیں مرزا غالب نے غزل کے ایک شعر میں یہی بات کہی تھی
اک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی