کالمز

ذہنی مریضوں کی طرف توجہ دی جائے 

اگر آپ کے آس پاس کوئی بھی شخص بلا وجہ آپ سے الجھ جاتا ہے ، غیر ضروری موضوعات پر گھنٹوں بحث کر کے اپنا اور آپ کا قیمتی وقت ضائع کرتا ہے، ہر چھوٹی بات پر غصے میں آپے سے باہر ہوجاتا ہے، بات بات پر گالیاں نکالتا ہے ،آپ کی مناسب دلیل کو سنے سمجھے اور عمل کئے بغیر اپنی سوچ پر اڑے رہتا ہے، دس دس گھنٹوں کی گفتگو میں موضوع کو سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لہجے میں نرمی کی بجائے ہر وقت تلخی رہتی ہے، مسکرانے سے محروم ہے، ہرایک کی غیبت کرتا ہے، میں نہ مانوں کے فارمولے پر قائم ہے، اپنی بات منوانے کے لئے ہر طرح کا دباؤ ڈالتا ہے، بغیر ٹھوس ثبوت کے لوگوں کے کردار پر انگلی اٹھاتا ہے ، خود کودور حاضر کا افلاطون سمجھتا ہے، اپنی طاقت کے آگے ہلاکوخان کو ہیچ سمجھتا ہے، عاجزی اور انکساری سے محروم ہے، نیند کی دوائی کھاتا ہے یا عادی نشئی ہے، روز کسی نہ کسی سے لڑ تا ہے،زندگی میں بے ترتیبی ہے اور مقصدیت سے عاری ہے ، معاشرے سے نفرت کرتا ہے، ہر بات کا منفی پہلو نکالتا ہے، ہر کام میں نقص ڈھونڈتا ہے ، زندگی سے بے زاری کا اظہار کرتا ہے، لوگوں کو اذیت دیکر فرحت محسوس کر تا ہے اوراپنی خوبیاں خود بیان کرتا ہے، غمگین یا اداس رہتا ہے، پریشان خیالات کا مالک اور کسی کام میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے، پریشانیوں سے خوف زدہ ہو جاتا ہے یا اپنے آپ کوانتہاء کی حد تک مجرم تصور کرتا ہے، مزاج میں انتہاء کی حد تک اتار چڑھاؤ آتا ہے، دوستوں اور رشتہ داروں سے کھبی قریب اور کھبی بہت دور ہوجاتا ہے، تھکا تھکا رہتا ہے، حقیقت سے منہ موڈتا اور خیالی دنیا میں رہتا ہے، روز مرہ کے مسائل پر پریشانی میں بے قابو ہو جاتا ہے، حالات کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے، کھانے پینے میں بے احتیاط ہو جاتا ہے، انتہاء کی حد تک جنسی لت کا شکار ہوجاتا ہے یا جنسی بے زار ی کا اظہار کرتا ہے، دشمنی کی حد تک غصہ ، نفرت اور تشدد پر اتر آتا ہے اور بعض اوقات خودکشی کا سوچتا ہے یا اسی طرح کی دیگر منفی خصلتوں کا پیکر ہے تو سمجھ لیجئے گا اس شخص کا ذہن کھسک گیا ہے۔ ممکن ہے وہ ذہنی مریض ہو۔ مگر وہ اان تمام عادتوں یا خصلتوں کواپنی خو بیاں سمجھتا ہو۔ ایسے لوگوں کے ساتھ الجھنے کی بجائے مریضوں جیسی ہمدردی کرنے کی ضرورت ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اب یہ تعداد پانچ کروڈ تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں ڈیڑھ سے ساڈھے تین کروڈ نوجوان شامل ہیں جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا دس سے بیس فیصد ہیں۔ کراچی پریس کلب میں پچھلے سال ذہنی امراض سے متعلق منعقد ہونے والے ایک بحث کے دوران ڈاکٹر عائشہ چیر پرسن ڈیپارٹمنٹ آف سائیکاٹری آغاخان یونیورسٹی نے کہا تھا کہ پاکستان میں دو کروڈ بچوں کو ذہنی امراض کے ماہرین کی توجہ درکار ہے۔ہر سال دس اکتوبر کو مینٹل ہیلتھ کا دن بھی منایا جاتا ہے مگر اس سلسلے میں اقدامات تاحال ناکافی ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں سے صرف چار سو ذہنی امراض کے ماہرین موجودہیں جبکہ صرف پانچ ہسپتال قائم ہیں۔

ماہرین کے مطابق ذہنی امراض کے بڑھنے میں سماجی و معاشی عدم توازن، سیاسی عدم استحکام، غیر مستقل پالیسیاں، عدم برداشت، انتہا ء پسندی، غیرت کے نام پر سرزد ہونے والے جرائم، بیڈ گورننس، کرپشن ، اقراء پروری، رشوت ستانی، میڈیا میں دیکھائے جانے والے منفی کریکٹرز اور پر تشدد واقعات ،سماجی میڈیا یعنی انٹرنیٹ، موبائل اور کمپیوٹر کا غلط استعمال جیسے سماجی عو امل کار فرما ہیں ۔ جبکہ دیگر وجوہات میں والدین کی عدم تو جہی، نفسیاتی دباؤ، بچپن میں جنسی یا جسمانی و نفسیاتی تشدد،سماجی تنہائی، امتیازی برتاؤ یا سماجی طعنہ زنی، کسی عزیز کا بچھڑنا، طویل ذہنی دباؤ، بے روزگاری یا ملازمت کا کھو جانا، ملازمت کے حوالے سے عدم تحفظ ، غربت، قرضہ، کم مرتبہ، بے گھر یا گھر کی خستہ حالی، نشہ کا عادی ہونا، گھریلوتشدد، جنسی تشدد، کسی جرم سے متاثر ہونا، کوئی جسمانی یا ذہنی معذوری، زخم یا دیرینہ بیماری کے علاوہ مورثی عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔

ذہنی امراض کی تشخیص کے بعد اس کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں ذہنی مرض کی تشخیص کو معیوب سمجھا جاتا ہے اس لئے لوگ اپنے ذہنی چیک اپ کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ایک انسان جسمانی طور پر بیمار ہوجاتا ہے اسی طرح ذہنی اور نفسیاتی مرض کا لاحق ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس کو ایک رسوائی تصور کیا جاتا ہے اس لئے کوئی ذہنی مریض یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہو تا ہے کہ ان کو کوئی ذہنی بیماری لاحق ہے اگر وہ کسی طرح مان جائے تو وہ تشخیص کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانے کو عیب سمجھتاہے کیونکہ ڈاکٹر کی طرف سے ان کا اگر ذہنی مریض تشخیص ہو گیا تو پھر وہ مصدقہ پاگل تصور کیا جاتا ہے اور اس کے لئے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سماجی تعلقات، شادی، دوستی اور ملازمت میں رکاوٹیں شامل ہیں۔

ذہنی امراض کے بڑھتے ہوئے اس جحان پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے اب ہم اس اہم مسلے سے متعلق سماجی رویوں میں تبدیلی لائیں۔ صحت کے شعبے میں ذہنی امراض کے پہلو کی طرف خاص تو جہ دینے اور اس مقصد کے لئے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے بنیادی کام لوگوں کو آگاہی دینے کا ہے ۔ عام لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ذہنی مرض میں مبتلا ہونا کائی رسوائی نہیں ہے یہ جسمانی بیماریوں کی طرح ہی ایک بیماری ہوتی ہے۔ جس طرح ہم جسمانی بیماریوں کا چیک اپ کراتے ہیں اسی طرح ہمیں ذہنی امراض کا بھی چیک اپ کرانا چاہئے۔ذہنی امراض کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن میں سے بعض ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جو کہ مریض کی ذاتی کوشش اور عادتوں میں تبدیلی لانے سے دور ہوجاتی ہیں، بعض کے لئے کسی ماہر ذہنی امراض کی مشاروت کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ذہنی امراض کے کسی ماہر کی طرف سے باقاعدگی سے دوائیاں تجویز کی جاتی ہیں۔ حکومتی سطح پر اس مقصد کے لئے آگاہی کے علاوہ ذہنی امراض کے مزید ہسپتال قائم کرنے کی طرف تو جہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ آئندہ سالوں میں ذہنی امراض کے ماہرین کی تعداد میں اضافے کے لئے بھی خاص اقدامات کی ضرورت ہے جس ملک کی بیس فیصد آبادی اگر ذہنی مریض ہو جائے تو ملک خود بخود مفلوج ہوسکتا ہے اس لئے اس ضمن میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان میں بھی نشہ آور اور سکون دینے والی ادوئیات اور منشیات کا بے دریغ استعمال، خودکشیاں اور جرائم کے واقعات ،عدم برداشت اور تشدد سمیت منفی رویوں کا پروان چڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں بھی ذہنی امراض کی تعدا د آبادی کے حساب سے وہی ہے جو پاکستان کے دیگر صوبوں میں ہے ۔ پاکستان میں بیس فیصد افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں۔اسی تناسب سے گلگت بلتستان کی آبادی اگر بیس لاکھ تصور کی جائے تو یہاں ذہنی امراض کے شکار مریضوں کی تعداد چار لاکھ بن جاتی ہے جو کہ تشویش ناک ہے یہاں اس مسلے کی طرف آج تک توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ پورے گلگت بلتستان میں صرف سی ایم ایچ میں ماہر ذہنی امراض موجود ہے ۔ سرکاری ہسپتالوں میں سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ کے تعیناتی کے احکامات تو دئیے گئے ہیں مگر تاحال کوئی تعیناتی کی خبر نہیں ہے ۔ گلگت بلتستان میں ذہنی امراض کے مریضوں کی کتنی تعداد پائی جاتی ہے اس کے لئے محکمہ صحت کے زیر اہتمام سروے کرانے کے علاوہ یہاں ذہنی امرض کا ایک ہسپتال قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button