سیاحت
گلگت کی ایک نہایت مشہور اور خوبصورت وادی، نلتر کا سفر نامہ – حصہ اول
نومل سے گزرتے ہوئے تقریباََ آخر میں راستہ ایک دم بائیں طرف مڑا۔یہ نلتر کی طرف جاتا روڈ تھا۔
سورج بالکل ہمارے سر کے اوپر تھا۔دھوپ مچل رہی تھی اور گاڑی کی کھڑکیوں سے اندر لپک رہی تھی۔ساتھ ہی اوپر بلندیوں سے اترتی دبی دبی ہوا تھی۔جس میں ٹھنڈک ابھی زیادہ نہیں تھی۔ہاں اس ہو ا میں چیڑ،دیودار اور fir spruce(صنوبر کا درخت)کی خوشبو گھلی ملی تھی۔
راستے کے دائیں طرف ،اوپر بلندی سے گرتا پتھروں سے ٹکراتا ،نالے کا پانی تھا۔جس سے اٹھتا شور سرودِجاں فزا بنا ہوا تھا۔نالے سے آتی ہوا کی ٹھنڈک اندر ہمیں چوم رہی تھی۔ساتھ ہی روڈ کے ساتھ بائیں جانب خشک چٹیَل پہاڑ تھے۔جن سے اٹھتی دھوپ کی حدّت طمانچے بھی مار رہی تھی۔
نلتر کی طرف جاتی وہ سڑک کہیں پکی تھی،کہیں کچی تھی۔ایک جگہ چائنیزمزدور اور انجینئرز روڈ کی کشادگی کا کام بھی کرتے ہوئے نظر آئے۔بع
د میں پتا چلا یہ دراصل نلتر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر اور مرمت کے لئے مشینری پہنچانے کے سلسلے میں کیا جا رہا تھا۔
ہم اس کچے پکے ،بل کھاتے اور تنگ درے کے درمیان سے بلندی کی طرف اٹھتے اس راستے پہ آگے بڑھ رہے تھے۔
معروف محقق ،مؤرّخ ،مترجم اور کتاب دوست شخصیت ،شیر باز علی برچہ صاحب،شاعرِ درد جناب جمشید دکھی صاحب اور یہ ناچیز صبح دس بجے گلگت سے روانہ ہوئے تھے۔سولہواں روزہ تھا۔گلگت شدید گرمی سے پُھنک رہا تھا۔صبح سے شام کرنا گویا جُوئے شِیر لا نا تھا۔ایسے میں نلتر جیسی خوبصورت اور پُر فضا وادی کی طرف سفر ،غنیمت کی بات تھی ۔
دو دن پہلے ہی دکھیؔ صاحب نے خواہش ظاہر کی تھی۔ہم گلگت میں کارگاہ نالے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔دکھی ؔ صاحب شدید پیاس سے بے حال تھے۔کارگاہ نالے کا ٹھنڈا پانی بھی بے اثر ہو گیا تھا۔ایسے میں انہوں نے کہا۔’’بھئی ،اس طرح دو تین گھنٹوں کے لیے نالے کے پاس بیٹھنے سے گرمی اور پیاس ختم ہونے والی نہیں ۔میری مانو تو نلتر چلتے ہیں۔دو ایک دن ٹھہر کے آتے ہیں۔‘‘
میں سدا کا گھماؤ پھراؤ کا دل دادہ….ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہوں ۔میں نے ایک دم اپنی رضامندی ظاہر کر دی تھی۔اور دودن بعد ہی یہ خواہش ،سفر کی تعبیر بن گئی تھی۔برچہ صاحب کی سنگت بھی سونے پہ سہاگہ تھی۔ایسی علمی،تاریخی اور ادبی شخصیت کی صُحبت میں کچھ وقت گزر جائے،مجھ جیسے طالب علم کو اور کیا چاہئے تھا۔
شیرباز برچہ صاحب اگلی سیٹ پہ بیٹھے ہوئے تھے۔جسمانی لحاظ سے دھان پان سے ہیں۔پبلک لائبریری گلگت سے بہ حیثیت سینئر لائبریرین سبک دوش ہوئے دو سال سے زیادہ ہوئے ہیں۔بڑے ہی نفیس اور مہربان انسان ہیں۔یہاں کی تہذیب وتمدن ،تاریخ اور سماجی رویوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔وہ ایک طویل عرصے تک پبلک لائبریری میں کتاب دوستی کی شمع جلاتے رہے۔بے جان کتابوں کو انہوں نے بولنا سکھایا۔لائبریری کی الماریوں سے نکال کر پڑھنے والوں کے ہاتھوں تک پہنچایا۔گلگت جیسے کم پڑھے لکھے علاقے میں انہوں نے علمی و ادبی کتابوں کا شوق پیدا کیا۔
کبھی ایسا ہوتا تھا لوگ ان سے ملنے جاتے اور کتابوں سے دوستی اختیار کر کے واپس چلے آتے۔ پھر کبھی علم کا کوئی متلاشی بھٹکتا ہو ا پبلک لائبریری آجاتا۔وہاں برچہ صاحب سے ملاقات کر کے بس ہمیشہ کے لئے ان کا گرویدہ ہوکر واپس چلا جاتا۔
برچہ صاحب کئی ایک تاریخی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف اور مترجم ہیں ۔ساتھ ساتھ تخلیقی اور تحقیقی کام کرنے والے اہل قلم کی بھی قدم قدم پہ رہنمائی کی ہے۔
نلتر کی طرف جانے والا وہ راستہ کالے ،چٹیَل پہاڑوں کے اندر گھومتا بلند ہوتا تھا۔جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے،نیچے نومل اور پھر اس سے پہلے گلگت کی کڑی دھوپ کی شدت میں خاصی کمی آئی تھی۔راستے میں نالے کی دوسری سمت نلتر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دکھائی دیا۔گلگت شہر اور آس پاس کے علاقوں کو بجلی فراہم کرنے والا یہ اہم پراجیکٹ مشرف دور میں چائنہ کے تعاون سے بنا تھا۔
ابتدا میں چینی کمپنی ہی اس کی منتظم تھی۔اس وقت سردیوں میں بھی بہت مناسب بجلی سپلائی ہوتی تھی۔بعد میں جب اپنوں کے ہاتھ یہ پراجیکٹ لگا تو سب کچھ بگڑ گیا۔اب گذشتہ دو سالوں سے موجودہ صوبائی حکومت کی کوششوں اور اقدامات سے بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
یہ المیہ ہے کہ دیانت ،محنت اور فرض شناسی جیسی صفات ہم سے کب کی روٹھ چکی ہیں۔کوئی بھی شعبہء حیات ہو ،اس کے ٹوٹ پھوٹ اور انتظامی بربادی میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔
برچہ صاحب بولے۔’’یہ کیسی ستم ظریفی ہے ہم باکمال لوگ ہیں ،مگر کمال کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔دیانت ،مہارت اور فرض شناسی فی زمانہ کامیابی اور ترقی کی چابی ہے۔ہم میں سے اکثر ،مگر اس سے محروم ہیں۔‘‘
دکھی صاحب نے کہا۔’’تبھی تو زندگی کا ہر شعبہ ٹوٹ پھوٹ اور گراوٹ کا شکار ہے۔اداروں سے لے کر افراد تک زوال آمادہ ہیں ۔ایک بڑی سے بڑی کرسی والے سے لے کر ایک عام ملازم تک اپنی ذمہ داریوں کو بہ احسن سرانجام نہیں دیتا۔سفارش ،رشوت،اقربا پروری ،بے ایمانی اور نا اہلی نے ہمارا کباڑا کر دیا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا۔’’ویسے تو علم عام ہوتو شعور بڑھتا ہے۔لیکن ہم ایسے مفلس لوگ ہیں کہ علم بھی بڑھا ہے ،شعور بھی بڑھا ہے مگر characterگھٹ گیاہے۔احساسِ ذمہ داری مر چکا ہے۔جس کی وجہ سے علم اور شعور بھی منفی راستے پہ ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔‘‘
برچہ صاحب بولے۔’’اس کی بنیادی وجہ اداروں کے اندر احتساب کا نہ ہونا،ذمہ داروں کا اپنے عملے کی کارکردگی سے غافل رہنااور قومی مفاد کے جذبے کا نہ ہوناہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ذہنی اور قلبی طور پرمردہ ہو چکے ہیں۔‘‘
دکھی صاحب دکھ سے بولے۔’’کیا قیامت ہے کہ سب سے زیادہ پانی کے ذخائر …گلیشئرز ،دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں۔پھر بھی اس مشینی دور میں ہم بجلی کی قلّت کا شکار ہیں…‘‘
برچہ صاحب بولے۔’’دکھ ہوتا ہے جب قومی وسائل کا استعمال غلط ہوتا ہوا دیکھوں تو۔ذرا سوچیں اس تنگ نالے میں اتنا اہم پاور پراجیکٹ تعمیرکیا گیا ہے۔یہاں سیلاب آتے رہتے ہیں کسی بھی وقت کوئی آسمانی آفت اسے تباہ کر سکتی ہے۔اللہ نے ہمیں دریاؤں کی شکل میں زبردست وسیلہ دیا ہے۔وہاں ڈیم بنا کے صدیوں تک بجلی اور پانی کی دیگر ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔مگر بے ایمانی ،ذاتی مفاد اور قومی جذبے کے شدید فقدان نے ہمارے اداروں کا ستیاناس کر دیا ہے۔‘‘
میں نے کہا۔’’یہ سوچنے کی بات ہے سر!اس پاور پراجیکٹ پر گلگت شہر اور آس پاس کی آبادی کا انحصار ہے۔خدا نہ خواستہ اسے کچھ ہوجائے….کوئی آسمانی آفت یا کوئی زمینی دہشت گردی ،تب تو سارا شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔‘‘
دکھی صاحب بولے۔’’اللہ ہمارے حکمرانوں کو سمجھ عطا کرے کہ خلوص اور شعوری جذبے سے طویل مدتی منصوبے بنائیں۔ان شارٹ کٹ پالیسیوں نے دنیا بھر میں ہمیں بدنام کردیا ہے۔‘‘
ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے اس مقام سے گزرتے ہوئے بے ساختہ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔اب اس تنگ درّے کے پہاڑوں کے اوپر سے ،نلتر کی بلندیوں پہ چمکتی چوٹیاں نظر آنے لگی تھیں۔اور اتنی دور سے یوں جھلک دکھلا رہی تھیں جیسے کوئی محبوب چلمن کے پیچھے ،صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں…..
وہاں کی برفیلی ہوائیں یہاں اتر کر ،تیز دھوپ سے ٹکرانے لگی تھیں۔مگر جون کا وہ سورج ایسا سرکش تھاکہ اب بھی اپنی شدت دکھا رہا تھا۔آگے ایک جگہ خشک اور بے جان پہاڑوں کے درمیان اچانک زندگی کی تازگی دکھائی دینے لگی۔وہاں درخت تھے،کھیت تھے اور مکان تھے۔ہم جوں جوں آگے بڑھے یہ منظر کھل کر سامنے آگیا۔
یہ نلتر پائین کا علاقہ تھا۔لمبائی میں نسبتاََ زیادہ پھیلا ہوا۔شہتوت ،خوبانی ،اخروٹ ،چیری اور پاپلر کے درختوں میں گھری یہ وادی ،طویل خشک پہاڑوں کے بعد آنکھوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ہماری گاڑی کچے پکے مکانوں کے بیچ سے ہو کر گزرنے لگی۔روڑ کے ساتھ چند دکانیں بھی تھیں۔ایک جگہ بڑی سی مسجد اور ساتھ ہی ایک سکول کی نامکمل عمارت دکھائی دی۔سڑک پہ اور کھیتوں میں عورتیں بھی مرد بھی کام کرتے ہوئے دکھائی دیے۔
ان مناظر کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھے تو کچھ ہی دیر بعد …ہمارے بائیں جانب نالے کے اس پار ،اوپر بلندیوں پہ برف پوش چوٹیاں کھل کر جلوہ نمائی کرنے لگیں۔ساتھ ہی چیڑ اور دیو دار کے درخت دکھائی دیے۔یہ نلتر بالا کے آثار تھے۔اور ہم اسی طلسمی ماحول میں جا رہے تھے۔ذرا ہی دیر بعد اس کے قریب پہنچ گئے۔نیچے نومل سے یہاں تک ،نالا جس طرح بپھرا ہو اتھا ،تیزی سے پتھروں سے ٹکرا کر اپنا غصہ ظاہر کرتا رہاتھا۔اب یہاں ایسا نہیں تھا۔اس میں تیزی اب بھی تھی مگر ایک سرکش ندی جیسی…پہلے نالے کے دونوں جانب بے جان پہاڑ تھے،اب ہریالی تھی،چیڑ اور sprucefir(صنوبر) کے درخت تھے۔ان سے ذرا اوپر دونوں طرف کی ڈھلوانی زمین تھی۔دائیں طرف بڑی تعداد میں مکان پھیلے ہوئے تھے۔کہیں پاس پاس ،کہیں ایک دوسرے سے دور…
نالے کے دوسری طرف مکان کم تھے۔لیکن سبزہ تھا،چیڑ ،دیودار اور صنوبر کے درخت ہی درخت تھے۔ان سے اوپر ہریالی اور تازگی سے بھرپور پہاڑ تھے۔جن کی چوٹیوں پہ ابھی برف آخری سانسیں لیتی ہوئی چمک رہی تھی۔
وہ سارا منظر بڑا دلفریب تھا۔نیچے نومل سے یہاں تک ،خشک پہاڑ اور ویران مناظر نے نگاہوں کو تھکا دیا تھا۔لیکن اب اچانک ہی جیسے زمین کی گود ہری بھری ہو گئی تھی،اورجمالِ فطرت انگڑائیاں لیتی ہوئی بیدار ہو گئی تھی۔
میں گاڑی کے شیشوں سے باہر کسی ندیدے کی طرح آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔ایک ایک منظر نگاہوں کے راستے میرے اند ر اتر رہا تھا۔میرے ہم سفر بھی ایک بے خودی کے عالم میں یہ سب دیکھ رہے تھے۔
اچانک برچہ صاحب بولے۔’’میں کئی برسوں کے بعد آیا ہوں ۔مگر ہر ہر منظر مانوس مانوس سا لگتا ہے۔کیوں کہ اسے بھولا ہی نہیں تھا۔اب پھر دیکھ کر دل یہی کہہ رہا ۔۔۔ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ۔
دکھی صاحب بولے۔’’شہرِ گلگت کی زندگی نے ہماری حسِ جمال کو سلادیا ہے۔شاید اسی لیے ہم میں سے اکثر کی شاعری غمِ دوراں کے ریگ زار میں بھٹک رہی ہے۔حسن ،عشق اور جذبہ شاعری سے نکلتے جا رہے ہیں ۔اگر ایسے ماحول میں بار بار آئیں تو ہو سکتا ہے یہ صفات پھر سے ہماری شاعری کو گلزار بنا دیں۔‘‘
میں نے عرض کیا۔’’سر ! ہم اندر سے مفلس ہو تے جا رہے ہیں ۔جمالیاتی احساسات گھٹتے جا رہے ہیں۔وقت ایسا مشینی آیا ہے ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں ۔گھر اور دفتر ہی کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں ۔ذرا باہر جھانک کر بھی دیکھیں ،زندگی میں کتنا حسن ہے؟فطرت میں کیسی کشش ہے؟یہ ہمارا گلگت بلتستان کتنا دل کش ہے؟اس کی ہر ہر ادا ہمیں بلا رہی ہے۔یہ ہم ہی ہیں جو کفرانِ نعمت کر رہے ہیں۔ورنہ اس کائنات کو تو اللہ پاک نے ہمارے لیے ہی اور ہماری وجہ سے ہی زینت بخشی ہے۔‘‘
ہم گاڑی کے اندر ہی تھے۔ابھی وہاں کا حسنِ فطرت مکمل دیکھنے سے قاصر تھے۔نالے کی دوسری طرف جہاں مکانات کم کم تھے،ہمارا پڑاؤ ادھر تھا۔اب وہاں پہنچ کر ہی نگاہوں کی پیاس بجھ سکتی تھی۔
گاڑی گھوم کر نیچے نالے پہ بنے پُل سے ہوتے ہوئے دوسری طرف آئی۔اس کچی سڑک کے ساتھ ،بے طرح سر سبزڈھلوانی زمین پر بہت سے سرکاری اداروں کے ریسٹ ہاؤسز بنے ہوئے تھے۔افسروں اور ان کے طفیلیوں کے لیے گرمیوں میں یہ بڑی خوب صورت تفریح گاہ تھی۔
وہاں سے آگے بڑھے تو ایک جلی ہوئی اور چھت اڑی ہوئی عمارت دکھائی دی۔ دکھی صاحب کے ڈرائیور نے بتایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں پاک فو ج کا ہیلی کاپٹر کریش ہوا تھا۔مجھے ایک دم یاد آیا ۔۸مئی ۲۰۱۵ کو نلتر میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ایک بڑا پروگرام منعقد ہو رہا تھا۔بہت سے دوست ممالک کے سفیر اور ان کے اہلِ خانہ بھی مدعو تھے۔وزیر اعظم صاحب خود بھی آنے والے تھے اور chairlift project کا افتتاح کرنے والے تھے ۔
سارے انتظامات مکمل تھے کہ اچانک پاک آرمی کا-17 M1ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا تھا۔کئی دوست ممالک کے سفیر ،اہل خانہ اور عملے کے تین افراد سمیت آٹھ لوگ جاں بہ حق ہوئے تھے۔ہیلی کاپٹر لینڈنگ کے لئے جو مخصوص Hکا نشان بنایا جاتا ہے اس سے دس پندرہ گز کے فاصلے پر آرمی پبلک سکول تھا۔وہاں آس پاس بہت سے اونچے اونچے درخت تھے ۔ہیلی کاپٹر وہاں آ کر کسی تکنیکی خرابی کے باعث گر پڑا تھا اور بہت ہی پُر مسرت اور خوش گوار ماحول پہ ایک دم دکھ اور صدمے کا پہاڑ آگرا تھا۔
اس حادثے کی جگہ سے تھوڑا آگے اوپر پہاڑوں کی طرف سے ایک اور نالہ بہہ رہا تھا۔نلتر کے مختلف پہاڑوں سے ایسے بے شمار چھوٹے چھوٹے ندی نالے بہتے ہوئے مرکزی نالے میں شامل ہوجاتے ہیں۔
اس چھوٹے نالے کے ساتھ ہی فاریسٹ نرسری تھی۔جمشید دکھی صاحب محکمہ جنگلات میں ہوتے ہیں۔انہوں نے اپنے ریسٹ ہاؤس میں قیام کا انتظام کررکھا تھا۔لوہے کا بوسیدہ گیٹ کھول کر ہم نرسری کے اندر داخل ہوئے۔ہر طرف ہریالی تھی۔چیڑ ،دیودار اور صنوبر کے اونچے اونچے درخت تھے۔اور پاس ہی بہتے نا لے کا شور تھا۔
ہم گاڑی سے نیچے اترے۔درختوں سے اترتی خوشبو نے ہمارا استقبال کیا۔ نرسری، زمین کے مختلف قطعوں کی شکل میں بنی تھی۔ڈھلوانی زمین کو بڑے اچھے انداز میں ہموار قطعوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ درمیان سے پتھریلی روِش گزرتی تھی۔دکھی صاحب کی معیّت میں ہم اس پتھریلی روِش پہ چلتے ہوئے فاریسٹ ہٹ کی طرف آئے۔چیڑ اور دیودار کے اونچے اونچے درختوں کے بیچ ،فاریسٹ کی وہ قیام گاہ نگاہوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔
مگر چودہ پندرہ کنال وسیع وہ زمین کسی بھی لحاظ سے نرسری نہیں لگ رہی تھی۔ہر طرف لمبی لمبی گھاس تھی،اطراف میں اور نیچے قیام گاہ کے پاس اونچے اونچے درخت تھے۔زراعت کے محکمے کے پاس محض زمین کا قبضہ تھا،باقی سب کچھ قدرت ہی کی کارکردگی تھی۔
ریسٹ ہاؤس کے آس پاس چیڑ اور دیودار کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔وہاں عملے کے لوگوں نے ریسٹ ہاؤس کے دروازے کھول دئے۔تین چار کمروں کا well furnished وہ مکان اچھی حالت میں تھا۔
گرمی اور روزے کی حالت میں ایسا سخت سفر ہلکان کر دیتا ہے۔مگر نلتر میں داخل ہوتے ہی ہم ساری تھکا ن بھول گئے تھے۔ رگوں کے اندر دوڑتے خون میں ایک نئی تازگی آگئی تھی اور ہم میں ایک فرحت انگیز بشاشت…..
ڈرائیور اور عملے کے افراد نے افطار اور پھر سحری کے لیے کھانے پینے کا سامان کچن میں رکھا۔ہم بر آمدے میں کرسیوں پہ بیٹھ گئے۔گلگت اور یہاں کے موسم ،وادی نلترکے فطری حسن اور سفر کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔
برچہ صاحب نے جیب سے ایک کاغذ نکالا۔وہاں موجود عملے میں ایک فاریسٹ گارڈ ،چچا مست علی تھا ۔ان کا تعلق نلتر پائین سے تھا۔دوسرا ریسٹ ہاؤس کا نگران ،شمشادتھا۔اس کا تعلق نلتر بالا سے ہی تھا۔برچہ صاحب ان دونوں سے نلتر کے حالات،وہاں کی آبادی،وہاں صحت اور تعلیم کی سہولتوں اور جنگلی حیات کے بارے میں پوچھنے لگا۔وہ ایک قلمکار ہیں ۔Anthropology(علم البشر) اورSociologyکی فہم رکھتے ہیں۔گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اپنے علم میں مزید اضافہ کے لیے وہ اس طرح کے سوالات پوچھ رہے تھے۔اس بہانے ہم بھی مستفید ہو رہے تھے۔
ان کے بہ قول ،نلتر بالا میں آبادی تین ہزار سے زیاد ہ ہے۔زیادہ تر لوگ گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔مال مویشی پالتے ہیں،کھیتی باڑی کرتے ہیں،زیادہ تر آلو کاشت کرتے ہیں۔بہت سے لوگ گلگت اور آس پاس کے علاقوں میں ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں۔لڑکو ں کے لیے ہائی سکول اور لڑکیوں کے لیے مڈل سکو ل تک تعلیم کی سہولت موجود ہے۔انہوں نے بتایا کہ تیس کے قریب یہاں کی لڑکیاں قراقرم یونیورسٹی میں پڑھتی بھی ہیں ۔
وہاں زندگی اتنی آسان نہیں تھی۔سردیوں میں برف کی وجہ سے پانچ مہینوں تک باقی دنیا سے وہ کٹ جاتے تھے۔ہیلی کاپٹروں کے ذریعے محدود سی آمد و رفت رہتی تھی۔وہا ں skiingکے بین الاقوامی مقابلے ہوتے ہیں ۔اسی بہانے نلتر کے لوگوں کو کسی ناگہانی صورت حال میں باقی دنیا سے کچھ مدد مل جاتی تھی۔
بڑی دیر بعد دکھی صاحب بولے۔’’ظہر کا وقت نکلتا جا رہا ہے۔نماز پڑ ھ کے تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں ،پھر شام کو باہر نکل کر علاقے کی سیر کریں گے۔‘‘
یہ اچھی تجویز تھی۔نرسری کے اندر ہی اونچے اونچے درختوں کے نیچے گھنی گھاس میں سے ایک نالی کی شکل میں پانی گزررہا تھا۔پانی گدلا تھا،مگر خوب ٹھنڈا….
ہم نے نماز پڑھی، پھر کمروں میں آگئے۔دکھی صاحب اور برچہ صاحب ایک کمرے میں اور میں دوسرے کمرے میں۔
پلنگ کے ساتھ ہی کمرے کی کھڑکی تھی۔باہر چیڑ اور صنوبر کے درختوں کی شاخیں ہلکی ہلکی ہوا سے جھوم رہی تھیں۔پلنگ پہ لیٹتے ہی ان شاخوں سے سکون اور نیند کی پریاں نیچے اترنے لگیں اور مجھے گُدگدانے لگیں۔بغیر پنکھے کے اس کمرے میں ذرا ہی دیر بعد میں سو گیا۔
جب آنکھ کھلی تو برچہ صاحب مجھے آوازیں دے رہے تھے۔میرا نام لے لے کر مجھے جگا رہے تھے۔میں اٹھ بیٹھا ۔ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔منہ ہاتھ دھو کر کمرے سے باہر آیا۔دکھی صاحب اور برچہ صاحب تیار بیٹھے تھے۔وہ مجھ سے پہلے جاگے تھے۔میں ایسی گہری اور میٹھی نیند سویا تھاکہ ان کے جگانے پر ہی ہوش میں آیا تھا۔