لازمی نہیں کہ جو لوگ پردہ کرتے ہیں وہ حسن وخوبصورتی کا شاہکار ہو۔ بسا اوقات انسان اپنی بدصورتی یا چہرے میں موجود بدنما داغوں کو چھپانے کے لئےپردے کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن انسان کے لئے ارسطو نے سماجی حیوان کی اصطلاح جو استعمال کی ہے آخر کب تک پردے کے سہارے چہرے کی بدصورتی کو چھپاسکتے ہیں۔ بالآخر کسی نہ کسی صورت تو پردے کو سرکنا ہی ہوتا ہے چاہے باد نسیم ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو۔ اور آخر کار چہرے میں موجود نقائص کو تو عیاں ہی ہونا ہوتا ہے۔ یہی کچھ سماج پر بھی صادق آتی ہے۔ انسان چاہے ظاہری چال ڈھال سے اپنی اصلیت کو چھپانے کی لاکھ مرتبہ کوشش کریں، زیادہ عرصے تک لوگوں کو دھوکے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ آخر کار کہیں نہ کہیں ان لوگوں سے ایسے افعال سرزد ہوجاتے ہیں جس سے ان کا پہنا ہوا لبادہ فاش ہوہی جاتا ہے۔ چند روز ہوئے شغور سے تعلق رکھنے والے شہزادہ حیدر المک صاحب کی ایماء پر جب وادی کریم آباد کے چوبیس افراد کے خلاف سنگین مقدمات درج کرکے انہیں پابند سلاسل کیا گیا، تو سوشل میڈیا میں بڑے ہی روشن خیال اور اعتدال پسند نظر آنے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی اصلیت کھل کر سامنے آئی جب انہوں نے صرف اس بنیاد پر شہزادہ موصوف کی حمایت اور عوام کو مجرم ٹہرانے کی کوشش کی۔ کیونکہ شہزادہ صاحب کا تعلق ان کے خاندان سے ہیں۔
ان صاحبان کے اقدار اور اصول پرستی اس وقت تشت ازبام ہوگئی جب انہوں نے ایک خالص سماجی ایشو کو سیاسی رنگ دے کر پسے ہوئے عوام پر تشدد کو جائز قرار دیتے رہے۔ اور ہنوذ یہ پروپیگنڈہ جاری ہے کہ چند مفاد پرست عناصر اپنی سیاسی مقاصد کے لئے ڈھونڈورہ پیٹ رہے ہیں ورنہ اس ایشو کو مل بیٹھ کر بھی حل کیا جاسکتا تھا۔
اس سلسلے کی پہلی کڑی دبئی میں مقیم سب ڈویژن مستوج سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک محترم دوست اور اٹھتے بیٹھتے شہزادہ فیملی کی تعریفیں کرتے نہ تھکنے والے کی جانب سے سامنے آیا۔ جب انہوں نے اس پورے ایشو کو سمجھنے کی بجائے سوشل میڈیا میں افواہ پھیلا دی کہ یہ سارا کچھ ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ کی سیاست کا کمال ہے جو علاقے میں مذہبی انتشار پھیلا کر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد شہزادہ فیملی کے دوستوں نے اس عمل کو پاکستان تحریک انصاف کے مقامی قیادت کی کارستانی قرار دے کر اسے اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کی کوشش قرار دیا۔ یہ پروپیگنڈہ اب تک جاری ہے۔ لیکن اس پروپیگنڈے کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور لوگ سمجھنے لگے کہ ظلم کے لئے کس طرح جواز تراشا جارہاہے۔
سوال یہ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر دور میں کمزور ہی غلطیاں کرے اور طاقتور ہمیشہ سچ پر ہو۔ ریاستی دور کے بردہ فروشی ہو یا حالیہ زمانوں میں طاقت ورطبقے کی جانب سے کمزوروں کو کچلنے کی کوشش۔ ہر وقت کمزور ہی کو کیوں گمراہ اور قصوار ٹہرایا جاتا ہے؟
کریم آباد میں پیش آنے والے واقعے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جو لوگ دکھاوے کے لئے خود کوروشن خیال اور اعتدال پسند کے طورپر پیش کر رہے تھے وہ اندر سے کتنے مفاد پرست ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر غلاف پہن کر عوام کی ہمدردی سمیٹ رہے ہیں۔ اور اپنے مفادات سے ہٹ کر سوچنے کی زحمت کبھی گورا نہیں کرتے۔
جہاں تک باہمی مشاورت سے اس مسئلے کو حل کرنے کا سوال ہے تو مشاورت کے سارے دروازے شہزادہ حیدر الملک صاحب نے اس وقت بند کردئیے۔ جب سوسوم کلسٹر میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سارے کریم آباد کے جانے پہچانے افراد کے خلاف انتظامیہ اور پولیس سے ساز باز کرکے سنگین مقدمات درج کر کے انہیں پابند سلاسل کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیل کی یاترا کرنے والوں کا تعلق کسی ایک پارٹی سے نہیں بلکہ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نامور سیاسی قیادت کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ پھر بھی عوامی نمائندوں کے خلاف پروپیگنڈہ جاری ہے
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button