شعر و ادب

روداد تعزیتی اجلاس

 جمشید دکھیؔ ، فاروق قیصرؔ

نامور مورّخ، محقق،علمی شخصیت، ایڈمنسٹریٹر اور استاد الاساتذہ جناب پروفیسر عثمان علی کی وفات کے سلسلے میں ایک تعزیتی اجلاس حلقہ ارباب ذوق(حاذ) کے زیر اہتمام30جولائی بروز اتوار کو ریوریا ہوٹل میں منعقد ہوا۔جس میں شعراء کرام، نثر نگاروں اور صحافیوں کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس تعزیتی اجلاس کے میر محفل وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال اور مہمان خصوصی سابق نگران وزیر اعلیٰ اور معروف معیشت دان جناب شیر جہاں میر صاحب تھے۔ اجلاس میں موصوف کی علمی، ادبی اور سماجی خدمات پر شعراء کرام اور قلمکاروں نے منظوم و منثور خراج عقیدت پیش کیا۔

محفل کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔جن شعراء کرام نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا ان میں عبدالخالق تاج ، خوشی محمد طارق، جمشید خان دکھی، انور جمیل، عبدالحفیظ شاکر، غلام عباس نسیم، یونس سروش، اسماعیل ناشاد، عبدالبشیر بشر، محمد عیسیٰ حلیم، اشتیاق احمد یاد، غلام عباس صابر اور فاروق قیصر شامل تھے۔معروف قلم کار احمد سلیم سلیمی، امیر جان حقانی اور یونس سروش نے عثمان صاحب کی علمی و ادبی خدمات پر مقالے پیش کیا۔

معروف صحافی جناب اسرار الدین اسرار نے اس موقع پراپنے خطاب میں کہا کہ موصوف زبردست ہیومن اکٹویٹسٹ تھے۔ جو کام عثمان صاحب نے تن تنہا کیا ہے وہ ایک ادارہ بھی نہیں کرسکتا۔

جناب امیر جان حقانی کا کہنا تھا کہ موصوف گلگت بلتستان کی ستر سالہ تاریخ میں اکلوتا محقق تھا جس نے ہمیشہ اپنے قلم کو متحرک رکھا اور عثمان صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے کئی تجاویز پیش کئے۔

مشہور نثر نگار احمد سلیم سلیمی نے اپنے خطاب میں استاد کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ موصوف معلم ہی نہیں بلکہ ایک کہنہ مشق لکھاری، کثیرالتصانیف محقق اور ایک بہترین نقاد تھے۔

جناب حاجی آدم شاہ سابق ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ استاد محترم قرآنی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے انھوں نے بیشمار تاریخی کتابیں لکھیں۔مگر آج تک کسی قبیلے اور فرقے کے خلاف نہیں لکھا بلکہ اس راستے میں انھوں نے درمیانی راستہ اختیار کیا۔

ریڈیو پاکستان گلگت کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور معروف صحافی شیر محمد نے کہا کہ پروفیسر عثمان صاحب حلیم طبیعت کے مالک تھے۔ ان کا مشن علاقے سے نفرتوں کا خاتمہ کرنا تھا۔آ پ نے اس خوبصورت محفل کے انعقاد پر حاذ کو خراج عقیدت پیش کیا ۔

روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹراور معروف صحافی جناب ایمان شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ عثمان صاحب سے ہر شخص کو عقیدت اور محبت تھی ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں علم و آگہی کی ترقی و ترویج کیلئے اعتدال پسندی اور امن و آشتی کے فروغ کیلئے تمام مقتدر حضرات حلقہ ارباب ذوق کے ہاتھ مضبوط کریں موجودہ حکومت نے حاذ کو ابھی تک وہ سپورٹ نہیں کیا ہے جو اس کا حق ہے۔انھوں نے کہا کہ پروفیسر مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وزیر تعمیرات واٹر چینلز کی صفائی کریں کیونکہ پروفیسر عثمان صاحب بڑے صفائی پسند انسان تھے۔

معروف قلم کار جناب شیر باز علی برچہ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ استاد نے تاریخ کو ایک نئی جہت دی۔شجروں پر بات کرنا ایک زہریلاشعبہ ہے مگر استاد نے تاریخ لکھتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کیا ہے۔ انھوں نے تجویز دی کہ استاد کی کتابوں کی کلیات بنا کر حکومتی سطح پر پبلش کیا جائے۔

حلقہ ارباب ذوق کے سینئر نائب صدر جناب عبدالخالق تاج صاحب نے کہا کہ کالج آف ایجوکیشن کی بنیاد عثمان صاحب نے رکھی جو موصوف کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موصوف ہمیشہ کتابوں کے حصارمیں رہتے تھے اور گلگت بلتستان کے ادبی آسمان کا ستارہ تھے۔تاج صاحب نے آخر میں اپنی فیملی اور عثمان صاحب کے صاحبزادوں کی طرف سے تمام شرکاء اور حاذ کا شکریہ ادا کیااور مرحوم کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور رونے لگے ۔

حاذ کے جنرل سیکریٹری جمشید خان دکھی نے اس دوران موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کالج آج ایجوکیشن جس کے بانی بھی پروفیسر عثمان مرحوم تھے، کو مرحوم کے نام سے منسوب کیا جائے۔

میر محفل اور تعمیراتِ عامہ کے وزیر ڈاکٹر محمد اقبال نے اس موقع پر خطاب میں حلقہ ارباب ذوق حاذ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ حلقہ ارباب ذوق نے گلگت بلتستان میں بدترین حالات میں بہترین کام کیا ہے اور یہ میرے پسندیدہ لوگ ہیں۔عثمان صاحب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کے آرٹیکلز بڑے دانشمندانہ اور پرتاثیر ہوتے ہیں۔ انھوں نے حاذ کی جانب سے پیش کی گئی تجویزکی حمایت کرتے ہوئے کالج آف ایجوکیشن کو عثمان صاحب کے نام سے منسوب کرنے کے حوالے سے متعلقہ محکموں سے مل کر اس کو حتمی شکل دینے کا اعلان بھی کیا۔

آخر میں مہمان خصوصی اور معروف معیشیت دان اور سابق نگران وزیر اعلیٰ جناب شیر جہاں میر نے اپنے خیالات کا اظہارر کرتے ہوئے کہا کہ عثمان صاحب نہ صرف معلم تھے بلکہ ایک مورخ، محقق، امن و آشتی کے پیامبر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر بھی تھے وہ ہمیشہ دلائل سے اپنی بات منواتے تھے اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔حلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اندھیروں میں شمعیں روشن کیں۔اللہ انہیں مزید اسطرح کے کام کرنے کی توفیق دے۔یاد رہے کہ جناب شیر جہاں میر نے بحیثیت جنرل منیجر قراقرم کو آپریٹیو بینک میں معاشی اور سماجی ترقی کے علاوہ ہمیشہ ادبی اورعلمی حلقوں کی مالی پذیرائی بھی کی جس کی وجہ سے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور ادبی اور علمی اداروں سے وابستہ لوگ آج بھی انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

موصوف کے سبکدوش ہونے کے بعد ادب کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔لہٰذا اس ادارے کے نئے سربراہ سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیشرو جناب شیر جہاں میر صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادب و ثقافت کے فروغ کیلئے اپنے ادارے کی جانب سے کردار ادا کرکے اپنے ادارے کے روشن ماضی کو برقرار رکھے۔

محفل کے آخر میں مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کیلئے دعا کی گئی۔تناول ماحضر کے بعد سرشام یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔فاروق قیصر کے ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہتے ہیں:

قلم قرطاس پہ قربان تھا وہ

ادب کے شہر کا سلطان تھا وہ

قلم سے روشنی پھیلائی جس نے

نہیں کوئی نہیں عثمان تھا وہ

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button