کالمز

کیاتحریک انصاف کسی مخصوص سازشی گروہ کا حصہ ہے؟

 عرصہء دراز سے میرے ذہن میں پاکستان تحریک انصاف کی قیاد ت کے بارے میں گونا گو خیالات و سوالات جنم لیتے رہے مگر کئی وجوہات کی بنا پر اپنے خیالات و سوالات کو دبائے رکھا۔عام محفل سے لیکر خاص فورم میں نہایت محتاط انداز میں تحریک انصاف پر تنقید کرتا آیا۔ کبھی بھی کھل کر کسی موقعے پر پی۔ٹی۔آئی پر تنقد نہیں کی ۔لیکن آخر کب تک ۔کوشش ہے کہ اس موضوع کی حساسیت کے لحاظ سے حدود و قیود کا خیال رکھا جائے۔عمران خان صاحب کو ہم بچپن سے جانتے ہیں۔عمران خان کو ہم بچپن سے لیکر آج تک دیکھتے اور سنتے آئے ہیں۔عمران خان صاحب کے نام سے کون واقف نہیں چاہے اندرون ملک ہو یا بیرون ملک سبھی ان کے نام سے واقف اور دلدادہ ہیں۔خان اپنی الگ پہچان اور شناخت رکھتے ہیں ۔ہم نے عمران خان کو بحیثیت کھلاڑی کھیل کے میدان میں کھیلتے اور میڈیا میں ایک اسپورٹس لیجنڈ کے طور پر دیکھا ہے ۔پاکستان کے عوام بحیثیت کھلاڑی ان کے مداح ہیں ناکہ سیاست کی وجہ سے کیونکہ پہلے وہ کھلاڑی ہیں سیا ست میں تو وہ بعد میں آئے۔جب عمران خان نے کھیل میں نام اور شہرت کمانے کے بعد سیاست میں قدم رکھاتوآج کے مقابلے میں شروع میں لوگوں کی تعداد نہایت کم تھی۔پھر آہستہ آہستہ ان کے پارٹی میں لوگ آتے گئے یوں ان کا قافلہ بنتا گیا۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔۔

پہر حال لاہور کے جلسے میں تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں تاریخ رقم کردی۔یہ دن پی۔ٹی۔آئی کی محنت اور کاوشوں کے رنگ لانے کا دن تھا۔یہ جلسہ اس لیے اہم تھا کیونکہ اس جلسے کی بدولت پی۔ٹی ۔آئی سیاست کی بلندیوں تک جا پہنچی۔جس کی وجہ سے پی۔ٹی۔آئی ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کہلانے کے لائق ہوئی ۔اس جلسے کے بعد مختلف پارٹیوں سے لوگ پی۔ٹی۔آ؛ئی میں جوق در جوق آنے لگے ۔کچھ تو ذاتی مفاد کی خاطر آئے تو ان میں سے بعضٰ دل میں نئے پاکستان کا خواب لیکر۔مگر اچانک پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی عروج کی وجہ سے ہمارے خان صاحب کا رویہ پہلے جیسا نا رہا۔شاہ محمود قریشی ،جہانگیر ترین،حامد خان ،شیریں مزاری ،عارف علوی اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کی کے ساتھ ملتے ہی خان صاحب کے تیمور بھی بدل گئے۔عجیب و غریب قسم کے فیصلے پی۔ٹی ۔آئی کی قیادت کی جانب سے آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔الغرض پاکستان تحریک انصاف وہ پہلی والی تحریک انصاف اب نہیں رہی ۔اور پی ۔ٹی۔آئی کے ساتھ منسلک پارٹی کے بانی ارکان جنہوں نے پی۔ٹی۔آئی کی بنیاد رکھی تھی ۔ ایک ایک ہوکر پارٹی کو الوداع کہہ کر چلے گئے۔ان میں سے ایک نام اکبر ایس بابر صاحب کا بھی ہے جنہوں نے خان صاحب کے ساتھ ملکر تحریک انصاف کی داغ بیل دالی تھی۔جس کے بعد حال ہی میںاکبر ایس بابر صاحب نے سپریم کورٹ میں عمران خان اور ان کے پارٹی کے خلاف ایک کیس دائر کی ہے جس کی بیناد بیرون ملک فنڈز میں خرد برد اور پارٹی کے اندر کرپشن ہے۔جیسا کہ اس کالم کے شروع میں میں نے عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف کے حوالے سے بغور مشاہدے اور تجزیہ کے بنیاد پر خیالات و سوالات میرے ذہن میں ابھرتے رہے۔میں نے چپ سادلی تھی خاموشی کو ہی بہتر جاناتھا۔لیکن آج جب میں نے ناز بلوچ کی پھر عائشہ گلالئی کی تحریک انصاف سے علحیدگی کے بعد پرس کانفرس کا تجزیہ کرتا ہوں تو میرے ذہن میں جو خیالات و تاثرات تھے وہ کسی حد تک صحیح نظر آرہے ہیں۔

عائشہ گلالئی تحریک انصاف کی ایک اہم راہنما تھی جو کہ تحریک انصاف کی جلسوں اور اہم میٹنگز میں پیش پیش رہتی تھی۔لیکن اچانک ان کی جانب سے دھماکہ خیز پرس کانفرس کسی بھی سیاسی طوفان سے کم نہیں خصوصا عمران خان صاحب کے لیے اورپی۔ٹی۔آئی سے وابستہ تمام کارکنان کے لیے۔عائشہ گلالئی کی باتوں میں کس حد تک صداقت ہے یا نہیںیہ ہمارا کام نہیں بلکہ یہ فیصلہ ابھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرنا ہے کیونکہ عمران خان کے خلاف بھی کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔میں بحیثیت ایک صحافی اپنی ذاتی رائے اور تجزیہ دے رہا ہوں۔ہمارا کام حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کرنا ہے نا کہ فیصلہ۔۔۔

اسی ذیل میں کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک معروف صحافی نے بھی تحریک انصاف کے خفیہ اور پوشیدہ ایجنڈے سے پردہ اٹھایا ہے۔میں یہاں اس صحافی کانام لینا نہیں چاہتاکیونکہ تحریک انصاف کی نظر میں وہ ایک لفافہ صحافی ہے۔ ایک رپورٹ میں انہوں نے تحریک انصاف کے عزائم سے پردہ چاک کیا ہے۔تحریک انصاف کے اندر ایک مافیاجو ک خفیہ اور پوشیدہ ہے کا تذکرہ کرتے ہوئے ان صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر ایک خاص ایجنڈے اور مشن پر کام جاری ہے۔تحریک انصاف کو اپنے مشن کی ابیاری کے لیے سب سے زیادہ فنڈز کونسا ملک دے رہا ہے۔وہ کون لوگ ہیں جن کی مفادات کا خیال رکھنے کو کہا گیا ہے۔مزید ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو اس کے اردگرد موجود چند لوگوں نے ہائی چیک کر لیا ہے۔جن میں فردوس عاشق اعوان ،علی زیدی ،شرین مزاری،عارف علوی وغیرہ شامل ہیں۔اور مزید سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف قومی سلامتی کے امور میں بھی مداخلت کررہی ہے۔اور پاکستان کے مفادات کی راہ حائل ہے۔

عائشہ گلالئی کی پرس کانفرس کے بعد جب میں نے ان صحافی صاحب کی رپورٹ پر نظر ڈوڑائی تو گلالئی اور صحافی کی باتوں میں کامی مماثلت پائی۔بحثیت صحافی چند باتوں کا میں خود بھی معترف ہوں کہ تحریک انصاف نے ہمارے ملکی خارجہ پالیسی پر اپنی غلط اثر ورسوخ استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں عائشہ گلالئی نے اپنی پرس کانفرنس میں شیریں مزاری کا حوالہ دیتے ہوئے اسی جانب اشارہ دیا ہے۔

آخر میں اس موضوع کو سمیٹنا چاہتا ہوں تحریک انصاف کے اندر خلفشار اور بے ضابظگیاں پیدا ہو چکی ہیں۔جن کی اصل وجہ تحریک انصاف کا ممختلف نظریات کے حامل افراد اور گروپز میں منقسم ہونا ہے۔پارٹی کے اندر مختلف خیالات و نظریات کے حامل لوگ گھس گئے ہیں جو کہ اپنے اپنے نظریات اور ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے تحریک انصاف کو استعمال کر رہے ہیں۔اور ذاتی نظریات کی نشر و اشاعت کے لیے پارٹی کو استعمال کررہے ہیں۔جس کی خاطر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل بھی جاری ہے۔اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان تماشائی بنے ہوئے ہیں۔پارٹی کے ساتھ وابستہ پرانے ساتھی خان صاحب اور انکی پارٹی کو خیر باد کہہ کر جا چکے ہیں ۔ان کے تحفظات دور کرکے انہیں واپس پارٹی میں لانے والا کوئی نہیں۔اور مفاد پرست اور غیر ملکی ایجنڈے کی پرچار کرنے والوں کو اس سے خوب موقع ہاتھ آیا ہے جو کہ نہیں چاہتے کہ پرانے لوگ واپس آجائیں۔کرپٹ عیاش اور غنڈے لوٹیروں نے پارٹی پر قبضہ جمالیا ہے ۔اور توبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ تحریک انصاف کے اہم رہنما ؤں اور پارٹی کے بارے میں یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ تحریک انصاف ملک میں جاری ایک مخصوص لابنگ گروپ کا حصہ بن چکی ہے اور یہ لابنگ گروپ پاکستان کے بجائے پڑوسی ملک کی مفادات کے لیے کام کررہا ہے۔کیا عمران خان صاحب اپنے پرانے ساتھیوں کے تحفظات دورنہیں کرسکتے اور انہیں منا کر واپس پارٹی کا حصہ نہیں بنائیں گے۔اور پارٹی کے اندر موجود گند کو صاف کرکے پھر سے تحریک انصاف کی کھوئی ہوئی پہچان واپس دلائے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button