کالمز

اس سے قبل کہ پانی سر سے گزر جائے

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی اور لاہور اپنے آبائی شہر روانگی کی ریلی اخر کار ختم ہوگئی پانچ گھنٹے کی مسافت میاں محمد نواز شریف نے چار دن میں مکمل کر لی اور سابق وزیر اعظم کو اسلام آباد سے لاہور روانہ کرنے کے لئے گلگت بلتستان کے وزیر اعلی سمیت وزراء اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی اسلام آباد پہنچ کر اپنے محبوب قائد کو لاہور روانہ کیا کچھ اسلام آباد سے واپس ہوئے جی بی سے ان کے استقبال کے لئے جانے والے کارکنوں کی بڑی تعداد اپنے قائد کی ریلی میں لاہور پہنچ گئے

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد خاقان عباسی نے بحیثیت وزیر اعظم اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے اور نئی کابینہ کی فوج ظفر موج نے بھی حلف اٹھالیا ہے چار درجن کے قریب وزیر لئے گئے ہیں ان کی کارکردگی کا پتہ تو آئندہ آنے والے دنوں میں چل جائے گا چونکہ حلف لینے کے بعد ان میں سے زیادہ تر وزراء کو دفتروں میں نہیں دیکھا گیا اور یہ وزراء بھی میاں محمد نواز شریف کو لاہور چھوڑنے ان کی ریلی میں شامل تھے بتایا جارہا ہے کہ وزراء کی ریلی میں شرکت کی وجہ سے ان کے اسلام آباد کے سرکاری دفتروں میں بھی ہو کا عالم تھا اب چونکہ میاں محمد نواز شریف اپنے آبائی شہر پہنچ گئے ہیں اور وزراء کی بھی واپسی شروع ہوگئی ہے اور گلگت بلتستان کے صوبائی وزراء بھی آئندہ ایک دو روز میں گلگت پہنچ جائینگے جس کی بعد اسلام آباد سمیت گلگت بلتستان میں بھی سرکاری امور حسب سابق چلتارہیگا اور عوام کے مسائل بھی شاید حل ہوناشروع ہو۔

اب چونکہ سابق وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف نااہل ہوگئے ہیں اس لئے گلگت بلتستان کے عوام بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ نئے وزیر اعظم گلگت بلتستان پر کوئی خاص توجہ دینگے یا نہیں چونکہ بتایا جارہا تھا کہ سابق وزیر اعظم 20جولائی کو گلگت بلتستان آکر گلگت سکردو روڈ کا افتتاح کرنا تھا مگر مصروفیات کی وجہ سے نہ آسکے حالانکہ جس دن ان کی گلگت آمد متوقع تھی اس دن وہ بالائی دیر میں ایک جلسہ سے خطاب اور لواری ٹنل افتتاح کر رہے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دن میاں محمد نواز شریف کی اتنی کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی البتہ کیوں نہیں آئے اس کا جواب تو ہمارے گلگت بلتستان کے حکمران ہی دے سکتے ہیں گلگت بلتستان کے ایک صوبائی وزیرنے ایک اخباری بیان میں یہاں تک کہا کہ جس دن میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اس دن انھوں نے گلگت بلتستان کو صوبے کا اعلان کرنا تھا ان کی اس اخباری بیان پر سوشل میڈیا میں لوگوں نے ان کی اچھی خاصی خبر لی ہے چونکہ اب ہمارے ملک کا نیا وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی نے اقتدار سنبھالا ہے اگر سابق وزیر اعظم اعلان نہ کر سکا تو کم از کم گلگت بلتستان کے حکمران موجودہ وزیر اعظم سے ہی صوبے کا اعلان کرا دیں مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا چونکہ مسلم لیگ کی وفاق میں حکومت کو چار سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے اب ان کے پاس سات سے آٹھ مہینے رہ گئے ہیں ان آٹھ مہینوں میں وزیر اعظم سمیت وفاقی وزر اء آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہونگے اور زیادہ تر وقت اپنے حلقوں کو دینگے۔

جبکہ اخباری اطلاعات کے مطابق سابق وزیر اعظم کی قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی سیٹ پر میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز الیکشن لڑیں گی ایسے میں بھی ہمارے وفاقی وزراء اور گلگت بلتستان کے صوبائی وزراء لاہور میں محترمہ کلثوم نواز کے الیکشن مہم چلانے میں مصروف ہونگے اور اس طرح سات سے آٹھ مہینے کا جو حکومت کے پاس ٹائم ہے وہ ختم ہوجائیگا اب چونکہ گلگت بلتستان کے عوام نے بہت زیادہ توقعات پر پاکستان مسلم لیگ کو گلگت بلتستان میں کامیاب کرایا تھااور اس وقت بھی حکمران جماعت نے عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے نام پر ووٹ لئے تھے مگر دیکھا جائے تو اب تک حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے گلگت بلتستان میں جب سے مسلم لیگ کی حکومت بنی ہے اس دن سے لیکر آج تک گلگت سکردو روڈ کے ٹینڈر ہونے اور وزیراعظم کی طرف سے افتتاح کرنے کے ایک درجن سے زائد اعلانات ہوئے مگر ہر دفعہ وزیر اعظم کی مصروفیات کا بہانہ بناکر روڈ کی افتتاح تک نہیں ہوئی دوسری طرف مظفر آباد سے استور تک شاہراہ کی تعمیر کے حوالے سے بھی بلند بانگ دعوے کئے گئے مگر یہ بھی تاحال ایک سیاسی اعلان ہی ثابت ہو ا۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے گلگت میں سینئر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ دسمبر2016سے گلگت گاہکوچ روڈ کی تعمیر کا کام شروع ہوگا اور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت ترقیاتی بجٹ سے اس روڈ کی تعمیر پر ڈیڑہ ارب روپے خرچ کرئیگی مگر وزیر اعلی کے اس اعلان پر تاحال کوئی عملدارامد نہیں ہوا روڈ کی تعمیر تو دور کی بات ہے سابق چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سکندر سلطان راجہ نے گاہکوچ سے غذر کی حدود بیارچی تک سڑک کی توسعی منصوبے کے لئے 20کروڑ روپے دیئے تھے جس پر بڑی تیزی کے ساتھ اس شاہراہ کی تعمیر کاکام شروع ہوامگر صرف دس کلومیٹر سڑک کی تعمیر کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے اس شاہراہ کی تعمیر کا کام بھی بند کرادی شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ غذر سے چونکہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی تھی اس کی سزایہاں کے عوام کو دی ہو مگر (ن)لیگ کی صوبائی قیادت کو یہ بات نوٹ کرنی ہوگی کہ غذر کی دو سیٹوں پر مسلم لیگ کے امیدوار چندووٹوں سے ہار گئے تھے اب سیاست میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے مگر امیدوار چند ووٹوں سے ہار گئے تو اس کی سزا پورے غذر کو دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں چونکہ یہ مسلم لیگ (ن) کی کوئی آخری الیکشن نہیں تھے انھوں نے تین سال بعد پھر عوام کے پاس جانا ہے اگر عوام سے ووٹ لینا ہے تو مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کو اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنا ہوگااگر ایسا نہیں کیا گیا تو آنے والے گلگت بلتستان کے صوبائی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے پاس ووٹ لینے کے لئے کوئی منشور نہیں ہوگا اور عوام ان کو ان کے پچھلے الیکشن کے وعدے یاد دلا دینگے ایسے میں اب بھی وقت ہے کہ گلگت بلتستان کے حکمران اسلام آباد میں ڈیرے ڈالنے کی بجائے گلگت بلتستان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں اس وقت بلتستان کے عوام کا سب سے اہم مطالبہ گلگت سکردو روڈ کی تعمیر ہے جبکہ استور کے عوام استور مظفر آباد روڈ کا اور غذر کے عوام گلگت چترال روڈ کی تعمیر کا مطالبہ کر رہے ہیں اگر خالی وعدوں سے ہی حکمرانوں نے اپنا پانچ سالہ مدت پوری کی تو آئندہ آنے والے الیکشن میں جس طرح عوام نے سابقہ الیکشن میں پی پی کو مسترد کر دیا تھا آئندہ الیکشن میں پی پی والی حالت مسلم لیگ (ن) کی ہونے کا قوی امکان ہے مگر حکمرانوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ خطے کے عوام سے کئے گئے وعدے پورا کریں ورنہ جب پانی سر گزر جائیگا تو اس کے بعد افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button