کالمز

گلگت بلتستان کی محرومیاں اور وفاق کے وعدے

تحریر: فواد صادق
حیسن آباد سکردو

 سابق وزیر اعظم نواز شریف  نے اپنی جی ٹی روڈ یاترا مکمل کرنے کے بعد عین اسی طرح گلگت بلتستان کے باسیوں کویاد کیا ہے جیسے کہ وہ ماضی میں مشکل کی گھڑی میں ہی اس صوبے کی طرف دیکھتے ہوتے ہیں انہوں نے لاہور میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جی ٹی روڈ ریلی میں شمولیت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لئے مسلم لیگ نون کی حکومت تمام ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ ان کے اس اعلان کو پسے ہوئے  اور مشکلات میں گھرے گلگت بلتستان کے عوام قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ شک کی نگاہ سے دیکھنے کا بھی حق رکھتےہیں کہ جب سےمسلم لیگ کی حکومت آئی ہے  گلگت بلتستان کے مسائل حل کرنے کے محض وعدے ہوئے ہیں عملی اقدامات کا فقدان دکھائی دیا ہے۔ گلگت سکرود روڈ کو دیکھ لیں یا استور روڈ یا پھرغذر ،یاسین ، صوبے میں آٹے کی قلت کے سامنے رکھیں یا بڑھتی ہوئی بے روزگاری صحت کے حوالے سے غور کریں یا سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار، ہر طرف وعدے ہی ہیں عمل نہیں

حکومت کا گلگت بلتستان کو نظر انداز کرنے کا یہ عالم ہے کہ حال ہی  میں چند ماہ پہلے ہونے والی مردم شماری میں گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کو ہی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مردم شماری کے فارم پر جو نو زبانیں درج ہیں ان میں گلگت بلتستان کی کوئی زبان شامل نہیں ہے۔ اس علاقے کی ثقافت کس قدر مالامال ہے اور وہاں کے باسی اپنی زبانیں کو نظرانداز کرنے کے بارے میں کیا کیا محرومی کا شکار نہیں ہوئے ہیں؟

 اب سی پیک میں گلگت بلتستان کے حصے کو ہی دیکھ لیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چالیس ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والا منصوبہ سی پیک جو گوادر میں جاکراختتام پزیر ہوگا۔ لیکن جہاں سے اس منصوبے کا آغاز ہورہا ہے اس صوبے کو سی پیک کے ثمرات سے یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ سی پیک روٹ کا 439 کلو میٹر کا حصہ گلگت بلتستان میں سے گزرتا ہے لیکن  اس منصوبے کے تحت پنجاب میں 52 ترقیاتی منصوبے جبکہ سندھ میں 21 کے پی کے میں بھی 21 جبکہ 8 منصوبے بلوچستان کے حصے میں آئے ہیں۔ اب گلگت چترال روڈ کو سی پیک کے تحت تعمیر کرنے کا اعلان تو کیا جارہا ہے۔ لیکن زمینی  اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو نہ تو چین کو اس سڑک کو تعمیر میں کوئی کو مفاد دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی حکومت کی اس میں کوئی ترجیح محسوس ہورہی ہے

بھارت سی پیک منصوبے سے خائف ہوکر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان اورگلگت بلتستان میں امن و آمان کی صورتحال خراب کرنے کے پروگرام ترتیب دے رہا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے کے عوام نے پاکستان کے دفاع کے لئے وہ سب کچھ کیا جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور بھارت کو اب بھی اپنے ناپاک مںصوبوں میں منہ کی کھانی پڑے گی۔ لیکن گلگت بلتسان کے غیورعوام کو اسلام آباد سے ایک ہی شکوہ ہے کہ اس قدر خدمات کے باوجود چائنا پاکستان اقتصادی رہداری میں گلگت بلتستان کو نظرانداز کرنا پورے خطے کے پس ماندہ اور پسے ہوئے طبقے کے ساتھ زیادتی ہے حکومت  کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کے برابر کے حقوق دیکر عوامی محرومیوں کا ازلہ کیا جائے ۔

دوسری جانب اب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے دعووں کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ عملی طور طور پرکام کب شروع ہوتا۔ انکے مطابق تو پی ایس ڈی پی میں اس صوبے کے منصوبے اڑھائی ارب سے بڑھا کر 100 ارب روپے کردیے گئے ہیں۔ لیکن اب تک گلگت بلتستان کو نیشنل گرڈ کے ساتھ تو منسلک نہ کیا جاسکا۔ گلگت سکردو اور گلگت استور روڈ کے منصوبے تمام دعووں کے باوجود اسی طرح پڑے ہیں

صحت کی اصلاحات کے اعلان کے باوجود سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار یہ ہے کہ غریب لوگوں کو علاج معالجے کے لئے کے پی کے اور پنجاب کا رخ کرنا پڑتا ہے

اسلام آباد اگر گلگت بلتستان میں ذرعی شعبے میں بہتری لائے تو کم ازکم صوبے کو کم خوراک کے معاملے خودکفیل بنایا جاسکتا ہے کہا تو یہ جارہا ہے کہ 14 ارب کی لاگت سے ایفاد منصوبے کے تحت 8 لاکھ کنال بنجر زمین کو آباد کیا جائے گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے صوبے میں ریجنل گرڈ کے قیام کیلئے پانچ بلین کی رقم فراہم کی ہے ریجنل گرڈ کے قیام اور نیشنل گرڈ سے گلگت بلتستان کو منسلک کرنے کے بعد گلگت بلتستان میں پاور سیکٹر کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جاسکے گی

لیکن صوبائی حکومت کی میگا منصوبوں کے حوالے سے کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھنا تو لازمی امر ہوگا جب چھوٹے چھوٹے معاملات میں حکومت ناکامیوں سے دوچار ہو۔ سدپارہ جھیل کنارے تباہ ہونے والے ہوٹل کے اور ملبے کے نیچے سے 5 افراد کی لاشوں کو نکالنے کے لئے کئی روز تک لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کوششیں کرتے رہے۔ کیا پورے صوبے میں کہیں بھی میشنری یا آلات دستیاب نہیں جو یہ کام سرکاری سطح پر بہتر طریقے سے کیا جاسکتا ؟ اشکو من سمیت استور غذر یاسین کے بہت سے علاقوں میں خراب پاور ہاوسسز مرمت کے لئے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔

چھوٹی سڑکوں گلیوں محلوں اور عمارتوں کی تعمیر کے ٹھیکوں میں غیر شفافیت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات جو وقت گزرنے کے ساتھ شدت اختیار کرتے جارہے ہیں ان کے متعلق اگر بروقت تدارک نہ کیا گیا تو اس صوبے میں بھی کرپشن اور کمیشن کا چکر اسی طرح معمول کا حصہ بن جائے گا جیسا کہ دوسرے صوبوں میں ہے۔ محکمہ جنگلی حیات ۔محکمہ جنگلات ۔ پی ڈبلیو ڈی اور محکمہ تعلیم میں بھرتی کے معاملات میں مالی بدعنوانی اور اقربا پروری بھی اپنے زوروں پر ہے۔ جوں جوں صوبے کے لئے فنڈز میں اضافہ ہورہا ہے اس سے زیادہ شرح کے ساتھ صوبائی مشینری میں خواہ وہ بیورکریسی ہو یا سیاسی قیادت ، کرپشن زیادہ شدت کے کے ساتھ سراعت کرتی جارہی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو یہ محاورہ گلگت بلتستان پر پور فٹ بیٹھے گا کہ ( کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا) کہ صوبے کے حصے کی بھاری رقوم بھی جاری ہو جائیں اور عوام تک اس کے ثمرات بھی نہ پہنچیں ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے میں بڑے منصوبوں کی اعلٰی سطح پر مانیٹرنگ کی جائے چھوٹے منصوبوں میں کرپشن کے روک تھام کے لئے مقامی سطح پر سوشل کمیٹیوں کو بغیر سیاسی تفریق کے شامل کیا جائے۔ اور احتساب کے عمل کا ابھی سے آغاز کیا جائے تاکہ حالات کو مزید بگڑنے سے روکا جاسکے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button