کالمز

سیب اساتذ ہ کی خدمات اور اُن کی مشکلات

تحریر: ممتاز عباس شگری

موجودہ دو میں کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی کا دارومدار صرف اور صرف تعلیم سے ہی جڑی ہوئی ہے ۔جس قوم نے تعلیم کی اہمیت وافادیت کو سمجھ لیا ہے وہ آج ترقی وکامرانی کے راستے پر حائل ہے اور جس نے اس کی افادیت ہے انکار کیا وہ آج بھی پستی و تنزلی سے دوچارہے۔اگر مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو ارسطو ،افلاطون ،ابن الہیشم اور اور علامہ اقبال جیسے عظیم لوگ نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو جانا اور علم ہی کے ذریعے اعلیٰ مقام حاصل کیا ۔علم ہی کے ذریعے مسلمانوں نے دنیا پر راج کیا اور جب سے مسلمانوں کے درمیان علم کی اہمیت ختم ہوئی تب سے مسلمانوں کی تنزلی وبربادی شروع ہوئی ،اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ علم کی کتنی اہمیت ہے ۔ہمیں بھی اگرمستقل طور پر ترقی کے راستے پر گامزن ہونا مقصود ہے تو علم کی اہمیت اور معاشرے کوعلم کے نور سے منور کرنے والوں کی اہمیت کو جاننا ہو گا تب ہم خوشحال رہ سکیں گئے۔اگر معاشرے میں تعلیم دینے والے ہی دربہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں تو وہاں زیر تعلیم طلباء کا کیا حال ہو گااس کا اندازہ معاشرے کا ہر فرد لگا یا جاسکتا ہے،معاشرے میں تعلیم عام کرنے کیلئے سب سے پہلے اُن اساتذ کی مشکلات دور کرنے ہونگے جو اس مقدس پیشے سے جڑے رہنے کی سزا بگھت رہی ہے اِس در بہ در کی ٹھوکریں کھانے والوں میں سے ایک گروہ سیب اساتذہ ہے۔

سوشل ایکشن پروگرام کے تحت گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں ایسے سکولز کا قیام کئی عرصہ پہلے عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ہر گاوں کا بچہ بچہ تعلیم کے ہنر سے براہ راست مستفید ہو سکیں ۔اس وقت ان کے زیر اہتمام 360سکولوں میں 1464اساتذہ( جن میں اسی فیصد خواتین اساتذہ ہے) بچوں کوتعلیم سے ہمکنار کر رہے ہیں جب کہ ان سکولوں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی تعداد تقریبا58000سے زائد ہے ان میں بھی پچھتر فیصد طالبات پرمشتمل ہے ۔ان تمام طلباء وطالبات کو اساتذہ محنت اور لگن کے ساتھ پڑھا رہے ہیں اُن کے نصاب بھی گورنمنٹ نصاب کے عین مطابق ہے۔ساتھ ہی گورنمنٹ سکولوں کی طرح یہ اسکولز بھی نمایاں کارکردگی دیکھا رہے ہیں۔اُن اساتذ کی مرہون منت ہی ہے کہ آج گلگت بلتستان کے دور دراز علاقے کا بچہ بچہ علم کے چراغ تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔لیکن ان تمام تر خدمات کے باوجود ان اساتذ کوابھی تک مستقل طور پر تعینات نہیں کیا گیا ہے ،ساتھ ہی ماہانہ قلیل سیلری کی وجہ سے ان کوگھر کا چولہا چلانا بھی مشکل ہو گیا ہے اکثر اساتذ نوکری چھوڑکر گھریلو کاموں کی طرف توجہ دینے پر مجبور ہیں۔ اپنے حقوق کی اڑ میں انہوں نے 56دن مسلسل گلگت میں دھرنا بھی دیا 10جنوری 2015کو موجودہ چیف منسٹر گلگت بلتستان جناب حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب نے اُن تمام اساتذ کو مستقل کر کے ان کے تمام مطالبات مان کر حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی مگر یہ صرف یقین دہانی ہی ثابت ہو گیا اس پر عمل نہیں ہو سکا،بعد ازاں جون 2017میں ایک بار پھر جناب والا نے یقین دہانی کرائی گئی کی سیب اساتذہ کو ایک ماہ کے اند ر اندرمستقل کر کے ان کے تمام جائز مطالبات منظور کئے جائیں گے ۔ لیکن اب تک اس پر بھی عمل نہ ہو سکا ہے اب وہ بچارے اساتذہ اس آس میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔کہ آخر ہمیں کب مستقل بنیادوں پر تعینات کر کے ہمارے خواب شرمندہ تعبیر ہونگے ۔ان اساتذہ کا موقف بھی یہی تھا کہ آخر ہمارے ساتھ کھلا مذاق کب تک چلیں گئے بحرحال جب تک کسی ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کی مشکلات کم نہیں ہونگے ان سے بہتر کارکردگی کی امید بھی نہیں لگائی جاسکتی۔اگر سیب اساتذ کی مشکلات کے پیش نظر ان کی جائز مطالبات مان کر ان کومستقل بنیادوں پر تعینات کیے جائے تو وہ بھی ملک وقوم کی ترقی میں اپنی کردار نیک نیتی سے ادا کرتے رہیں گے اور ہمارے ملک کا بچہ بچہ تعلیم کے ہنر سے مستفید ہوتے رہیں گئے۔اورہمارا ملک ترقی کے منازل ہمیشہ طے کرتے رہیں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button