ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ
عالم آن لائن ، نکا ح آن لائن ،شادی آن لائن ، شاپنگ آن لائن اور ووٹنگ آن لائن کے بعد داخلہ آن لائن آگیا تو پشاور، مردان اور چارسد ہ کے مرکزی شہروں میں اس کا خیر مقدم کیا گیا مگر نواحی بستیوں کے لئے یہ اقدام عذاب سے کم نہیں تھا اب صورت حال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا محکمہ خوشی منا رہا ہے ہم نے آن لائن ایڈمیشن متعارف کرا یا ایک لاکھ 85 ہزار فارم آگئے عوام اس صدمے سے دوچار ہیں کہ آن لائن کی وجہ سے ان کے بچوں نے سال ضائع کیا فارم غلط داخل ہوئے داخلوں میں گھپلے ہوئے حقداروں کو ان کا حق نہیں ملا یہ دو مختلف نکتہ ہائے نظر ہیں ہم نے سوات ، بٹگرام ، کوہستان ، بنوں ، دیر اور چترال کے دور دراز دیہات سے آنے والے طلباء طالبات اور اُن کے والدین یا سر پرستوں کو داخلہ آن لائن کے عذاب سے گذرتے ہوئے دیکھا ہم نے بونی ، دیر ، بٹگرام اور لکی مروت کے کالجوں کی انتظامیہ کو شدید تکلیف اورمشکلات سے دو چار پا یا تو ایسا لگا جیسے خیبر پختونخوا میں کینیڈا ، جاپان اور جر منی سے آئے ہوئے غیر ملکیوں کی حکومت ہو جیسے ہاےئر ایجو کیشن کے حکام میں سے کسی کو بھی اردو ، پشتو یا ہند کو نہ آتی ہو جیسے سول سکرٹریٹ اور ڈائر یکٹریٹ کا کوئی بھی افیسر خیبر پختونخوا کے کسی بھی کالج سے واقف نہ ہو داخلہ آن لائن کے لئے دو چیزیں لازمی ہیں کالج یا سکول میں ڈی ایس ایل ، ، تھری جی ،فورجی یا سٹیلائٹ سسٹم موجود ہو ، کمپیوٹر پروگرامر یا نیٹ ورک ایڈ منسٹر یٹر یا کم از کم آئی ٹی لیکچرر موجود ہو دوسری چیز یہ ہے کہ یہی سہولت اور صلاحیت داخلہ کر نے والے طالب علم یاطالبہ کے پاس بھی دستیاب ہو یہاں صورت حال یہ ہے کہ جس کالج میں انٹر نیٹ ہے وہاں کمپیوٹر سائنس کا لیکچر ر نہیں ہے کمپیوٹر اپر یٹر ، پروگرمریا نیٹ ورک ایڈ منسٹر یٹر نہیں ہے کبھی انگلش ، کبھی فزکس اور کبھی کیمسٹر ی یا اسلا میات کے لیکچر ر کو یہ کام سونپ دیا جاتا ہے جس کالج میں کمپیوٹر سائنس کے لیکچر ر کی تقر ر ی ہوئی ہے وہاں انٹر نیٹ کی سہو لت نہیں میٹنگ میں جاکر پرنسپل شستہ انگریز ی میں کہتا ہے میرے پاس سہولت نہیں تو بات اوپر والوں کی سمجھ میں نہیں آتی سروں کے اوپر سے گذر جاتی ہے ایسی میٹنگ کا کیا فائد ہ جس میں بات کر نے اور بات سُننے کی روایت نہ ہو یہ تو صاحب بہادر کے گھر کا حال تھا اب دور دراز میدانی یاپہاڑی دیہات سے آنے والے اُمید واروں کا حال بھی ملا حظہ ہو یہ لوگ 100 کلو میٹر یا ڈیڑھ سو کلومیٹر اور چترال جیسے ضلع میں 300 کلو میٹر کے فاصلے سے کالج آکر فارم لیتے تھے فارم پُر کر تے تھے اور میرٹ لسٹ آنے پر ا نٹر ویو دے کر داخلہ لیتے تھے آن لائن داخلہ کے لئے وہ بیچارے بازاروں میں نیٹ کیفے ڈھونڈتے ہیں ایک گھنٹے کے کام میں سات دن لگاتے ہیں میرٹ لسٹ آنے پر پتہ لگتا ہے کہ ان کا فارم غلط بھیجا گیا تھا جس کا فارم درست بھیجا گیا اس کو موبائیل نیٹ ورک کے ایس ایم ایس پر پیغام کا انتظار کر نے کی ہدایت کی جاتی ہے یہ وہ پہاڑی یا میدانی علاقہ ہے جہاں موبائیل نیٹ ورک نہیں ہے اگر ہے تو بے چارے طالب علم کے پاس یہ سہو لت نہیں ہے بالائی حکام نے فرض کر لیا ہے کہ ہمارا ہر کالج واشنگٹن ڈی سی میں ہے اور ہمارے کالج کا ہر طالب علم واشنگٹن سٹی کا باشند ہ ہے آن لائن داخلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہے نہ کالجوں میںیہ سہولت میسر ہے نہ طالب علموں کو اس سہولت کا علم ہے طالب علم نیٹ کیفے میں آکر فارم بھرتا ہے تو کالج کا پروفیسر نیٹ کیفے میںآکر فارم کو چیک کرتا ہے نیٹ کی رفتار ایسی ہے کہ 2 منٹ کا کام 3 گھنٹو ں میں نہیں ہوتا اس سال طلباا ور طالبات نے آن لائن داخلوں کے چکر میں حکومت کو جتنی بد دُعا دی ہے شاید اتنی بد دُعا کسی مظلوم نے دہشت گردوں کو بھی نہیں دی ہوگی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زمینی حقائق حکومت کی نظروں سے پوشید ہ رکھے جاتے ہیں اس کی ایک مثال آن لائن داخلہ ہے دوسری مثال ڈی این اے ٹیسٹ ہے آن لائن داخلہ وہاں کا میاب ہوتا ہے جہاں انٹر نیت کی سہولت سب کے پاس ہو اس ڈی این اے ٹیسٹ وہاں نتیجہ خیز ہوتا ہے جہاں ڈی این اے کا ڈیٹا بیس دسیتا ب ہو ہمارے ہاں پختون ،پنجابی ،سندھی ،مہا جر اور بلوچ کے ڈی این اے کا ڈیٹا بیس دستیاب نہیں افغان ، تاجک ، ازبک عرب ، ہندوستان یا ایرانی کے ڈی این اے کا نمونہ موجود نہیں خودکش بمبار کے ڈ ی این اے کا موازنہ کس قومیت ،کس خاندا ن اور کس کُنبہ سے کیاجائے گا ؟اگر موازنہ ممکن نہیں تو پھر ڈی این اے ٹیسٹ کا کیا فائد ہ ہے ؟ بالکل اسی طرح آن لائن داخلہ بھی کالج انتظا میہ اور طلبہ کے لئے عذاب اور ٹارچر سے کم نہیں ہائیر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ کے حکام اگر طلبہ کی مجبو ریوں سے با خبر نہیں ہوسکتے کم از کم کالجوں کے اندر دستیاب سہولیات سے باخبر ہونے کی کوشش ضرور کریں گذشتہ چارسالوں سے کالجوں کے انفراسٹرکچر پر ایک پیسہ بھی خر چ نہیں ہوا کالجوں کو پٹیِ ریپےئرکا فنڈ بھی نہیں ملا اس کے باو جود بازار کے نیٹ کیفے پر انحصار کر کے ’’ داخلہ آن لائن ‘‘ کا شو شہ چھوڑا جاتا ہے
یا رب وہ سمجھے ہیں نہ سمجھینگے میر ی بات
دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button