کالمز

فلسفہ قربانی اور اس کے تقاضے

شفیق احمد

مذہب کا لفظی مطلب راستہ، طریقہ،ہے۔ انگریزی لفظ“ریلیجن“ کا مادہ لاطینی لفظ“ریلیجیو “ یعنی امتناع اور پابندی ہے۔ ویبسٹر کی انگریزی لغت میں “ریلیجن“ کی جو تعریف کی گئی ہے، اس سے ملتا جلتا مفہوم قومی زبان کی انگریزی اردو لغت میں دیا گیا ہے، جو یوں ہے:
مافو ق الفطرت قوت کو اطاعت، عزت اور عبادت کیلئے با اختیار تسلیم کرنے کا عمل ، اس قسم کی مختار قوت کو تسلیم کرنے والوں کا یہ احساس یا روحانی رویہ اور اس کا ان کی زندگی اور طرز زیست سے اظہار ؛ متبرک رسوم و رواج یا وظا ئف کے سر انجام دئے جانے کا عمل : خدائے واحد و مطلق یا ایک یا ایک سے زائد دیو تاوں پر ایمان لانے اور ان کی عبادت کا اک مخصوص نظام۔

بہ الفاظ دیگر کسی مخصوص علاقے کی مذہبی روایات کی تہہ میں وہان کے لوگوں کا کائنات کو دیکھنے کا اور سمجھنے کا انداز کار فرما ہوتا ہے، مثلا زراعتی معاشروں میں بارش کا دیو تا موجود ہوتا ہے، تو خانہ بدوش معاشروں میں شکار کا، یہ کہنا درست نہین کہ مذبب اپنے سے متعلقہ علاقہ کے لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کر تا ہے، اس کے ر عکس یہ کہنا چاہیئے کہ کسی خطہ کے لوگ اپنے روحانی تقاضے پورا کرنے کیلئے جو امتنات، پابندیاں، اصول و قوانین، ضوابط ، وغیرہ عائد کرتے ہیں، ان کا مجموعہ مذبب کہلاتاہے۔ المختصر خدا انسانی درجے پر نہیں سمجھا جا سکتا اور ااس سے براہ راست بیاں بھی نہیں کیا جاسکتا، لہذا اس اعلی ہستی تک رسائی اور اس کے پیغام کی سمجھ کیلئے کچھ اصول بنا کر ان پر عمل کیا جاتا ہے، جس سے عام طور پر مذبب کہتے ہے۔ جو کہ انسانی خیالا ت، خوا ہشات، تصوراتی مقاصد کو سمت مہیا کرنے ، جلا بخشنے، مطمئن یا تکمیل کرنے کا زریعہ ہے، کسی بھی مذہب پر عمل کرنے والے اس بات کا مختلیف طریقوں سے اظہا ر کرتے ہے۔ کہ مذہب پر عمل ان کیلئے کیا حقیقت اور کیا معنی رکھتا ہے۔

معلوم انسانی تارٰیخ سے لے کر اج تک مذہب کا تصور کسی نہ کسی صورت میں رہا ہے، اور دنیا میں سب سے زیادہ زکر بھی مذہب کے متعلق کی جاتی ہے، لیکن یہ حیرانی کی بات ہے، کہ اج تک مذبب کیلئے کوئی خصوصی تعارف متعین نہیں ہو سکا، البتہ مفکریں کی ارا میں یہ قدر مشترک ہے کہ مذہب مافوق الفطرت ہستی تک
رسائی کے حصول کا زریعہ ہے۔

مذہب کے طور طریقے، روایات، اعمال اور رسم و رواج پر عمل امید، قلب کی روشنی ، اطمینان اور خوشی فراہم کرتا ہے ۔ اور ان اعمال کے کرنے میں ایک خا ص مقصد اور معنی پوشیدہ ہوتا ہے۔ اکثر ادیان میں اعلی بر تر زات کی رضا اور خوشنودی مقصود ہےاس طرح دین اسلام میں بھی اللہ تک رسائی مسلمانوں کیلئے اہم مقصد ہے۔
قدیم مذاہب میں یہ تصور پایا جاتا تھا،کہ اس کائینات کو قربانی کیلئے بنایا گیا ہے، ہندو مذہب کے ما ننے والے اس بات پر یقین رکھتے تھے، کہ دیوتاووں نے دنیا قربانی کیلئے بنائی ہے، قربانی کی مختلیف اقسام ہیں، جن میں پھل اور حیواں وغیرہ شامل ہے۔ قدیم زمانوں میں اکثر انسانو ن کی قربانی بھی را ئیج تھی۔ جو ایک فرسودہ روایت ہو چکی ہے۔ یہودیت اور عیسائیت میں بھی قربانی کا تصور موجود رہا ہے، اور سی طرح اسلام میں بھی اس تصور کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ تقریبا تمام روایات میں اپنی قریب تریں یا پیاری چیز کو اعلی ہستیوں
کے نام قربان کرنے کا مطلب انہیں خو ش کرنا اور ان کی رضا حاصل کرنا ہے۔

اس طرح دین اسلام کی ایک اہم تہوار عید قربان ہے۔ جو ١٠ زی الحجہ کو منائی جاتی ہے۔ جس میں صرف جانوروں کی قربانی کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ قربانی حضرت ابراہیمّ اور حضرت اسماعیلّ کی اللہ کے حضور تابداری اور اس کے رضا کے حصول کی علامت ہے۔مذہب کی تعلیمات اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ ان کو سمجھ کر ایک انسان اپنے لیئے عملی زندگی کے طریقے متعین کریں۔ مذہبی اعمال کے انجام دینے کا مقصد محبت، انسان دوستی، اور فطرت کو سمجھنے، خود انسان کی داخلی شخصیت کا ادراک اور تکثریت اور گونا گونی کا سمجھنا ہے۔

داناوں نے کہا ہے کہ خدا انسان کے دل میں بستا ہے۔ عیدقربان ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اللہ کی خوشنودی کی خاطر قربانی کرتے ہیں، اور ابراہیمّ اور اسماعیلّ کی سنت بجا لا کر ہم یہ عہد کرتے ہیں، کہ آج سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ اور بحیثت انسان خیر اور سچائی کی علامت بنیں گے۔ اور اس بات کاعندیہ ذاتی مفادات، منفی جذبات، ناجائز خو اہشات، جھوٹ، شر کے تمام عوامل کا خاتمہ اور خود کو قربان کرکے ایک پر خلوص انسان اور سچا مسلمان بنانےمیں ثابت کریں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button