بلاگزسیاحت

دیو سائی واقعی دنیا کا ایک عجوبہ ہے

تحریر: شمس الحق قمر

شمالی علاقہ جات اور موجود گلگت بلتسان زمانہ قدیم سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے ۔ یہاں کے سر بہ فلک پہاڑی چوٹیاں ، چاندی کی مانند چمکتے گلیشئر اورجمے ہوئے برفانی تودوں سے چھاج اُمنڈتے چشمے ، انہی چشموں کے لبوں پر رنگ برنگے پھولوں کی پرتبسم کلیاں ، سر سبز و شاداب کھیت ، لہلہاتی فصلیں، تازہ اور قدرتی غذا ، مہمان نواز اور شرافت و دیانت کے امین لوگ ، روایتی طعام ، ثقافتی ورثے کی امانت داری ، قدیم انسانی تہذیب اور طرز تعمیر کے آئینہ دار قلعے ، خوشگوار موسم ، بد ھ مت کی پرانی یادیں ، صوفیائے کرام کے معجزوں اور روایتی کھیل چگان بازی کے علاوہ دنیا کے تین پہاڑی سلسلوں، کوہ ہندو کش ، کوہ ہمالیہ اور قراقرم کا اس منطقے میں آکر ایک دوسرے سے گلے ملنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے اونچی سطح مرتفع کے حامل صحرا ’’دیوسائی‘‘سیاحوں کے لئے ایک خاص کشش رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح سیر و تفریح سے لفط اندوز ہوتے ہیں ۔

اس علاقے کی تمام تر خوبیاں اور حسن ایک طرف لیکن دیو سائی کی دلکشی ایک طرف ۔ دیو سائی سے ہوکر گزرنے کے بعد میرا دل بار بار کہتا رہا کہ اگر پاکستان کے کسی باسی نے اب تک دیوسائی نہیں دیکھا ہے تو اُس نے اپنی زندگی کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے ۔ گلگت میں اترنے کے بعد اگر آپ کی جیب میں د س ہزار روپے ہیں تو آپ بہ آسانی دیوسائی سے ہوتے ہوئے استور یا پھر دیو سائی سے ہوتے ہوئے سکردو اور پھر دوبارہ گلگت پہنچ سکتے ہیں ۔ اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی ، ٹینٹ اور خوراک کا بندوبست ہے تو مزید اضافی کوئی اخراجات نہیں ہیں ۔ دیوسائی کی سیر کا بہترین وقت جولائی سے لیکر اوائل ستمبر تک ہے اس کے بعد دیوسائی شدید سردیوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔

ہم اتفاقاً دیو سائی کی یاترا کو نکلے ۔ بیٹھے بیٹھے ہم ، میں میری شریک حیات اور میرے بیٹے ، نے فیصلہ کر لیا کہ عید قربان کی چار چھٹیاں ہیں لہذا کیوں نہ دیوسائی کی طرف رختِ سفر باندھا جائے ۔ ہم نے سفر کا منصوبہ بنایا ۔ ۲ ستمبر کو عید تھی اور یکم ستمبر سے ہماری چھٹیاں شروع تھیں اور ۵ ستمبر کو دوبارہ ملازمت کے خرخشوں میں اپنا انضمام کر نا تھا ۔ لہذا ہم نے ۳۱ اگست کے ۲بجے بہ راستہ استور اپنے سفر کا آغاز کیا ۔

گلگت سے کے ۔کے۔ ایچ پر ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد بائیں طرف موڑ کاٹ کر پل کی دوسری جانب ضلع استورکے لئے پہاڑی کھاٹی کے درمیان سے پکی مگر پر پیچ سڑک پر اوسطاً بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلانی پڑتی ہے یوں تو گلگت سے استور تک تین گھنٹے کی مسافت ہے لیکن ہم چار گھنٹے میں پہنچ گئے ۔ یہاں ہمارا ایک پرانا دوست اسحاق حسین پولیس کے ضلعی ذمہ دار ہیں ۔ موصوف کی سرکاری رہائش گاہ میں ہماری خوب پزیرائی ہوئی ۔ صبح چھ بجے ہم استور سے دیو سائی کی طرف نکلے ۔ یہاں سے آگے سڑک کشادہ اور ہموار ہے جوکہ تھوڑا آگے جاکر دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے دائیں ہاتھ پر رٹو کا راستہ ہے، جبکہ بائیں جانب دریائے استور کے ساتھ ساتھ چلم اور دیو سائی کی پکی سڑک آتی ہے ۔ اس دوراہے سے چم تک لب د ریا استور کا سر سبز و شاداب علاقہ ۔جگہ جگہ دوگنی قیمت پر پٹرول آپ کو ملے گا ۔

چلم پہنچنے کے بعد مزید دو سڑکیں آتی ہیں ،داہنے ہاتھ پر مینی مرگ سیکٹر اور کرگل کا راستہ ہے جبکہ بائیں ہاتھ پر دیوسائی نشنل پارک کی سڑک ہے ۔ اس دوراہے پر پاک آرمی اور گلگت بلتستان پولیس کے جواں عز م اور دلیر جوان انتہائی پھرتی اور انہماک کے ساتھ مسافروں کے سامان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور دیوسائی کے سفر کے حوالے سے ضروری ہدایات دے کر رخصت کرتے ہیں ۔

دیوسائی کے راستے پر ایک دو میٹر آگے دیوسائی نشنل پارک کی چوکی ہے۔ یہاں بھی مسافروں کے ناموں اور گاڑیوں کا اندراج ہوتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ دیوسائی نشنل پارک کے ملازمین دیوسائی کے قدرتی حسن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک منٹ کے لیکچر کے ساتھ تمام مسافروں کو ایک ایک شاپنگ بیگ بھی دے دیتے ہیں تاکہ کھانے پینے کی بچی کھچی ٹکڑیوں کو انہی شاپنگ بیگ میں ڈال کے اپنے ساتھ واپس لے جایا جائے تاکہ دیوسائی کا قدرتی حسن اور جمال اپنے دیکھنے والوں کو ہر دم دعوت نظارہ دیتے رہے۔

یہاں سے رخصتی کے بعد دیوسائی کا وسیع و عریض صحرا شروع ہوتا ہے ۔ چلم سے آگے تقریباً دس کلومیٹر تک پکی سڑک پر ایک چڑھائی چڑھنی پڑتی ہے۔ پندرہ کلومیٹر کے فاصلے تک کہیں کہیں وقتی موسمی کچے گھروں کی عمارتیں نظر آتیں ہیں لیکن پندرہ کلومیٹر کے بعد یہاں کوئی انسانی آبادی نظر نہیں آتی۔ اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ اس لق ودق صحرا کے چاروں طرف ایستادہ برفانی ٹیلے ، گھاس ، طرح طرح کے پھول ، زمین سے اُبل اُبل کر نکلنے والے چشمے ، طرح طرح کے جنگلی گل بوٹے جیسے کسی نے دن رات محنت کرکے بونے کے بعد آبیاری کی ہو، طرح طرح کے جانور جن میں موش خُرمائی جوچھوٹے کتے یا بڑی بلی کے قد کاٹھ کا جانور ہے ، بھیڑئے ،چکور ، رام چکور ، عقا ب کی مختلف نسلیں ، چھوٹے اور بڑے پرندوں کی مختلف نسلیں ، رنگ بررنگے مینڈک ، ٹراوٹ کے علاوہ مچھلیوں کی کئی ایک اقسام اور جگلی خرگوش کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ہے دنیا کے نادر برفانی مارخور اور ریچھ کی بھی یہی جگہ مقبول آماجگاہ ہے لیکن ہمیں کہیں ریچھ اور مارخور نظر نہیں آئے ۔

دیوسائی میں تین جگہوں پر ٹنٹ ہوٹل ہیں جن میں ’’شیو سر جھیل ‘‘،’’ کالا پانی‘‘ اور ’’بڑا پانی‘‘ مشہور ہیں ان ہوٹلوں میں طعام اور قیام کی سہولت موجود ہے البتہ جیب بھاری ہو تو بات بنتی ہے ۔ ہم نے ان تین جگہوں پر دیوسائی کے بارے میں معلومات لیں تو بتایا گیا کہ اس صحرا کی اُونچائی سطح سمندر سے چار ہزار میٹر پر ہے جبکہ اس کا رقبہ تین ہزار مربع کلومیٹر ہے جو کہ بلندی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا سطح مرتفع ہے ۔

کہتے ہیں کہ شیو سر جھیل ،میں ہر طرح کے آبی پرندوں کا بسیرا ہوتا ہے ۔ یہاں استور اور اسکردو کے لوگوں کے ٹینٹ ہوٹل ہیں سیاحوں کے ان جگہوں پر رات گزارنے کا اصل مقصد جنگلی ریچھوں کا دلکش نظارہ کرنا ہے جو اکثر چاندنی رات میں کالا پانی اور بڑا پانی ( دو نالوں کے نام ) میں مچھلیوں کے شکار کے لیے اپنے کچھار سے نکل کر آتے ہیں اور ساری ساری رات مچھلیوں کا شکار کر کے خوب سیر ہو کر صبح کی اذان کے ساتھ اپنے بلوں کی جانب چلے جاتے ہیں۔

اگر آپ میں سے کسی کو دیوسائی کی سیر کا شوق ہے تو پوری تیاری کے ساتھ رخت سفر باندھ لیجئے ۔ صرف ایک گاڑی لیکر نہ آئیں کیوں گاڑی خراب ہونے کی صورت میں آپ کو یہاں کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ اپنے ساتھ خوراک وافر مقدار میں لیکر سفر کیجئے ہو سکتا ہے کہ راستے میں کسی بندش کی وجہ سے آپ ہوٹلوں تک نہ پہنچ پائیں کیوں ہوٹلوں کے درمیاں پندرہ کلومیٹر سے زیادہ کا راستہ ہے ۔ بلند مقامات سے ڈرنے والے لوگ زحمت نہ فرمائیں کیوں کہ یہاں اکسیجن بہت کم ہے ۔ ضروری دوائیاں ساتھ رکھیں ۔ اگر آپ کے پاس گاڑی ہے تو کم از کم دو اضافی ٹائیرز آپ کے پاس ہوں ۔ دھیاں رہے کہ پارک کو آلودہ کرنے کی صورت میں آپ قانون شکن ثابت ہوں گے ۔

آخری ہوٹل جوکہ بڑا پانی کہلاتا ہے ، سے سدپارہ گاؤں کے اوپر تک یہی کوئی پندرہ  کلومیٹر کی مسافت ہے اس کے بعد دیوسائی رنگ برنگے پھولوں کو فرش راہ کئے آپ کو خدا حافظ کہے گا ۔ یہاں سے آگے کا راستہ پرپیچ اُترائی میں سے ہو کر گزرتا ہے ۔ راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے گاڑی پہلے گئیر پر چلانی ہوتی ہے بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ فورویل گئیر پہ چلائی جائے ۔ اس اُترائی پر سالانہ حادثے پیش آتے ہیں ۔

اللہ آپ سب کو دیو سائی دیکھنے کا موقعہ عنایت فرمائے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button