کالمز

نریندر مودی نے ثابت کردیا کہ بھارت سیکولر نہیں  ایک ہندو ریاست ہے

فواد صادق

 چین میں ہونے والی برکس کانفرنس کے اعلامیے کو بھارتی میڈیا ا  وزیراعظم نریندر مودی کی بہت بڑی فتح قرار دے رہا ہے جس میں  پاکستان میں مختلف تنظیموں کے خلاف اقدام پر زور دیا گیا ہے اور طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، داعش، حقانی نیٹ ورک، حزب التحریر اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں کی سرکوبی کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں لشکر طیبہ کا حوالہ دے کر زہر اگلتا رہتا ہے کہ کشمیر میں یہ تنظیم دہشتگردی میں ملوث ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردی  تو بھارتی فوج نے پھیلا رکھی ہے۔بھارتی فوج پیلٹ گنوں کے زریعے اب تک سینکڑوں   کم سن بچوں نوجوانوں لڑکوں ، لڑکیوں ، بوڑھوں اور خواتین کو     آنکھوں سے نابینا کرکے زندہ لاش بنا چکی ہے۔ ہزاروں بے گناہ افراد کو موت کی گھاٹ اتارا جاچکا ہے سیکٹروں افراد لاپتہ ہیں اور اس وقت جس قدر شدت کے ساتھ بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں کررہی ہے انہیں اگر کشمیر ی مسلمانوں کی نسل کشی کی کوشش کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لیکن برکس کانفرنس کے رکن ممالک ، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں یہ سب دکھائی کیوں نہیں دیتا۔

ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کو پامالا کی جارہا ہے تو۔ فلسطین میں یہودی مسلمانوں پر پوری طاقت کے ساتھ ظلم  ڈھا رہے ہیں اور یہودی ریاست اسرائیل کی فوج خود اس ظلم میں شریک ہے۔ امریکہ اور اسلام دشمن قوتیں ان کی مذمت کرنے کی بجائے ان کا پورا ساتھ دے رہی ہیں ۔ شام کی پراکسی وار میں "بڑی قوتیں” پراکسی وار کے نام پر دونوں جانب مسلمانوں کاقتل عام کروارہی ہے۔  یہ سب بین الاقوامی اداروں کی مذمتی  قراردادوں کا حصہ کیوں نہیں بن پارہیں ۔

جس وقت برکس کانفرنس کا سیشن جاری تھا  اور قرارداد کے مسودے کو حتمی شکل دی جارہی تھی اس وقت برما میانمر میں وہاں کی مقامی فوج  اور بدھ ملیشیاء کے ارکان روہنگیا مسلمانوں کی بستیاں جلارہے تھے۔ سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا تھا۔ اور منظم انداز میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جارہا تھا ۔ برکس کانفرنس میں برما کے متعلق مذمتی  الفاظ  قرار داد کا حصہ کیوں نہ بن پائے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی  برکس کانفرنس سے سیدھا میانمر تین روزہ دورے پر پہنچے۔ بھارت میں مسلمان اور بھارتی میڈیا بھی یہ توقع کررہا تھا کہ شائد   مودی دیگر امور کے ساتھ میانمر میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے بات کریں گے۔ لیکن نریندر مودی  جو کہ اپنے آپ کو سیکولر بھارت کا وزیر اعظم قرار دیتا ہے نے میانمر میں مسلمانوں کی نسل کشی کو دہشتگردی کا نام دے کر معاملہ ہی گول کردیا، اور ساتھ ہی بھارت  میں پناہ لئے ہوئے   40 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو واپس برما دکھیلنے کا عندیہ بھی دے دیا ۔  روہنگیا مسلمانوں کے  اوپر میانمر کی فوج کی طرف سے جاری قتل عام  کے متعلق جاننے سے پہلے برما کی تاریخ کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔

برما   14 صوبوں پر مشتمل ہیں اور کل آبادی 7 کروڑ سے زائد ہےجس میں بدھ مذہب کی اکثریت ہیں،

” اراکان ” برما کا بڑا صوبہ ہیں جو بنگلہ دیش کے شہر چٹاگام سے متصل ہے اور جس میں مسلم اکثریت  آباد ہے، سال  1784 سے پہلے اراکان ایک مکمل آزاد اسلامی ریاست تھی لیکن برما کے راجہ  نے 1784 میں اراکان پر جبراً  قبضہ کرلیا۔ 1886 سے 1948 تک برما پر برطانیہ کی حکومت رہی، 1948میں مسلمانوں نے بدھ مذہب والوں کے ساتھ ملکر انگریزوں سے آزادی حاصل کی، 1948میں برما کی آزادی کے وقت "اراکان” کے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی لیکن انگریز حکمران اور بدھ مذہب اڑے آئی  اور ارکان صوبے کو برما کا حصہ بنا دیا گیا ۔برما دنیا کے غریب ترین ممالک کے فہرست میں آتا ہے جس کی اہم وجہ ملک میں کہی سالوں تک مارشل لاء کا نفاذ تھا، 2010 میں فوج نے بیرونی دباؤ سے مجبور ہوکر ملک میں انتخابات کرواۓ جس میں اپوزیشن لیڈر انگ سانگ سوچی کامیاب ہوئی، یہ وہی خاتوں ہے جس کے والد نے مسلمانوں کی مدد سے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی لڑی اور کامیابی حاصل کی،  لیکن اسکے باوجود انگ سانگ سوچی نے مسلمانوں  کے  لئے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا،

فوجی آمریت کے دوران برما میں کچھ  خاندان جن کے اباواجداد مسلمان تھے اور خوف ظلم و تشدد سے اپنا مذہب چھوڑ چکے تھے ایسے ہی ایک خاندان کے دو عورتیں جب دوبارہ مسلمان ہوئی تو بدھ اور مگھ جو مسلمانوں کے خوں کے پیاسے ہے نے ان دو عورتوں کو قتل کر دیا اور مشہور کر دیا گیا کہ انکو مسلمانون نے قتل کیا اور یوں مسلم کش فسادات کا آغاز کیا ۔ سب سے پہلا بڑا حملہ  صوبے اراکان میں ایک تبلیغی جماعت  کے 10 شہید اور 27 افراد زخمی کرکے انجام دیا گیا ۔ اسکے بعد سے اب تک وقفے وقفے سے مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے۔ عورتوں کی ابروریزی اور معصوم بچوں کو بیدردی سے ذبح کیا جارہا ہے۔

اعداد  شمار کے مطابق اب تک اس مختصر عرصے میں 24000 مسلمان قتل کئے گئے اور سینکڑوں  خواتین  کو اغوا کیاچکا ہے۔ اب تک کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق برما کی فوج نے بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو روکنے کے لئے سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں، جن کی زد میں آکر  دو روز میں 9 افرا د اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button