کالمز

حصولِ تعلیم لازمی مگر کونسی۔۔۔۔؟

تحریر: محمد جواد شگری

حصولِ تعلیم نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی کیلئے ضروری ہے بلکہ شاید اس سے کہیں بڑھ کر اسکی معاشرتی زندگی کیلئے اہم ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے علم کی بنیاد پر دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے۔حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے اسماء کا علم سکھایا، پھر جب ان اسماء کے سیکھنے کی وجہ سے فرشتوں سے انکی علمی برتری ثابت ہوگئی تب اللہ تعالیٰ نے آدم کو مسجود ملائکہ قرار دیکر انہیں زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا۔( تفصیل کیلئے دیکھیں سورہ بقرہ آیت30 تا34)۔ اب یہ بات واضح ہوگئی کہ علم سیکھے بغیر انسان وہ تمام کمالات حاصل نہیں کرسکتا جس کے حصول کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کونسی حاصل کی جائے؟ دینی تعلیم یا دنیاوی تعلیم؟ معاشرے میں اس سوال کے تین مختلف جوابات سننے کو ملتے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنی چاہئیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کیلئے انسان کو خلق فرمایا ہے(بعض مفسرین نے سورہزاریاتا?یت56 میں موجود لفظِ عبادت کو معرفت سے تعبیر کیا ہے) اور اس صورت میں معرفت تو فقط دینی تعلیم سے حاصل ہوسکتی ہے۔ دنیاوی تعلیم تو انسان کو خدا سے دور کرتی ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنی چاہیئے کیونکہ انسان جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو اس وقت تک نہیں ڈھال پاتا جب تک وہ جدید تعلیم حاصل نہ کرے۔ اسلام نے بھی جدید تعلیم کے حصول سے منع نہیں فرمایا۔ رسول اکرم کی مشہور حدیث ، جس میں تعلیم کے حصول کیلئے چین جانا پڑے تو بھی وہاں جاکر حاصل کرنے کا حکم ہے، اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جدید علوم کا حصول جائز ہے۔ کیونکہ چین سے تو دینی علوم نہیں سیکھ سکتے۔ یہ بات دنیاوی علوم کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ ( پہلے گروہ والیاس حدیث میں لفظ چین کو فقط بْعدِ مسافت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں۔) ان دو گروہوں کے علاوہ معاشرے میں ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ دینی اور دنیاوی دونوں علوم کا حصول ضروری ہے۔تاکہ انسان ایک دیندار شخص کی حیثیت سیزندگی گزاریاور ساتھ ساتھ معاشی لحاظ سے کسی کا دستِ نگر بھی نہ ہو۔ یہ گروہ استدلال کیلئے سورہ بقرہ آیت نمبر201 کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت دونوں میں حسنا کے حصول کیلئے دعا کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔

تینوں فریقوں کی دلائل سننے کے بعد تیسرے گروہ کی بات زیادہ معقول لگتی ہے لیکن یہ بحث جس تقسیم کی بنیاد پر کھڑی ہے، وہ تقسیم زیادہ معقول نہیں ہے۔ اس بحث میں علوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی دینی اور دنیاوی علوم۔ علم منطق کی رو سے یہ تقسیم ہی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں تداخل کا پہلو ا?رہا ہے۔ مثلاً علم ادب کو ہم نہ صرف سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ بلکہ مدارس میں بھی اسکی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے۔ اسے ہم دنیاوی علوم میں شامل کریں یا دینی۔ علمِ سائنس جسے عام اصطلاح میں دنیاوی علم سمجھا جاتا ہے لیکن جب ہم علمِ کلام میں دلیلِ نظم اوراللہ کی صفات کیلئے ا?فاق اور انفس کی مثالیں پیش کرتے ہیں تو وہاں یہی علم دینی بن جاتا ہے۔ پس یہ بات واضح ہوگئی کہ علوم کو دینی و دنیاوی میں تقسیم کرنا ہی صحیح نہیں ہے۔ اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تقسیم صحیح نہیں ہے تو پھر صحیح تقسیم کیا ہے؟

میرے نزدیک علوم کی دو وسیع اقسام میں درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔ آیاتِ الٰہی کا علم اور احکامِ الٰہی کا علم۔ پہلی قسم میں آیات سے مراد نشانیاں ہے۔ یعنی اللہ کی نشانیوں کا علم۔ سورہ فصلت اآیت53 کیمطابق اللہ کی نشانیاں دو طرح کی ہیں۔ ا?فاق (کائنات) اور انفس( انسان کا اپنا وجود)۔ اب غور فرمائیں کہ ا?فاق سے متعلق علوم میں علوم جغرافیہ،ارضیات، فلکیات،حیوانیات، نباتیات،ماحولیات،علمِ کیمیاء ، علمِ طبعیات(فزکس) اور بہت سارے دیگر سائنسی علوم اس کے ذیل میں آتے ہیں۔ جبکہ انفس میں انسانی جسم اور روح سے متعلق جتنے بھی علوم ہیں وہ شامل ہونگے مثلاً میڈیکل سائنسز۔ یہ ہوگئے آیات الٰہی سے متعلق علوم۔ اب آئیں دوسری قسم کی طرف۔ یعنی احکامِ الٰہی کا علم۔ جس میں علومِ قرآنی، اخلاقیات،احادیث،ادبیات، کامرس، بنکنگ، بزنس،سوشل سائنسز وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

اگر ہم تاریخِ اسلام کا مطالعہ کریں تو بھی ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ علم کبھی بھی دینی اور دنیاوی علوم کی شکل میں منقسم نہیں رہا۔ ا?پ امام جعفر صادق کے شاگردوں کی فہرست پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے شاگردوں میں بابائے کیمیا جابر بن حیان بھی شامل ہیں۔ جنہیں یورپ والے بھی بابائے کیمیاء (Founder of Chemistry) مانتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ آپ کے شاگردوں میں فقہاء بھی کثیر تعداد میں ملتے ہیں۔ مثلاً امام ابو حنیفہ۔ کیا امام جعفر صادق نے علوم دنیاوی اور دینی کیلئے الگ الگ کلاسوں کا اہتمام کیا تھا۔ مفضل بن عمر  کو امام جعفر صادق نے جو درسِ توحید دیا تھا وہ سائنسی علوم کا ایک خزانہ ہے۔ یہ دروس توحید مفضل کے نام سے کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔معلوم یہ ہوا کہ دینی اور دنیاوی تعلیم جدا جدا نہیں ہیں۔حقیقت میں سارے علوم دینی ہی ہیں۔

اب آخر میں ہم اس گفتگو کے عملی پہلو پر بحث کریں گے۔سوال یہ ہے کہ جب علوم دینی اور دنیاوی میں منقسم نہیں ہیں۔تو پھر مدارس اور یونیورسٹیوں کی شکل میں تعلیمی ادارے الگ الگ کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیا اس سیٹ اپ میں تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت ہے؟ بات اسطرح سے ہے کہ دینی اور دنیاوی علوم اور اداروں کی تقسیم ہم نے یورپ سے درا?مد کی ہے۔ اب اس سیٹ اپ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مدارس اور یونیورسٹیاں ختم کرکے نئے ادارے بنائیں۔ بلکہ دونوں اداروں کو آپس میں مربوط بنائیں اور نصاب کی تشکیل اسطرح سے دیں کہ طلباء جہاں آیات الٰہی کا درس لے رہا ہو وہاں احکامِ الٰہی سے آشناء ہوں۔ مثلاً جب بیالوجی کی نصابی کتاب پڑھائی جائے اور بچوں کو انسانی خلقت کے مدارج سائنسی نقطہ نگاہ سے سمجھائیں تو ساتھ ساتھ سورہ مومنون کی آیت 14 کا مفہوم بھی سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی خلقت کے کتنے مدارج بیان فرمائے ہیں۔ اور اسی طرح علم کیمیاء میں جب عناصر کی تقسیم بندی کا لیکچر دینے کی نوبت آئے تو بچوں کو وجودِ باری تعالیٰ کی صفات سمجھانے کیلئے دلیلِ نظم کے طور پر اسے بیان کریں۔ ا س طرح سے بچے نہ صرف جدید علوم سیکھیں گے۔ بلکہ وہ پکے موحد بھی بنیں گے۔

ابتدائی سطح کے بعد جب تخصص کی نوبت آئے تو بچوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اگر چاہیں توآیاتِ الٰہی سے متعلق علوم میں سے کسی میں تخصص کریں یا احکامِ الٰہی سے متعلق علوم میں۔ اس طرح ہماری نئی نسل جدید تقاضوں سے ہم آہنگ الٰہی نظامِ تعلیم سے مستفید ہونگے۔ اس کیلئے نہ صرف نصاب میں نظر ثانی کی ضرورت ہے بلکہ اساتذہ کی بھی اسی نہج پر تربیت کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ میں اپنے ما فی الضمیر کو آپ تک پہنچانے میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے بہتری کی امید کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔ والسلام علیکم

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button