یہ فروری ۱۹۷۴ء کی بات ہے میں مولانا کوثر نیازی مرحوم کے جریدے ہفت روزہ شہاب لاہور سے بطور منیجر منسلک تھا۔مولانا صاحب ان دنوں بھٹو حکومت میں وزیر اطلاعات تھے ۔شہاب کبھی بہت معروف ہفت روزہ تھا۔ مولانا صاحب پرنٹر پبلشر اور نذیر ناجی ایڈیٹر تھے۔پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو مولانا اسلام آباد جا بسے۔ ناجی صاحب پارٹی کے آرگن روزنامہ مساوات سے منسلک ہو گئے۔ اخبار پی آئی ڈی کی میڈیا لسٹ میں شامل تھا ۔ مولانا صاحب وزیر اطلاعات بن گئے تو فیصلہ کیا گیا کہ شہاب کی اشاعت ،چاہے ڈمی کی صورت سہی ، جاری رکھی جائے۔ اور حکومتی اشتہارات کی اشاعت سے استفادہ کیا جائے۔ روزنامہ مشرق کے چیف اکاؤنٹنٹ سید مسوود علی شاہ صاحب مولانا صاحب کے دوست بھی تھے اور مشیر بھی۔ انہوں نے مجھے مولانا صاحب کے پاس بھیج دیا۔ ناجی صاحب کی موجودگی میں ان سے بات چیت ہوئی اور مینیجر کی ذمہ داریاں مجھے سونپ دی گئیں۔ نذیر ناجی صاحب مجھے پہلے سے جانتے تھے ۔ ہم اخبارخواتین کراچی اور ویکلی مصور لاہور میں اکٹھے رہ چکے تھے۔شعبہ کتابت میں دو صاحبان پہلے سے موجود تھے جبکہ ایڈیٹر کی جگہ خالی تھی۔ مولانا صاحب سے مشورہ کرکے گلزار آفاقی کو ایڈیٹر بنا دیاگیا۔ اخبار کو چھپواکر مارکیٹ تک پہنچانا بھی میری ذمہ داری تھی۔اخبار چھپتا رہا ۔کچھ اشتہار حکومت کے مل جاتے تھے۔ احاطہ میلا رام میں روزنامہ مساوات کے قریب واقع دفتر کا کرایہ، کاغذ اور چھپائی کے اخراجات، سٹاف کی تنخواہیں نکل آتی تھیں۔کچھ عرصہ بعد مولانا صاحب نے اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے اخبار کی طرف توجہ دینی با لکل چھوڑ دی۔ہم اخبار کوکسی نہ کسی طرح گھسیٹتے رہے۔گلزار آفاقی کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ملازمت مل گئی تو وہ چھوڑ کراسلام آباد چلے گئے۔
ایڈیٹر کی جگہ کسی کا نام تو دینا تھا چنانچہ اسد مفتی ، جو میرا نیا نیا دوست بنا تھا، سے پوچھ کر اس کا نام بطور ایڈیٹر دے دیا۔اسی طرح ایک دوسرے دوست جاویدپاشاکو فوٹو گرافربنا دیا۔ تنخواہ ان دونوں کی کوئی نہیں تھی۔ ہما را ایک مشترکہ بزنس مین دوست میاں سعید مقصودہمارے پاس آتا جاتا تھا۔ہماری شامیں اکثر اکٹھی گزرتی تھیں۔ ایک شام ٹورسٹ کی حیثیت سے جہاں گردی ، خصوصا یورپ جانے کی بات چل نکلی۔سب جیسے تیار بیٹھے تھے فورا راضی ہو گئے۔لہٰذا پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کا کام سعید کو سونپا گیا ۔ اسے اس سلسلے میں معلومات جمع کرنے کے لئے کہا گیا.
آگے بڑھنے سے پہلے میں اپنا اور اپنے دوستوں کا مختصر سا تعارف کرواتا چلوں۔میرا نام محمد ذاکر خان ہے۔ہفت روزہ شہاب سے پہلے میں مصور ویکلی نامی فلمی جریدے میں بطور منیجراور اکاؤنٹنٹ کام کرتا تھا۔اس سے قبل روزنامہ مشرق لاہور ، ، ہفت روزہ اخبار خواتین کراچی سے وابستہ رہ چکا تھا۔ اخبارات میں کام کرنے کا آغاز 1962میں روزنامہ کوہستان لاہورسے ہوا۔
جاوید پاشا سے میری دوستی کب اور کیسے ہوئی مجھے یاد نہیں ۔ جن دنوں اس سے ملاقات ہوئی وہ لاہور آرٹس کونسل کا فوٹوگرافر تھا۔کونسل کے زیر اہتمام جو ڈرامے سٹیج ہوتے تھے وہ ان کی تصویریں بناتا تھا ۔ آرٹس کونسل کو جو تصاویر پسند آتیں وہ لے لیتی اور ادائیگی کر دیتی۔ کچھ اداکار خرید لیتے کچھ یاروں دوستوں کو دے دیتا۔ اس کے پاس رولی فلیکس کیمرہ تھا ۔ ان دنوں تقریباتمام پریس فوٹوگرافر یہی کیمرہ استعمال کیا کرتے تھے۔ پاشا میرا بہت پیارا دوست تھا اور ہے ۔ اس کی شخصیت ہے ہی محبت کے قابل۔
میاں سعید مقصود (جسے ہم سب وڈا بھا کہتے تھے ، عمر میں بھی ہم تینوں سے بڑا تھا)اور اسد مفتی سے میری جان پہچان پاشا کی وساطت سے ہوئی۔ سعید کے والد میاں مقصود نیون سائین بنا تے تھے اور اچھا کماتے تھے۔ سعید کاتعلق کھاتے پیتے گھر سے تھا۔ اس کے پاس گاڑی تھی جبکہ ہمارے پاس سائیکل بھی نہیں تھی۔وہ بھی میری طرح شادی شدہ تھا لیکن اس کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ وہ مے نوشی کا عادی تھا اوربلا نوش تھا۔ اسکی یہ عادت ہم لوگوں پر بھی کچھ کچھ اثر انداز ہو رہی تھی ۔سعید بہت بڑے دل کا مالک اور یار باش تھا۔ ہمیشہ دوستوں کے کام آتا ۔اسے بڑا بننے بڑا کہلانے کا بہت شوق تھا۔ بھا وڈا کہلانا اسے بہت اچھا لگتا تھا۔
اسد مفتی ایک متوسط دینی گھرانے سے تعلق رکھتا تھالیکن خود دہریہ تھا۔ بزعم خود انقلابی شاعر اور صحافی تھا۔ بہت کج بحث اور جھکی۔ایک پیگ چڑھا لیتا تو اپنے آپ کو لینن اور ماؤزے تنگ سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ سرخ انقلاب کی باتیں کر کے ہمارا دماغ کھا جاتا تھا۔ ہماری اکثر اس سے تو تکار ہو جاتی تھی۔بہت کمینہ، کنجوس اور خو د غرض تھا مفتی۔ پلے سے کم ہی کچھ خرچتا تھا۔مفتی کو فلموں کا ہدایت کار بننے کا بے حد شوق تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ہدایت کار بن گیا تو فلمی دنیا میں سرخ انقلاب لے آئے گا۔وہ لاکھوں میں ایک اور ناگ منی کی فلمبندی کے دوران رضا میر کا اسسٹنٹ بھی رہا ہے۔ حمید اختر مرحوم اور آئی اے رحمان اس کے آئیڈیل تھے۔ مفتی کو ادبی شخصیات مثلاٌ امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی وغیرہ کے لطیفے گھڑ کر سنا نے کا بہت شوق تھا۔ ٹیلی وژن میں اس کے بہت سے ہم خیال دوست پروڈیوسر تھے جنھیں اپنے ماہرانہ مشوروں سے نوازتا رہتا تھا۔ مفتی اردو کے علاوہ پنجابی میں بھی شاعری کرتا ہے۔ پنجابی زبان کی ترویج و ترقی کا دل سے حامی ہے۔فخر زمان جو اس سلسلے میں بہت کام کر رہے ہیں ، مفتی کا دوست ہے۔ مفتی پاکستان اور ہندوستان میں پنجابی زبان پر ہونیوالی تقریباٌ تمام کانفرسوں میں شریک ہوتا ہے۔
تقریبا ایک ہفتہ بعد سعید نے ہمیں بتایا کہ سب سے پہلے ہم سب وی آنا چلیں گے۔کیونکہ اس کے بچپن کا دوست جلیل وہاں ہے ، جس کے پاس ہم ٹھہر سکیں گے۔پھر کچھ دنوں بعد موقع محل دیکھ کر جہاں جانا چاہیں گے چلے جائیں گے۔طے یہ پایا کہ سعید ہمیں اپنی گاڑی میں لے جائے گا۔سفر کے اخراجات آپس میں بانٹ لینے پر اتفاق ہو گیا۔
سب سے پہلے پاسپورٹ بنوانے کی لئے تصویریں کھچوائیں ۔ پاشا ہمیں ایک جاننے والے کے سٹوڈیو لے گیا۔ پھر فارم بھرے گئے اور پاسپورٹ آفس میں جمع کروائے گئے۔چند دنوں بعد پاسپورٹ مل گئے۔ ان دنوں ہمیں ہر ملک کا ویزہ درکار نہیں ہوا کرتا تھا۔ راستے میں آنے والے ممالک میں سے ایران اور بلغاریہ کے ویزے لگوانے ضروری تھے۔ایران کے ویزے کا حصول مشکل تھا لیکن کچھ تگ و دو کے بعد مل گیا۔بلغاریہ کا ویزہ استنبول (ترکی)سے لگ سکتا تھا چنانچہ وہیں پہنچ کر لگوانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے ضروری چیز تھی زر مبادلہ کی صورت میں زاد راہ۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے صرف دو سو امریکی ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔اسٹیٹ بنک یہ دو سو ڈالر بہت ٹھونک بجا کر دیتا تھا۔آج کل کی طرح دوکانوں ، کھو کھوں پر ملک کا قیمتی زر مبادلہ رلتا نہیں پھرتا تھا۔ڈالر ان دنوں غالبا دس روپے کا تھا۔ دو سو ڈالر دو ہزار روپوں کے تھے اور ہم جیسے سفید پوشوں کیلئے یہ ایک خطیررقم تھی، جس کا بندوبست کرنا مجھے، پاشا اور مفتی کو خاصا مشکل لگا تھا۔سعید تو مالدار تھا اس کیلئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ مفتی کو بھا سعید نے سپانسر کرلیا جبکہ میں اور پاشا نے نجانے کیسے جوڑی یہ رقم پر جوڑ ہی لی۔
میں اور سعید شادی شدہ تھے ۔ باقی دونوں ابھی ازدواجی بندھنوں سے آزاد تھے۔میں الحمد للہ صاحب اولاد تھا ۔ دو بچیوں اور ایک بیٹے کا باپ تھا۔دونوں بیٹیاں سات اوردو سال کی ، بیٹاپانچ سال کا تھا۔سعید بے اولادتھا۔اپنی ذمہ واریوں کے باوجود میں ملک سے باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔والد صاحب اور سسرال والوں نے سمجھایا بھی مگر سر پر یورپ کا بھوت سوار تھا ، کسی کی نہ سنی۔میری بیوی البتہ خاموش رہی۔ میری بیوی بہت صابر شاکر عورت ہے۔ اس غریب نے کبھی میری راہ میں روڑہ نہیں اٹکایا۔ وہ جانتی تھی میں لا ابالی اور اپنی سی کرنے کا عادی ہوں لہٰذا کچھ کہنے سننے کا کچھ فائیدہ نہیں۔میرے والد صاحب ناراض ہو گئے اور میں نا خلف ان کی خفگی کی پرواہ کئے بغیر اس لمبے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔
ہمارا سفر آغاز سے ہی مشکلات کا شکار ہو گیا۔ایران کا ویزہ صرف ایک ماہ کیلئے کار آمد تھااور نکلتے نکلتے دس دن گزر چکے تھے ۔پاشا کا ویزہ مجھ سے پہلے جاری ہوا تھا اسلئے اسے ایک ہفتہ کے اندر ایران کے بارڈر پہنچنا تھا۔ادھر سعید کی گاڑی ورکشاپ میں پھنسی ہوئی تھی۔ سعید نے کہا کہ تم اور پاشا نکل جاؤ ، میں اور مفتی تم سے آن ملیں گے۔پاشا اور میں بس کے ذریعے لاہور سے پشاور پہنچے جہاں سے ہمیں کابل کیلئے بس پکڑنی تھی۔ہم شام کو پشاور پہنچے اور آگے کی بس نے صبح روانہ ہونا تھا، مجبورا رات پشاور میں گزارنی پڑی۔ صبح بس میں سوار ہو گئے۔ زیادہ تر پٹھا ن بھائی ہمسفر تھے۔ چرس سے بھرے ہوئے سگرٹوں کے دھویں اور نسوار کی بو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔تقریباََ سات آٹھ گھنٹے میں کابل پہنچے۔ راستے میں جلال آباد کے مقام پر جب بس رکی تو زندگی میں پہلی بار چلو کباب کا نام سنا اور کھایا۔ چلو کباب چاولوں اور کباب کی ایک ڈش ہے۔ اس ڈش نے ایران ترکی کے بارڈر تک پیچھا نہیں چھوڑا۔
کابل اس زمانے میں کھنڈر نہیں تھا۔ بڑا پر رونق اورروشنیوں سے منور شہر تھا۔ سیاحوں کی بھرپور توجہ کا مرکز تھا۔ پاکستان سے لوگ وہاں زیادہ تر ہندوستانی فلمیں دیکھنے، سمگل شدہ غیر ملکی کپڑااورالیکٹرانکس کا سامان خریدنے جاتے تھے۔ ہندوستانی فلموں کی نمائش پاکستان میں ممنوع تھی۔ رات کابل کے ایک نہایت گھٹیا ہوٹل میں بسر کی اور صبح ہرات کے لئے روانہ ہو گئے۔ اگر اس طرف کابل کا شہر طورخم کے قریب ہے تو ادھر ہرات بلوچستان کے شہر چمن سے متصل ہے۔ سفر کافی لمبا تھا ۔ بس سے تقریبادو تین روزلگ جاتے تھے کیونکہ بس والوں نے اپنی مرضی سے جہاں چاہے ٹھہرجانا ہوتا تھا۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ایران جانے کیلئے کس کا ویزہ کارآمد ہے اور کس کا ویزہ ختم ہو رہا ہے۔چھوٹے چھوٹے شہروں کے علاوہ راستے میں قندھار بھی آیا جہاں ہم رات گئے پہنچے اور کافی دیر رکے۔قصہ مختصرصبح کے وقت ہم ہرات پہنچ گئے لیکن دیر ہو چکی تھی۔پاشا کو ایران کی سرحدی چوکی بازرگان سے لوٹا دیا گیا۔اسے اب واپس کابل جانا تھا تاکہ ویزہ کی تاریخ بڑھائی جا سکے۔ چونکہ میرے ویزہ کی تاریخ بھی ختم ہونے والی تھی اس لئے میں نے اکیلے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ یہ خود غرضی تھی۔ اخلاقاً مجھے پاشا کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیئے تھا۔لیکن یورپ پہنچنے کے شوق میں نہ کچھ سوچا نہ سمجھا ، بس پاشا کو پیچھے چھوڑ ا اور آگے چل دیا۔
ایران کی سرحدی چوکی بازرگان پر تمام مسافروں کے سامان کی بڑی سخت چیکنگ ہوئی اورجامہ تلاشی بھی لی گئی۔کسٹم اور امیگریشن سے فراغت کے بعدہمیں کچھ دیر قرنطینہ میں رکھا گیا۔ میرے ساتھ ٹیکساس امریکہ کے دومسافر ایسے بھی تھے جو پاکستان اور افغا نستان صرف اور صرف حشیش سے لطف اندوز ہو نے آئے تھے۔ ایران میں منشیات رکھنے پر سخت پابندی تھی ۔ کسی قسم کی بھی منشیات بر آمد ہونے پر موت کی سزا ہو سکتی تھی۔ اتنی سختی کے باوجودایک امریکن نہ جانے کس طرح، کونسی خفیہ جگہ چھپا کر حشیش نکال لایا ۔میں تو اتنا خوفزدہ ہوا کہ بس میں ان سے دور جاکر بیٹھ گیا اور تہران تک سفر کے دوران ا ن کے قریب بھی نہیں پھٹکا۔ تہران پہنچ کر ہم جدا ہو گئے اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی۔ فرح دیبا ان کی ملکہ تھی۔ یہ شاہی جوڑا پاکستان کے دورے پر آچکا تھا۔ 1979 کے خمینی انقلاب سے پہلے ایران ایک سیکو لر اور مغرب زدہ ملک تھا۔ ایرانیوں کی اکثریت رضا شاہ پہلوی سے نالاں تھی۔ اس کے دور میں مراعات یافتہ لوگ مزے میں تھے جبکہ عوام پسی ہوئی تھی۔آیت اللہ خمینی نے اسلامی انقلاب کا نعرہ لگایا تو اکشریت اس کی ہم نوا ہو گئی۔ شاہ نے خمینی کو ملک بدر کردیا ۔ خمینی نے فرانس میں بیٹھ کر اس تحریک کو رواں دواں رکھا اور بالآخر کامیاب ہوکر ۱۹۷۹ میں واپس آ یا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد رکھی۔
تہران کا موسم خاصہ خنک تھا۔ میں نے سویٹر نکال کر پہن لیا۔ تہران ایک خوبصورت شہر تھا۔ کشادہ سڑکیں، بلند و بالا عمارتیں اسکی دلکشی میں اضافہ کا باعث تھیں۔یہاں ایک بنک سے میں نے اپنا ایک ٹریولرز چیک بھنایا تاکہ آگے جانے کا کرایہ ہو جائے اور دیگر سفری اخراجات پورے ہو سکیں۔ تہران کی سڑکوں کے کنارے زمین پر فروخت کے لئے رکھے ہوئے رنگین پوسٹر دیکھ کر میں حیران پریشان ہو گیا۔ ان پوسٹرز میں ایسی ہستیوں کی شبیہ چھپی ہوئی تھیں جن کا نام بھی ہم با وضو ہو کر لیتے ہیں۔میں ان کا نام یہاں بتا بھی نہیں سکتا۔ایک چائے خانے میں ایک کپ قہوہ کا پیا۔ قہوہ پھیکا پیش کیا گیا۔ اگر آپ میٹھے کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو میز پر پہلے سے موجود چینی کی ڈلی کو منہ میں ڈال کر قہوے کا گھونٹ بھر لیں اور لطف اندوز ہو لیں۔
ایک سنیما گھر کے پاس سے گزرا اور اس کے نیم وا دروازے سے اندر جھانکا تو گریگری پیک کو روانی سے فارسی بولتے دیکھ کر مزید حیران ہوا تہران سے مجھے ترکی کے سرحدی شہر ارزروم پہنچنا تھا۔ پوچھتا پاچھتا بسوں کے اڈہ پہنچا جہاں سے پہلی دستیاب بس پر سوار ہوگیااوربراستہ مشہد ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد ارزروم پہنچ گیا۔ایران ترکی سرحد پر امیگریشن سے فارغ ہو کر مسافر ارزروم پہنچے تو شام کا جھٹ پٹا تھا۔ بھوک سے برا حال تھا۔ ایک ریسٹو رنٹ سے زندگی میں پہلی بارگرما گرم شوارما کھایا۔
جمہوریہ ترکی ماضی میں ایک عظیم الشان عثمانی سلطنت کا صدر مقام تھا۔ جس کی حکومت عالم میں چہار سو پھیلی ہوئی تھی۔عثمانی سلاطین عثمان اول تا عبد الحمید دوم نے 1299سے 1922 تک آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کی۔ بعد میں مصطفی کمال پاشا نے عوام کی بھرپور حمایت سے تحریک چلا کر ترکی کو جمہوری ملک کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا۔اور اتا ترک یعنی ترکوں کا باپ کہلایا۔ دارالخلافہ استنبول سے انقرہ منتقل کر دیا گیا۔اور ملک میں جمہوری طرز حکومت قائم ہوئی۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے اپنا سفر بغیر کسی تعطل کے مسلسل جاری رکھا۔ نیند بسوں میں سو کر پوری کرلی۔ کہیں رکا نہیں۔یورپ دیکھنے کا شوق اتنا حا وی تھا کہ کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں رہا۔ ارزروم سے استنبول کیلئے بس پکڑی۔ راستے میں ہمسفر ترک باشندوں کو جب معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے ہوں تو ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔قریب بیٹھے سب لوگوں نے مجھ سے مصافحہ کیا۔پاکستان ترکی کردش(بھائی) کے نعرے لگائے ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں۔ترکی کے دارالخلافہ انقرہ سے گزر کرمیں دوسرے روز علی الصبح استنبول میں تھا۔
استنبول جمہوریہ ترکی کا دوسرا بڑا شہر ہے۔استنبول کو کانسٹن ٹی پول (Constantipole) اور قسطنطنیہ کے ناموں سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔ یہ عظیم
عثمانی سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔ یہ شہر نصف ایشیا اور نصف یورپ میں واقع ہے جسے آبنائے باسفورس نے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔شہر کے دونوں حصوں کو آمدورفت کے لئے سمندر پر تعمیر شدہ ایک بہت بڑے پل کے ذریعہ ملا دیا گیا ہے جبکہ سفر کے لئے فیری اور کشتیوں کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ قدیم و جدید روایات کا آ ئینہ دار یہ خوبصورت شہر سیاحوں کی توجہ کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں درجہ پر ہے۔استنبول کی پر شکوہ مساجد میں سلیمانیہ مسجد، سلطان احمد مسجد اور مسجد ایا صوفیہ قابل ذکر ہیں۔عظیم ٹوپکاپی محل اب ایک میوزیم ہے اور اسکا شمار دنیا کے عجائبات میں ہوتا ہے۔استنبول کے مشہور زمانہ چھتے ہوئے گرینڈ بازار بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
استنبول میں قیام ضروری تھا کیونکہ بلغاریہ کا ٹرانزٹ ویزہ لگوائے بغیر آگے کا سفر ممکن نہ تھا۔رات بسر کرنے کیلئے ایک سستا سا ہوٹل ڈھونڈا۔اس زمانے میں باہر جاکر نوٹ کمانے کی جوت سبھی کے دلوں میں جگی ہوئی تھی۔ استنبول میں ہمارے پاکستانی بھائی جا بجا نظر آ رہے تھے۔ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ جیب پاکٹ سے ہوشیار رہنا۔ ہمارے اکثر بھائی نوسر بازی سے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اگلے روز بلغاریہ قونصلیٹ پہنچے تو لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ میری باری بھی دوپہر کو آگئی اورمقررہ فیس ادا کر کے ٹرانزٹ ویزہ مل گیا۔
آگے سفر کیلئے استفسار پر معلوم ہوا کہ اورئینٹ ایکسپر یس Orient Express))نامی مشہورزمانہ ٹرین جس پر اگاتھاکرسٹیAgatha Christi کے ناول پر مبنی مرڈرآن دی اورئینٹ ایکسپریس (Murder on the Orient Express)نامی فلم بھی بن چکی ہے، یہیں سے چلتی ہے جو لندن تک جاتی ہے۔لیکن اس کا کرایہ میرے بجٹ سے باہر تھا۔ بتایا گیا بس بھی جاتی ہے جس کا کرایہ کافی کم ہے۔ چونکہ بس پکڑنے کا وقت نہیں رہا تھا اس لئے شہر کا نظا رہ کرنے کی ٹھانی۔پیدل گھومتا ہوا مسجد سلطان احمد پہنچ گیا ۔ ظہر کا وقت تھا نماز بھی پڑھی اور مسجد بھی دیکھ لی۔نہایت عالیشان اور خوبصورت مسجد ہے۔پھر ٹاپکاپی(Topkapi) میوزیم چلا گیا۔ یہ کبھی ترکی کے سلاطین کا محل ہوا کرتا تھا جسے اب میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہاں بڑے قیمتی نوادرات دیکھنے کو ملے ۔
اگلے روز بس کی تلاش میں نکلا۔ریلوے سٹیشن کے پا س ایک بس کھڑی تھی۔ بس والے سے پوچھا کہاں جا رہے ہو۔جواب ملا میونخ جرمنی۔ میں نے کہا مجھے بھی جانا ہے۔کہنے لگا ٹکٹ لے لو. پوچھا کب جانا ہے۔ کہنے لگابس کچھ دیر میں۔میں نے کہا ہوٹل سے اپنا سامان لے آؤں۔ کہنے لگا لے آؤ۔ تمھارا انتظا ر کر کے نکلیں گے۔ میں جلدی جلدی گیا اور سامان لے کر آ گیا۔سامان بس میں رکھ دیا گیا اور مجھ سے کہا گیا ٹکٹ کے پیسے ادا کرکے بیٹھ جاؤ بس میں۔ میں نے پیسے ادا کئے اور بیٹھ گیا ۔لوجی صبح کا بیٹھا شام ہو گئی بس وہیں کھڑی رہی۔بس میں اکیلا میں ہی تھا۔ڈرائیور کنڈکٹر بھی نظر نہیں آرہے تھے۔میں پریشان ہو کر کبھی بس سے اترتا اور کبھی چڑھتا۔ ایک بھلا مانس شاید کافی دیر سے سے مجھے دیکھ رہا تھا میرے پاس آیا اور اشاروں کنایوں میں بتایا کہ بس کل جائے گی تم بیٹھے رہو۔ رات اسی بس میں گزارلو۔ مرتا کیا نہ کرتا چپ کر کے بس میں جا لیٹا۔اس دوران بن اور پنیر کھا کر گزارہ کیا۔صبح ہو گئی لیکن روانگی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ بس سے اتر کر قریبی گلیوں بازاروں میں گھوم پھر لیتا اور جلدی سے واپس آجاتا اس ڈر سے کہ کہیں بس میرے بغیر ہی نہ نکل جائے۔ قصہ مختصرآ خر کار دو راتوں اور تین دنوں کے بعد بس میونخ کیلئے روانہ ہوئی۔
بلغاریہ ، یوگو سلاویہ سے گزر کر آسٹریا کے بارڈر پر پہنچ گئے۔ کسی چیکنگ کے بغیر بلا روک ٹوک آسٹریا میں داخل ہوگئے۔ ہٹلر کی جنم بھومی سالزبر گ (Salsburg)سے ہوتے ہوئے جرمنی میں دا خل ہو گئے۔ بارڈر پر روک کر سامان کی چیکنگ کی گئی۔میرے سامان میں ہمدرد کی کارمینا نکل آئی۔ انہیں یہ کوئی مشکوک چیز لگی۔ سمجھے چرس ہے۔ چوکی کے کما ندار نے اپنے دفتر میں بلا لیا۔ پوچھا کیا ہے یہ۔ عرض کیا جناب پیٹ کی خرابی کی دوا ہے۔ تھوڑی دیر سوچا پھر فرمایاتم جاؤ ہم اسے رکھیں گے۔جان بچی سو لاکھوں پائے۔ کارمینا کی شیشی کی کیا اہمیت تھی۔ ایک بار تو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ سفر بس یہیں ختم ہواچاہتاہے۔ واپس لوٹا د یا جاؤں گا پاکستان کو۔ بس میں سوار ہوئے تو ساتھی مسافروں نے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔ساتھی مسافر تقریباًسارے ترک بھائی تھے جو جرمنی میں کام کرتے تھے اور چھٹیاں گزار کر اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر جا رہے تھے۔ جرمنی ترکوں کے لئے اپنے ملک جیسا تھا۔ ہزاروں ترک جرمنی میں مہمان کارکن تھے (جرمنی میں غیر ملکی کام کرنے والوں کوGuest Arbeiterکہتے ہیں جسکا ترجمہ میں نے مہمان کارکن کیا ہے)۔
میونخ پہنچ کر بس سے اتار دیا گیا۔سامان جو بستربند میں بندھے ایک کمبل،ایک گدے،دو چادروں ، ایک تکیے اور سوٹ کیس پر مشتمل تھا کافی بھاری تھا اور مجھے اسے با قاعدہ گھسیٹنا پڑتا تھا۔میں پچھتاتا تھا کہ اتنا بھاری سامان لیکر کیوں نکلا لیکن گھر والوں کے پرزور اصرارپر ایسا کرنا پڑا۔انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ بھاری سامان میرے لئے وبال جان بن جائیگا۔
سامان ریلوے سٹیشن پر لوکر میں رکھا اور ادھر ادھر گھومتارہا۔ اگر کوئی واقف کار باویریا کے اس مرکزی شہر میں مل جاتا تو میں یہیں ٹک جاتا۔لیکن اجنبی دیس، اجنبی زبان کی وجہ سے مجھے یہاں ٹھہرنے کی ہمت نہ ہوئی۔بیلجیم (Belgium)جانے کی ٹھانی۔ بیلجیمجانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میرے پاس ایک عزیز کا دیا ہوا حوالہ تھا۔ان کا واقف کار برسلز(Brussels) میں رہتا تھا ۔ میرے عزیز کا کہنا تھا کہ اگر میں وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تو وہاں رہنے سہنے، کام کاج ڈھونڈنے میں ان صاحب کی وجہ سے آسانی ہو جائیگی۔چنانچہ اگلی ٹرین میں سوار ہو گیا۔
جرمن ریلوے Bundes Bahn Deutsche کی ریل گاڑی کیا شاندار گاڑی تھی۔ صاف ستھرے کھلے ڈھلے ڈبے۔ بہترین پوشش والی نشستیں۔نہ دھکم پیل، نہ رش نہ شور۔ میں سامان سمیت ایک ڈبے میں براجمان ہو گیا۔گاڑی نہایت ہموار رفتار سے چل رہی تھی۔ نہ جھٹکے نہ ہچکولے۔ہر ڈبے میں ہرنشست پر ایک چھپا ہوا کاغذپڑا ہوا تھا جس پر تمام آنے والے سٹیشنوں کے نام اور وہاں پہنچنے کا وقت درج تھا۔ میں چیک کرتا رہا جس سٹیشن پر بھی گاڑی رکی اس کی گھڑیوں میں وقت وہی تھا جو اس کاغذ پر چھپا ہوا تھا۔ وقت کی اسقدر پابندی میرے لئے حیران کن تھی۔دوران سفر میرے ڈبے میں کوئی مسافر نہیں آیا۔ گاڑی چونکہ خالی تھی اسلئے سب نے الگ الگ ڈبوں میں تنہا بیٹھنے کو ترجیح دی۔مغربی ممالک میں لوگ اجنبیوں خاص کر غیر ملکیوں سے اجتناب برتتے ہیں۔
جرمن سرحدی شہر آخن (Achen)پر جب گاڑی رکی تو بیلجیم کے دو امیگریشن افسر سوار ہو گئے اور پاسپورٹ چیک کرنے لگے۔میرا پاسپورٹ بھی چیک ہوا۔مجھ سے پوچھا کہ برسلز میں کہاں ٹھہرونگا۔ میں نے ایک کاغذ پر لکھا پتہ دکھایاتو مزید کچھ پوچھے بغیر آگے چل دئے۔
بیلجیم مغربی یورپ میں واقع ہے۔کبھی بیلجیم ، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ، یونائٹیڈ کنگ ڈم آف نیدرلینڈ کے نام سے ایک ہی بادشاہ کے تحت ہوا کرتے تھے۔ اتحا د لسانی جھگڑوں کی وجہ سے ختم ہوا اور تین الگ الگ مملکتیں وجود میں آگئیں۔بیلجیم کی سرحدیں فرانس ، لکسمبرگ، جرمنی اور نیدرلینڈ سے ملتی ہیں۔ جبکہ انگلینڈ اور اس کے درمیان بحیرہ شمالی اوقیانوس حائل ہے۔یہاں کی دو قومی زبانیں ہیں، فرانسیسی اور فلیمش ۔ یہاں کے قانون کے مطابق پورے ملک میں تمام سائن بورڈ دو زبانوں میں لکھے جاتے ہیں۔جرمنی سے ملحقہ کچھ علاقہ میں جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ بیلجیم میں اب بھی بادشاہت قائم ہے لیکن برطانیہ کی طرح یہاں بھی ملک کا نظم و نسق پارلیمانی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے۔ آج کل برسلز یورپی یونین کا صدر مقام ہے۔
کچھ دیر میں برسلز کا سٹیشن آ گیا۔سامان لوکر میں رکھ کر چابی لی اور سٹیشن سے باہر نکل آیا۔بھوک محسوس ہو رہی تھی۔تھو ڑا آ گے بڑہا تو ایک چھوٹا سا ہوٹل نظر آ گیا۔ اندر پہنچا تو دیکھا کہ عربی جیسے لوگ بیٹھے کھا پی رہے ہیں۔ یہ الجزائریوں کا ہوٹل تھا یعنی کھانا حلال تھا۔ کھانے کے لئے بہت کچھ تھا۔ لیکن نہیں جا نتا تھاکہ کیا کھاؤں۔ پھر جیب میں ڈالر بھی کم رہ گئے تھے۔ویٹر سے پوچھ پاچھ کر ایک ڈش سمجھ میں آئی۔دال جیسے کسی سالن میں توڑی ہوئی روٹی۔ ڈرتے ڈرتے پہلا چمچ لیا تو بے حد مزیدار تھا۔خوب پیٹ بھر کے کھایا۔ریستو ران میں ٹیلی ویژن پر خبریں چل رہی تھیں جن میں ایک خبر پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خان کی وفات کی بھی تھی۔سن کر بہت ملال ہوا۔
ایوب خان کا دور پاکستان کا سنہری دور تھا۔ ملک میں صنعتوں کے جال بچھادئے گئے تھے۔ ضرورت کی اشیاء ارزاں تھیں۔گراں فروش اپنی من مانی نہیں کرپاتے تھے۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے تحریک چلا کرایوب خان کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اس کے بعدہمارا ملک بدحالی اور معاشی ابتری کے قعر مذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا گیا۔بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر الیکشن جیتا اور حکومت بنا لی۔تمام بڑی صنعتیں حکومت نے چھین لیں اور بیوروکریٹس کے حوالے کر دیں جو لوٹ کھسوٹ کر سب کچھ کھا گئے۔ ملک کنگال ہو گیا، غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور آج تک اس دلدل سے نکل نہیں سکا۔ بعد میں آنے والوں نے حکمرانی کو ایک کاروبار بنا لیا۔ دولت کے انبار ہتھیاکر سوئز بنکوں میں ڈھیر لگا دیے۔ بیرون ملک اپنی اولاد، اعزاء و اقرباء کو سیٹ کیا، جائیدادیں بنالیں اور پشت در پشت کئی نسلوں کا مستقبل سنوار دیا۔ یہ جو کرتے ہیں قوم کی خدمت کا دعوا، جمہوریت کے نام پر پاکستانی عوام کا خون چوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔
کھانا کھا کر دوست کے دئے ہوئے پتے کی تلاش میں نکلا ۔پوچھتا پچھاتا پہنچ گیا۔ بہت ہی پوش علاقہ تھا ۔ اونچی اونچی عمارتوں میں بڑے بڑے اپارٹمنٹ تھے۔ یعنی جس کے پاس آیا تھا وہ ٹھیک ٹھاک بندہ تھا۔ان کے گھر سے بتایا گیا کہ وہ تو اپنے موٹروں کے شوروم واقع واٹرلو(Waterloo) میں ملیں گے۔ ان سے پتہ لیکر میں واٹرلو کی طرف روانہ ہوا۔ برسلز سے وہاں تک ٹرام جاتی تھی۔
واٹرلو ایک تاریخی جگہ ہے۔ یہاں نپولین بونا پارٹ کو شکست ہوئی تھی اور اسے گرفتار کرکے قید خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ میں شو روم پہنچ گیا۔ وہاں نئے ماڈلز کی مرسیڈیز، والوو، آوٓڈی، بی ایم ڈبلیوکھڑی ہوئی تھیں۔ پاکستان میں ایسی لگژری گاڑیاں بہت کم نظر آتی تھیں۔ ان صاحب سے ملا قات بھی ہو گئی۔وہ کراچی کے خوجہ تھے۔ انہوں نے پوچھا میرے پاس کس نے بھیجا ہے آپ کو۔ بھیجنے والے کا نام بتایا۔ پھر پوچھا کیسے جانتے ہو انہیں۔ میں نے بتایا دور نزدیک کے رشتہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا ابھی چلے جاؤ شام کو فلاں جگہ آجانا۔واپس برسلز پہنچ کر دال روٹی سے پیٹ بھرا۔ کچھ دیر بیٹھا تو شام ہو گئی۔ کراچی والے صاحب کو ملنے نکلالیکن نجانے کیوں وہاں جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔ہوٹل سے نکل کر چند قدم ہی چلا ہونگا کہ اذان کی آواز سنائی دی۔ہوٹل کے برابر ہی میں الجزائریوں نے ایک کمرے میں باجماعت نمازادا کرنے کی جگہ بنائی ہوئی تھی۔ با قاعدہ مسجد بنانے کی اجازت شاید ان دنوں نہیں تھی۔میں نے وضو کیا مغرب کی نمازادا کی اور ہوٹل لوٹ آیا۔ یورپ میں یہ میری پہلی اور آخری نماز تھی۔ بیلجیم میں الجزائری بہت ہیں وجہ یہ ہے کہ الجزائر کسی زمانے میں بیلجیم کی نو آبادی تھا۔ ہوٹل والوں سے ایک سستے سے کمرے کا سوال کیا۔ انہوں نے سب سے اوپر کی منزل پر ایک کمرہ نما ڈربہ دے دیا۔ غنیمت تھی رات گزارنے کے لئے جگہ مل گئی۔ سٹیشن سے سامان اٹھا لا یا اور سر پہ لاد کر اوپر کمرے میں پہنچا ۔بستر بند سے اپنا بستر نکال کر زمین پر بچھالیا اور سو گیا۔ کئی دنوں سے پوری نیند نہیں سو پایا تھا لیٹتے ہی گہری نیند سو گیا۔صبح دیر سے اٹھا۔ نیچے آیا وہی دلیہ نما دال میں بھیگی روٹی کھائی اور باہر نکل گیا۔
شاید اتوار کا دن تھا ، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ دکانیں بھی بند تھیں۔جدھر کو منہ اٹھا چل دیا۔ قریب سے شوروغل کی آواز آئی تو اسطرف چل پڑا۔ایک بہت بڑے سٹیڈیم میں فٹ بال میچ ہو رہا تھا۔ سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔لوگ بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ میچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔میں آگے بڑھ گیا۔ کچھ فاصلہ پر ایک اتوار بازار لگا ہوا تھا۔لوگوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی دکانیں سجائی ہوئی تھیں۔ہر طرح کے سٹال تھے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء تھیں ۔ برگر اور ہاٹ ڈاگ بھی بک رہے تھے۔اچھی خاصی رونق تھی۔ یہ بازار پیشہ ور کاروباریوں نے نہیں سجایا تھا بلکہ خانہ دار خواتین، طالب علم، دفتری بابو اور دوسرے ملازم پیشہ لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس اتوار بازار میں اپنی دوکانیں سجا ئے بیٹھے تھے۔یورپ کے تقریباً تمام ممالک میں اس قسم کی صحت مند معاشی اورمعاشرتی سرگرمیاں عام ہیں۔
-
جاری ہے
ایک کمنٹ