تحریر: ڈاکٹر صغرا صدف
پاکستان ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ جس میں مختلف رنگوں کے پھول مخصوص کلچر کی علامت ہیں۔مختلف ہونا عیب نہیں بلکہ خوبصورتی کا مظہر ہے۔لیکن یہ بات صرف اُن پر ہی اُجاگر ہوتی ہے جو زمین کی ڈھڑکنیں سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں،جوموسموں ،پرندوں اور درختوں سے مکالمہ کرنے کا گُر جانتے ہیں،جوآتی جاتی ہواؤں سے دنیا کی خبریں معلوم کرکے اپنا رُخ متعین کرتے ہیں اوراپنی مٹی اور اپنی ثقافت کو اپنا فخر بنا کر وجود پر یوں اُوڑھ لیتے ہیں کہ اُسکی خوشبو اُنکی فکر میں سما جاتی ہے۔
گلگت بلتستان میں پہلے ادبی میلے کے انعقاد کا سہرا ڈاکٹرکاظم نیاز چیف سیکرٹری بلتستان کے سر ہے جو علمی ادبی پس منظر کی وجہ سے زبانوں کی اہمیت اور احترام سے کما حقہ آگاہ ہیں۔ یہ میلہ قراقرم یونیورسٹی کے خوبصورت ہال میں منعقد کیا گیا تاکہ شعراء ادبا ء ،دانشوروں اور لسانی ماہرین کی عمر بھر کی کمائی نئی نسل پرروشناس ہوسکے اور وہ علم کی گٹھڑی میں ادبی اور ثقافتی میراث بھی محفوظ کرلیں ۔ڈاکٹر کاظم نیاز چونکہ اپنی سابقہ ذمہ داریوں میں زبانوں کے حوالے سے کام کرچکے ہیں اس لیے انھوں نے بطور چیف سیکرٹری تعیناتی پر اس خطے کی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے اکیڈمی کے قیام کا ارادہ کیا تو پاکستان کی تمام اکائیوں میں اس مقصد کے لیے کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی سے استفادہ کرنے کے لیے خشک سیمنار کی بجائے رنگا رنگ دور وزہ ادبی میلے کا انعقاد کیا۔گلگت بلتستان میں پانچ مادری زبانیں بولی جارہی ہیں۔کچھ زبانوں کے بولنے والے بہت کم تعداد میں ہیں اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اُن کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ڈاکٹر صاحب کی زبان و ادب اور ثقافت سے گہری وابستگی کا عالم یہ ہے کہ وہ لسانی امور کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کی سرپرستی خود کر رہے ہیں۔ لیکن خود کوئی فیصلہ مسلط کرنے کی بجائے مادری زبانوں کی ترقی کے لیے ملک بھر میں قائم زبانوں کے سربراہوں سے مشاورت کو ضروری سمجھااور یوں میلے کی ضرورت نے جنم لیا۔جس میں براہویں اکیڈیمی کے چیئرمین صلاح الدین مینگل ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ پاکستانی زبانوں کے ڈاکٹر عبدلواحد، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پشتو کے چیئرمین ڈاکٹر اباسین یوسفزئی ، بلوچی اکیڈیمی کے ممتاز یوسف ، لوک ورثہ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فوزیہ سعید ، سندھ اکیڈیمی سندھیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر اسحاق سیمجو ،سوات سے ماہرِ لسانیات زبیر تور والی ،قراقرم یونیورسٹی شعبہ ماڈرن لینگوئجز کی اسسٹنٹ پروفیسر فوزیہ منصور اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرصغرا صدف نے Presentations کے ذریعے اپنے اپنے اداروں میں مادری زبان کے لیے کئے گئے اقدامات سے حاضرین محفل کو آگاہ کیا اور مقالہ جات کے ذریعے ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر، محکمہ اطلاعات و ثقافت، پنجاب کی طرف سے پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ ،کتب اور طالبعلموں کے لیے انعامات کی بھرپور پذیرائی کی گئی اور زبان و کلچر کی ترویج میں اس قدم کو دیگر صوبوں میں بھی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔حکومتِ گلگت بلتستان کی نیک نیتی کا یہ عالم ہے کہ لینگوئج اکیڈمی کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے سال گلگت بلتستان کی پانچ مادری زبانوں کو نصاب میں ایک مضمون کے طور پر شامل کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔وہ دن دور نہیں جب پنجاب میں بھی پرائمری سطح پر مادری زبان کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کر لیا جائے گا۔