کالمز
بشارت شفیع: گراتاس سے غارنگکیش تک کا سفر

تحریر: اعجاز شفیع
وہ بچپن سے ہی مرکز نگاہ عام و خاص تھے۔ لوگ ان کو نام سے کم اور ا نکے کردار سے زیادہ جانتے تھے۔ ان کے لیے لفظ گراتاس ( ڈانسر) زبان زد عام و خاص تھا۔ وہ ہر ساز پہ ناچتے تھے۔ دیوانہ وار ناچنا ان کو بہت پسند تھا۔ اس بات سے بےپرواہ کہ کوئی دیکھ رہا ہو کہ نہ نہیں ، موسیقی ھو یا نہ ہو، کوئی پسند کرے یا نہ کرے، لمحہ خوشی کا ھو یا غم کا۔ وہ ۔تمام وسوسوں سے بے نیاز، ۔نیازمندی اگر تھی تو صرف اتنی کہ ان کا دل خوش ھوجاے۔ سروکار ان کو اپنے دل سے تھا۔ دنیا کی پرواہ کبھی نہیں کرتا۔ خود اعتمادی ان میں کٹ کٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ بلا جھجک، بےساختہ اور فلبدیحہ بولنے کے عادی تھے۔ گھر میں اکثر انکو اس روایے پہ بڑوں سے ڈانٹ پڑتی۔ وہ کسی کو بھی نظروں میں نٰہیں لاتے تھے- اور جہان ، جب ، جو اس کے من میں آیے وہ اسی وقت ، وہی پہ اس کا مکمل اظہار کرنے کے عادی تھے۔
راقم بشارت سے عمر میں بمشکل دو سال بڑا اور جگری بھائی ہے ھمارا خاندان آبائی گاوں برکلتی چھوڑکر ھندور میں اباد ھے۔ آبو سکول ٹیچر تھے یوں ھم اسکول سے فارغ وقت بھی ایک استاد کے کنٹرول میں گزارتے- پڑھائی ھو یا نہ ھو گھر کے باغچے سے باہر نکلنا بلکل ممنوع تھا۔ اور ھمیں ھمیشہ اپنے کزنز کا انتظار رھتا تھا۔ موجب دوری ھمارے پاس ھمعمر رشتدار اکیلے مشکل سے اتے تھے اور بڑے ھمارے ساتھ مشکل سے برابراتے تھے۔ اس لیے اپنے بڑے بھایئوں امتیاز اور وزیر شفیع کیساتھ دن گزارتے تھے۔ امتیاز اوٹ ڈور کھیلوں میں دلچسپی رکھتے تھے اور وزیر بھائی ادبی سرگرمیوں مثلاٰ بیت بازی ، تقریر نویسی وغیرہ میں ھمیں مشغول رکھتے تھے۔۔ جب دونوں بھائی میٹرک کے بعد کراچی چلے گیے تو ھمارے پاس تایازاد بھائی شکور خاں اکثر اتے تھے۔ جن کی صحبت فیض میں ادبی سرگرمیوں پر کام کرنے کا موقع ملا۔۔ بشارت شفیع کا بچپن اپنے سے بڑوں کیساتھ گزرا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ، بصیرت و بصارت میں اپنے ھم عصروں اور اپنے عمر سے زیادہ بڑے لگتے تھے۔
بچپن سے لےکرلڑکپن تک بہت شریر گردانے جاتے تھے۔ اکثرلوگوں کے راے میں ؤہ مجذب المذاج انسان تھے۔1996 ء میں والد صاحب کی اصرار پر استاد محترم سید حسین شاہ کی شاگردی میں قرآن مجید کی تعلیم شروغ کی۔ جہاں نیت شاہ قلندر جیسے خوش آواز دوست کی صحبت حا صل رہی۔ اور اس کا اثر یہ ھوا کہ بشارت موسقیی اور شاعری کی طرف مائل ھوے۔
ان ایام میں ان کو دل لگی ھوئی اور اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ھوے پہلا شعر یوں کہا:
خورکے تے تپ جوآ ان گواننے بے
تیس دی نے ایتا ٍگوچھوۓ کیتا گوچھوے
(ترجمہ:اے میرے محبوب تم اپنے رویے میں بےجا لچک کوکم کرلو۔ گھاس کے پتے کے مانند نہ بن- کہ ہوا کے دوش پہ ٹہلتے جاو، اپنی مرضی کے بغیر)
یہ بشارت شفیع کا پہلا شعر تھا جو انہوں نے 1997جنوری میں لکھا تھا۔ اس وقت وہ کلاس ششم کے طالب علم تھے۔ اس شعر کیساتھ میرا گراتاس (ڈانسر) غارنگ کیش(شاعر) بھی بن گیا تھا۔ ہم سب اس شعر کے پیروڈیز بنا کر انکا مزاق اڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ بروشاسکی ادب کاایک درخشان ستارہ بنے گا اور یہ شعر بروشاسکی زبان کی تجدید نو کی طرف ایک قدم ثابت ھوگا۔
بشارت کو شعر و شاعری سے شغف انتہاے بچپن سے تھا۔ بڑے بھائی اشعار لکھ کر دیتے تھے اور ھم یاد کرتے تھے۔ بشارت کو کلاس دوم میں 500 سے زاید اردو اور فارسی اشعار یاد تھے۔ وزیر بھائی کو جج بناکر ہم بیت بزی کھیلتے جو کبھی کبھی ھفتہ بھر جاری رہتا۔ عمر اور ایجوکیشن میں سینیر ھونے کیوجہ سے میں اکثر ان سے سبقت لے جاتا تھا۔ جس پر وہ ھمشہ کہتا تھا کہ دیکھنا ایک دن میں آپ سے اگے نکل جاؤںگا۔ اور آج مجھے احساس ھوا کہ وہ بہت اگے نکل چکا تھا کہ چھو بھی نہیں سکے۔۔۔۔وہ ہار کے بھی جیت گیا اورمیں جیت کے بھی ھارگیا۔۔۔۔
لڑکپن میں خلاف فطرت وہ کھیلوں کی نسبت فن خطابت اور عرفانی ادب کی طرف مائل تھے۔ اسکی وجہ شاید یہی تھی کہ ھمارے والد صاحب ریلیجیس ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ منسلک تھےاور بشارت والد صاحب کیساتھ واعظین بیس کیمپ جاتے اور مزھبی اسکالرز کی صحبت میں اچھا خاصا وقت گزارتے تھے۔ ان میں خاص کر استاد سید خلیل، شفا جان اور کریم خان شامل ھیں،
فطین لیکین باغی تھے۔ سکول میں اساتزہ کو تنگ کرنا ان کیلیے عام سی بات تھی۔ شاید ان کا معیار اس تدرسی سیلیبس سے ماورا تھا۔ وہ کلاس کے باغی المزاج لڑکوں سے زیادہ میل جول رکھتے تھے۔ اخبار جہآں کا شمارہ ھمیشہ شوق سے پڑا کرتےتھے۔ اس مقصد کیلیے وہ آغاخان ہیلتھ سنٹر کے اسٹاف سے ھمیشہ تعلق استوار رکھتے تھے۔ نرگیس، نورجہاں، شیراز اور 1997- 1999 تک تمام سٹاف کی خدمت قابل صدہاستائش ھےان دنوں۔ پروین شاکر مصطفے زیدی اور احمد فراز کو ھمیشہ پڑتے تھے۔
اسکول کے عمر سے ہی وہ بائیں بازوں کے نظریات کے حامی معلوم ھوتے تھے۔ شاید یہ رویہ وراثت میں ملا تھا۔ وہ کٹر قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات رکھتےتھے مٹرک کا امتحان گاوں کے ھائی سکول سے مکمل کیا۔ کالج کے پہلے سال قوم پرستی کی پاداش میں جیل میں گزارنا پڑا۔ وہ نو ماہ جیل میں رہے۔ یہ نو ماہ کی زندگی بشارت کے زندگی کا وہ انتہائی اھم حصہ ہے جس نے ان کے اندر سے مجزوبیت اور طفلیت کو نکال کر ان کے قلب کو متانت اور دلجمعی سے منور کیا۔ وہ یکسر بدل گیے تھے۔ وہ بچہ جو ایک سال پہلے تک سکول کےاسمبلی اور بزم ادب میں تقریر کا اعادہ کیا کرتےتھا۔ سال کے اندر ہی قوم پرست لیڈر بن گیا تھا۔ جیل سے رہا ہوتے ہی قوم پرست تنظیموں کے رہنماوں نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ وہ جاہ و جلال مجھے آج بھی یادھے۔ بس اب دیر کس بات کی تھی وہ اگے بڑہے اور بی این ایف کے اسٹوڈنٹ ونگ میں شامل ھوگیے

اور اسطرح اس نے پوری یونیورسٹی لائف قوم پرست سیاست میں گزاری۔ اپنے ادبی شوق کو ملحوظ خاطر رکھ کر انہوں نے اردو ادب کے شعبے میں داخلہ لیا۔ اور بی اے پاس کیا۔ لیکن اپ نے اس مضمون کو اپنے مستقبل کے لائحہ عمل سے ہمقدم محسوس نہیں کیا اور شعبہ کریمنالوجی (جرمیات) میں ماسٹرزکی۔یہ شائد اس لیے کہ جیل کی زندگی کے تلخیاں ان کو یاد تھی اور وہ پولیس کےاس نظریے کو سمجھنا چاہتے تھے۔جس کی بنا ایک بےگناہ انسان قید رہتا رہے۔ وہ جیل میں گزری اس زندگی پر گپ شپ کرنا پسند نہیں کرتے تھے- لیکن جب بیاں کرتے تو یقین کرنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ اس کفیت کے حوالے سے اپنے ایک شعر میں یوں گویا ہوے ہیں؛کہ
دوسی بے جی خوندارے نیمالینے
جا ایا تھپ حالے بم کھین دیساچھا
ترجمہ: ایک دفعہ میں نے ایک محفل میں اپنی جیل کی آپ بیتی بیاں کی تومیری ہمت و برداشت دیکھ کر میرا دشمن (جسکا ارادہ مجھے قتل کرنا تھا) کی حالت اتنی غیر ھوئی بس اسکی جان نکلتے نکلتے حلق میں آرکی۔
یونیورسٹی سے فارغ ھوکر وہ گلگت منتقل ہوے اور ریڈیو پاکستان گلگت سے منسلک رہے۔اور دوبارہ موسیقی اور آدب کی طرف راغب ھوے۔ اور باضابطہ شاعری شروع کی۔اس سے قبل وزیر بھائی کی بروشاسکی گرامر کی کتاب بروشاسکی رازون 2007 میں شائع ہوئی تھی۔ اور وزیر بھائی بروشاسکی پریونیورسٹی آف نارتھ ٹیکسس کے پروفیسرڈاکٹر صدف منشی کیساتھ تحقیق کررہے تھے۔ اس آثنا بشارت نے بھی ان کو جوائن کیا اور تحقیق کے سلسیلے میں ڈاکومنٹیشن پر بہت کام کیا۔ ان کی شاعری کو پہلی دفعہ 2010 جولائی میں اس ریسرچ کے لیےمحبوب جاں کی سریلی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ وہ انتہائی دلچسپی سے ادبی سرگرمیوں کے ساتھ وابسطہ تھے 2010 میں شادی خانہ آبادی کی بندھن سے باندھے گۓ لیکن یہ شادی صرف چھ مہینے چل سکی۔ اس واقع کا ان پر اتنا گہرا اثرپڑا کہ آپ نے اپنی سیاست، ادب اپنے پروفیشنل تعلق کو منقطع کیا کراچی چلے گۓ۔ اور آغا خان ٰیونیورسٹی کراچی کے شعبہ تحقیق براۓ آطفال سے وابسطہ ھوے۔ لیکن جلد ہی انہوں نے آمن فانڈیشن کے ھیلتھ ڈیپارتمنٹ کو جوائن کیا۔
وہ ادبی سرگرمیوں اور قوم پرستی کو پارک کرکے مکمل پروفیشن اورینٹیٹ بن چکا تھا۔ اس پروفیشنل تگ و دو میں اپ نے جیمز پی گرانٹ انسٹیٹو ٹ آف پبلک ہیلتھ براک یونیورسٹی کی اسکلرشپ حاصل کی اور ایم پی ایح کرنے بنگلہ دیش چلے گۓ۔اس دوران وطن سے دوری نے ان کے اندر کے ادبی جزبے کو مزید گرمایا۔ وہ شعر گویئ میں مصروف رہے۔
