کالمز

دیامر ڈیم متاثرین کی آبادکاری۔۔۔۔۔

تحریر۔محمد قاسم

 ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے دیامر بهاشہ ڈیم کی تعمیر  نہائت ہی اہمیت کے حامل ہے. اس ڈیم کی تعمر سے  نہ صرف بجلی بحران میں کمی آے گی بلکہ پانی کی ذخیرہ اندوزی کے ساتھ ساتھ ملک  کی گرتی ہوئی معیشت کے لئے بھی  کارگر ثابت ہو گی. ڈیم کے تعمیر کے حوالے سے متاثرین دیامر بهاشہ ڈیم نے اپنے حقوق کی تحفظ کے حوالے سے یکجان ہو کر آواز اٹھائی. اور عالمی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے میں کامیاب ہوے. ابتدائی طور پہ متاثرین ڈیم کا جو بنیادی اعتراض ڑیم کے نام اور رائلٹی پہ تھا.چونکہ ڈیم کی تعمیر سے مکمل طور پر دیامر متاثر ہو رہا ہے۔ پهر وفاقی حکومت نے بهاشہ کے ساتھ دیامر کا لاحقہ لگا کے دیامر بهاشہ ڈیم نام رکھ کے عوام دیامر  کا بنیادی اعتراض دور کیا جبکہ رائلٹی پر بھی گلگت بلتستان کا حق تصور کیا گیا.

واپڈا اور جی بی حکومت نے متاثرین کی آبادکاری املاک و ارضیات کے معاوضے اور ادائیگی کا طریقہ کار سمیت دیگر مسائل کو باہمی افہام و تفہیم  سے حل کرنے کے لئے متاثرین ڈیم کمیٹی کے نام سے ایک کمیٹی کا وجود عمل میں لایا. جس میں  ڈیم سے متاثرہ علاقوں کو مدنظر رکھ کر نمائندگی دے کر ایسے قانونی حیثیت بھی دی گئی۔  وقت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت اور واپڈا حکام کے مابین وقتاً فوقتاً  مسائل کے حل کے لئےمذاکرات ہوتے رہے. جو کسی رکاوٹ اور مزاحمت کے  مذاکراتی عمل آگے بڑھتے رہے۔یوں بابوسر کے مقام پہ  صوبائی حکومت واپڈا  اور متاثرین ڈیم کمیٹی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اس منصوبے کی پہلی سیڑھی تھی. اس معاہدے کی روشی میں اسلام آباد میں وزارتی کمیٹی اور متاثرین ڈیم کمیٹی کے دستخطوں سے تحریری شکل دی گئی.اسلام آباد معاہدے کے فیصلوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اس پہ عملی اقدامات کئے گئے مگر بعض نقات پہ بعض متاثرین کوشدید تحفظات ہنوز حل طلب ہیں.معاہدہ اسلام آباد کی روشنی میں ابتدائی طور پر تهور کهنبری کے ڈیم کی تعمیر سے زیر آب ارضیات املاک کی ادائیگی کرنے کے بعد بعض ناگزیر مسائل کی وجہ سے تاخیر پہ 2015 میں ایک اور معاہدہ حکومت واپڈا اور متاثریں ڈیم کمیٹی کے مابین ہوا. جس میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ  سے دیگر علاقوں اور چلاس ٹاون اور کمرشل ایریاز کے ارضیات اور املاک کےاز سر نو  ریٹ مختص کئے گئے۔ نیز دوبارہ  سروے کر کے نئے تعمیر مکانات کو بھی متاثرین کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔ اور متاثرین ڈیم  واپڈا اور حکومت کے مابین تمام ارضیات  باغات اور املاک کی ادائیگی کا سلسلہ نہایت ہی خوش اسلوبی سے اختمامی مرحلے میں پہنچ چکا ہے.

مگر بدقسمتی سے ڈیم سے متاثرہ گھرانوں کی آبادکاری ایک معمہ بن چکی ہے. واپڈا کی ابتدائی سروے کے مطابق متاثرین کی آبادکاری کے لئے ہرپن داس تهک داس اور کنو  داس کی ارضیات کی نشاندہی کی گئی تھیں. اور 9 ماڈل ویلیجز میں متاثرین  کی آبادکاری مکمل کرنا  تھا۔ نیز  ایک کنال مفت رہائشی پلاٹ کے ساتھ 4 کنال کی زرعی اراضی پلاٹ کی فراہمی معاہدے کی بنیادی اہم نکات میں شامل ہے۔

مملکت خدا داد پاکستان میں  جہاں بھی ملکی سطح کے میگا منصوبے تعمیر کئے جاتے ہیں. حکومت ایک پالیسی کے تحت اس منصوبے کے فوائد فوری طور پر عوام تک ہنچانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ہیں.میگا منصوبے جتنا جلدی پایہ تکمیل تک پہنچے گے عوام اس کے ثمرات سے مستفید ہوتے ہیں. مگر بدقسمتی سے ملک میں میگا منصوبوں کی زمینی حقائق کی جانچ پڑتال کئے بغیر ایک کاغذی سانچے میں کسا جاتا ہے.  نتیجتاً حکومت کو مشکلات اور عوام کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

کچھ ایسا مسلہ دیامر باشہ ڈیم منضوبے کا ہے. قبائلی مسائل رسم و رواج کو پس پشت ڈال کر اسلام آباد کے ایوانوں میں بہت سارے غلط فیصلے کئے گئے. متاثرین ڈیم کے نام پہ صرف ایک طبقے کو نوازا گیا. متاثرین کی آبادکاری کے لئے جو ماڈل ولیجز کی سائڈ سلکشن کی گی اس میں دن بدن مسائل کے انبار پیدا ہوتے جاتے ہیں. جسکی وجہ سے اصل اور حقیقی متاثرین ڈیم در پدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں.اور واپڈا کی ناقص حکمت عملی اور صوبائی حکومت کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے متاثرین ڈیم گو مگو کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس وقت حکومت متاثرین کی آبادکاری کے حوالےسے کوئی ٹھوس حکمت عملی کرنے پہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔

 متاثرین دیامر ڈیم کی آبادکاری حکومت اور واپڈا حکام کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

بدقسمتی سے عوام دیامر  میں  تعصب لوگوں کے دلوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔قوت برداشت اور دلی ہمدری کھو چکے ہیں۔ ہر فرد ہر قبیلہ اپنی زات کے دائرہ میں نفرتوں کے طواف کا چکر کاٹ رہا ہے۔

آبادکاری کے حوالے سے واپڈا نے صوبائی حکومت کے تعاون سے ہرپن داس چلاس میں 5500 کنال اراضی حاصل کرکے ماڈل ویلج کا ابتدائی مرحلے میں کشادہ سڑکیں۔ کمیونٹی سنٹر سکولز مسجدیں جدید طرز میں تعمیر کئے گئے ہیں۔ا اس ماڈل ولیج میں بھی آباد کاری کا مسلہ دن پہ دن شدت اختیار ہوتا جاتا ہے۔تھک داس ماڈل ولیج  میں عوام تھک اپنا قدیمی پشتنی اور شرعی اور علاقائی روایات کی بنیاد پہ اپنی مدد آپ کے تحت نہری پانی کی فراہمی کر کے ہزاروں رہایشی مکانات تعمیر کئے گئے ہیں۔جبکہ دوسری طرف تھک داس کا تصفیہ گزشتہ کئی سالوں سے مقامی قبائل اور حکومت کی طرف سے الاٹ کئے گئے الاٹیز کے مابین کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ کینو داس میں بھی متاثرین کی آبادکاری کے حوالے سے مسائلوں کا قبرستان بنا ہوا ہے۔

الغرض یہ کی متاثرین کی آبادکاری کے حوالے سے واپڈا اور صوبائی حکومت سنجدگی سے غور و فکر کرنے کی حس کھو چکی ہے واپڈا تمام تر زمے داریاں صوبائی حکومت پہ ڈال کہ خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔اور صوبائی حکومت روایتی سستی اور لاپرواہی میں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح کا میگا منصوبہ بھی حائل رکاوٹیں کو دور کرنےاور متاثرین ڈیم کی آبادکاری کے لئے ہنگامی بنیادوں پر  ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور مذاکراتی  عمل کو آگے بڑھائے۔ چند قبائلی اور علاقائی تعصب کو  پروان چڑھانے والے  عناصر کی سرکوبی کرے۔متاثرین ڈیم کی  مستقبل کو تاریک کرنے والوں کو سخت آہنی ہاتھوں سے نمٹا وقت کی اہم ضرورت ہے۔۔ ⁠⁠

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button