آج سے دس سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ ہم نے اپنے ہفتہ روزہ کے لئے شہر کے سب سے بڑے بھنگی یعنی بھنگیوں کے ٹھیکیدار مقدر مسیح کا انٹرویو کیا ۔انٹرویو کے دوران بات صفائی سے ہوتے ہوئے شہر کے نامساعد حالات تک پہنچ گئی۔
اُن دنوں گلگت شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کا ماحول تھا۔ مقدر مسیح بھی حالات سے نالاں تھے ۔ ہمارے سوال پر انہوں نے لمباسانس لیا اور کہنے لگے کاش ہم جس طرح شہر کی صفائی کر تے ہیں اسی طرح لوگوں کے ذہنوں کی بھی صفائی کر سکتے۔کسی بھی گھر ، گلی ، محلہ، گاوں اور شہر کے ماحول کی خوبصورتی میں ظاہری صفائی سے زیادہ انسانی ذہن کی صفائی کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں وزیر خارجہ خواجہ آصف کی طرف سے گھر کی صفائی کے بیان پر جو بحث چھڑی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے ہمارے ہاں ہمیشہ ظاہری صفائی پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ جس صفائی کو نصف ایمان کہا جاتا ہے اس سے بھی ہماری مراد ظاہر ی صفائی ہی ہوتی ہے۔ ذہنوں کی صفائی پر نہ تو آج تک کسی نے بات کی ہے اور نہ ہی اس پر توجہ دی گئی ہے۔ہر ظاہری گندگی کے پس پردہ باطنی گندگی کے کئی عوامل کا ر فرما ہوتے ہیں ۔صفائی اور گندگی کا براہ راست تعلق انسان کے ذہن اور سوچ سے ہوتا ہے۔ ظاہری صفائی کے لئے جو شہہ ملتی ہے وہ بھی باطنی صفائی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ دیر پا صفائی کے لئے ظاہر ی صفائی کے ساتھ ساتھ باطنی صفائی کا ہونا ضروری ہے ۔ صفائی کو جب تک زندگی کا لازمی حصہ نہیں بنایا جاتا اور اس سے متعلق احساس کو فروغ نہیں دیا جا تا تب تک وہ موثر صفائی نہیں کہلا سکتی۔
لگتا ہے گذشتہ تین سالوں سے جاری گھر کی صفائی بھی ظاہری تھی۔ اس کا اصل بھانڈا اس وقت کھل گیا جب ایک کالعدم تنظیم نے لاہور میں این اے ۱۲۰ کے انتخابات میں حصہ لیا اور حالیہ دنوں اسلام آباد میں اقبال ٹاون کے قریب ایکسپریس وے پر داعش کا بینر اور جھنڈا لہرا گیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچر ا اٹھا نے کا کام تو ہو گیا ہے مگر لوگوں کی صفائی سے متعلق سوچ نہیں بدلی گئی ہے ۔
کسی بھی گھر کو صاف رکھنے کے لئے اس کے مکینوں میں صفائی کا احساس پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے وگرنہ جس طرح گندگی اٹھا ئی جاتی رہے گی اسی طرح گندگی پھیلتی رہے گی۔ جو انسان گندگی پھیلاتے ہیں ان کے ہاتھ روکے جائیں ان کو یہ سمجھایا جائے کہ وہ کچرا اور گندگی پھیلانا بند کریں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کو صفائی برقرار رکھنے کی تربیت دی جائے۔ ایک دیر پا صفائی کے لئے اس سے بہتر کوئی فارمولا نہیں ہو سکتا ہے کہ اس گھر میں بسنے والے انسانوں کو صفائی سے متعلق بنیادی تعلیم دی جائے۔ دنیا بھر میں جن جن ممالک میں صفائی کی صورتحال بہتر ہے وہاں صفائی کرنے والوں کا کمال نہیں ہے بلکہ وہاں بسنے والے لوگوں کا احساس ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے وہ گندگی پھیلنے سے روکتے ہیں۔
کسی گھر کا سربرا ہ اور باقی ذمہ داران اگر صفائی کا خیال رکھتے ہیں تو اس گھر کے بچے بھی صفائی پسند بن جاتے ہیں پھر آہستہ آ ہستہ صفائی ان کی روزمرہ زندگی کا معمول بن جاتا ہے اور وہ اپنے گھر، دفتر، گلی، محلہ اور شہر کی صفائی سے متعلق فکر مند ہوتے ہیں اور صفائی کے کام میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر گھر کے ذمہ داران صفائی پسند نہیں ہوتے۔بلکہ وہ صرف گھر کی خواتین کو صفائی کی ذمہ ڈار ٹھہراتے ہیں ۔گھر میں بھابھیاں اور نندوں میں صفائی کی باری پر جھگڑا رہتا ہے وہ ایک دوسروں پر ذمہ داری ڈال کر گھر کی صفائی سے بری الزمہ ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں گھر کی صفائی کا کا م جوں کا توں رہ جاتا ہے۔
تمام اہل خانہ کی شمولیت کے بغیر کی گئی ہر صفائی وقتی اور غیر پائیدار ہوتی ہے ۔مستقل صفائی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے گندگی کے اسباب کا کھوج لگا یا جائے پھر ان کے خاتمے کے لئے موثر لائحہ عمل تیا ر کیا جائے۔ جو فرد خود ا پنی صفائی نہیں کر سکتا وہ اپنے ماحول کو بھی صاف نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اہل خانہ کو سب سے پہلے ان کی اپنی صفائی کی اہمیت بتا ئی جائے۔ گھر کے بڑوں کے اند ر صفائی سے متعلق احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے ۔ بچوں کے لئے صفائی کی اہمیت سے متعلق تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔پھر گھر کے اندر روزانہ کی بنیاد پر صفائی کے لئے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے کہ کس نے کیا کام کرنا ہے ۔ بھابھیاں اور نندوں کی لڑائی روکی جائے ۔ اہل خانہ میں ذمہ داریاں تقسیم کی جائیں۔ بھنگیوں کی صفائی سے متعلق مناسب تربیت کی جائے ۔ جس بھنگی کو گھر کی صفائی پر معمو ر کیا جاتا ہے ان پر خاص نظر رکھی جائے کیونکہ اکثر بھنگی نہ صرف صفائی کے کام میں ڈنڈی مارتے ہیں بلکہ محلے کی گندگی ان کے چپل اور کپڑوں کے ساتھ چپک کے گھر میں آجاتی ہے ۔صرف بھنگی کی تعیناتی ضروری نہیں ہوتی بلکہ ان کو صفائی کے لئے ضروری لوازمات یعنی جھاڈو، صابن، پانی،سرف، ڈسٹ بن، پونچا، وائپر وغیرہ سے لیس کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔اس کے باوجود گھر کے سربراہ پر لازم ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر صفائی کا جائزہ لیں۔
گھر کا سیورج اور گٹر کا نظام درست کیا جائے وگرنہ گڑ لائن کی معمولی لیکیج سے گھر میں تعفن پھیل سکتا ہے اور سیورج کا بہتر نظام نہ ہونے کی صورت میں گھر کی دیواریں سیم و تھور سے متاثر ہوسکتی ہیں۔گھر کا کچرا محلے میں پھینکنے کی بجائے اس کو اس مقصد کے لئے مختص جگہ پر ٹھکا نے لگا یا جائے۔ اپنے گھر کے آس پاس گندگی پھیلانے سے اس لئے گریز کیا جائے کیونکہ سارا محلہ اگر گندگی سے اٹاہوا ہو تو ایسے میں اکیلے اپنے گھر کو اس گندگی سے بچایا نہیں جا سکتا ۔ یہ دیکھا جائے کہ گھر سے محلے میں کچرا پھنکنے والے کون لوگ ہیں جن کی وجہ سے اہل محلہ آپ کے گھر میں گندگی ڈال دیتے ہیں۔ گھر کی ڈسٹ بن کے علاوہ اہل محلہ کا بھی مشترکہ ڈسٹ بن ہونا چاہیے تاکہ محلہ بھی صاف ستھرا رہے۔ ہمارے ہاں اصل مسلہ ذہنی صفائی کا ہے ۔ جب تک ذہن صاف نہیں ہوتے گھر گندا ہی رہے گا۔دیر پا صفائی ایک جامع منصوبے کا تقاضا کرتی ہے۔ محض چند ایام کے جھاڈو پھیرنے سے دیر پا صفائی کا ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لئے روایتی سوچ میں تبدیلی، عزم، احساس ذمہ داری، تعلیم وتربیت، نصاب میں تبدیلی، ذمہ داروں کا تعین، سیورج اور گٹر کا جدید نظام ، کچرا ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام اور گھر کے تمام افراد کا جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر خلوص نیت سے اس کام میں حصہ لینا ضروری ہے ۔ ورنہ ہم وقتی جھا ڈو پھیر کر صفائی سے متعلق خود فریبی کا شکا ر ہی رہیں گے وہ نہ تو دیر پا صفائی ہوگی اور نہ ہی دنیا اس کو تسلیم کرے گی۔ خواجہ آصف کا صفائی سے متعلق فکر مند ہونا جائز اور بروقت ہے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button