کالمز

نماز کہتے ہیں سجدے میں سر کٹانے کو

یہ کیا نماز ہے سجدے میں سر جھکا لینا
نماز کہتے ہیں سجدے میں سر کٹانے کو

میں اپنے کو کوئی بڑا لکھاری تصور نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اس بات کا دعویٰ ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں لیکن تھوڑی بہت مطالعے کی عادت مجھ میں ہے، اس لئے کبھی کبھار اظہار کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیتے ہوئےاپنے خیالات کو قرطاس میں بکھیرنے کی جرات کر جاتا ہوں ۔

آج بھی کچھ ایسا کرتے ہوئے اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر کے ساتھ اس ہستی کے بارے لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔جس ہستی کی بدولت آج میں اور آپ ایک سچے دین اسلام کے اندر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔

مذکورہ بالاشعر میرے استاد محترم حسن شاد کا ہے اور استاد نے کیا خوب کہا ہے ۔

جی ہاں سجدے میں سر صرف وہی لوگ اور افراد سر کٹا سکتے ہیں جو مومن ہوتے ہیں۔ اور مومن کون لوگ ہیں ۔ اس کی تعریف مجھے اورآپ نےنہیں کرنی ہے یہ تو اللہ نے بتا دیا ہے۔ مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر (پکا)ایمان لائیں، اور پھر شک و شبہ نہ کریں۔ اوراپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے۔ (سورۃ الحجرات)

اس آیت قرآنی پہ اگر کوئی مسلمان غور کرے تو یقیناً وہ اس بات کو سمجھے گا کہ محمد کے نواسے اور جنت کے سردار حضرت امام حسین نے مکہ سے کربلا کا سفر کیوں اختیار کیا۔

سوال یہاں یہ ہے کہ کیا حسین کسی ذاتی مقصد سے مکہ سے کربلا گئے تھے؟

جن لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ ان کے دل میں دنیاوی جاہ و جلال کی خواہش پنہاں تھی ان کے عقلوں پہ ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو حُسین اور اُن کے گھرانے کی بلندی اور ان کی اخلاقی سیر ت سے آگاہی نہیں۔ یاپھر  یہ وہ لوگ ہیں جن کو حضرت ابوبکر سے امیر معاویہ تک کی تاریخ کا ادراک نہیں۔

تاریخ اسلام کے مطالعے سے ہماری آنکھیں کھلنی چاہئیں۔ حضرت حُسین کا مقصد حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز نہ تھا ۔تھوڑی دیر کے لئے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو دنیا کی ریت کا آپ کو اندازہ ہو جائیگا۔ یہاں بھوک سے بلکتے ہوئے انسان بھی دکھائی دیتے ہیں جو روٹی کے ایک سوکھے تکڑے سے بھی اپنی بھوک مٹاتے ہیں تو دوسری طرف اکثریت ایسے افراد کی نظر آتی ہے جو عقل کے بھوکے ہیں اور انسان کی عقل کب بھوکی ہوتی ہے جب انسان کے اندر دنیاوی ہوس کود جاتی ہے ۔

جن کو ایک دفعہ ہوس کی لت لگ جاتی ہے توایسے لوگ کبھی بھی سیر نہیں ہوتے ان کے ہاں حلال اور حرام کا فرق مٹ جاتا ہے ان کے ہاں زندگی کا بنیادی مقصد دنیا سمیٹنا اپنی دولت کو بڑھانا مقصود ہوتا ہے۔ ایسے میں جب کبھی ان کی دنیا خطرے میں پڑ جاتی ہے  تو ان کے چہرے تبدیل اور رنگ فق ہو جاتے ہیں ۔جب ہم امام حسین اور کوفہ میں اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو کوفیوں کی حالت ہمیں ایسی ہی نظر آتی ہے۔

کربلا کا واقعہ بھی ایسے ہی عقل کے بھوکے اور ہوس کے پجاریوں کا نتیجہ لگتا ہے۔ہوا کیا کہ پہلے پہل ان کوفیوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بعیت کی جب انہیں اس بات کا یقین ہو چلا کہ مسلم کے ساتھ رہ کر فائدہ ان کو دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ جان سے ہاتھ دھونے کا خدشہ بھی ہے تو ایسے میں انہوں نے مسلم بن عقیل کو تنہا چھوڑ دیا ۔مفادات اور لالچ کے باعث انہوں نے اپنی توپوں کا رخ ابن زیاد جس کا پورا نام عبیداللہ بن زیاد تھاسے موڑ کر حُسین کی طرف کر دیئے ۔اور یہ وہی ابن زیاد ہیں جس کو یزید نے بصرے سے تبدیل کر کے کوفے کا گورنر بنایا تھا اور اسی نے حُر کو ایک ہزار فوج کے ساتھ حضرت امام حسین کا راستہ روکنے کے لئے بھیجا تھا۔

امام حسین کا ایک قول ہے، "دنیا داروں کی حقیقت یہی ہے کہ وہ دنیا کے اسیر ہیں اور دین ان کی صرف زبان میں ہے۔”

یعنی لوگ اس وقت تک دین کی اطاعت کرتے ہیں، جب تک ان کی معیشت چلتی ہے، لیکن جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔ کربلا میں بھی یہی کچھ ہوا دنیا داری کی ہوس نے کوفیوں کو اندھا کر دیا ۔اپنے وقت کے زاہد، عابد، قاری ،اور مفسر قران بریر بن خضیر ہمدانی جیسے بہترین جنگجو کی تقریر سے بھی ان کے دل نرم نہیں ہوئے۔ اس نے کہا تھا ۔کوفہ والو یاد کرو اپنے عہد و پیمان کو جو تم لوگوں نے کئے تھے اور ان خطوط کو جو تم نے لکھے تھے ۔یہ باتیں ان کی سمجھ میں کیسی آسکتی تھی ۔ان کی آنکھوں میں تو دنیاوی لالچ کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور جب لالچ اور ہوس غالب آجائے تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ اوردوسری طرف حسین کیا چاہتے تھے؟ حسین تو اپنے نانا کا وہ دین وہ نظام چاہتے تھے جو رسول اللہ اور خلفائے راشدین کی سربراہی میں چالیس سال تک چلتا رہا تھا۔وہ کیسے یہ گوارا کر سکتے تھے کہ دین اسلام میں اللہ کی بادشاہی اور اس کی حاکمیت کی نفی ہو۔جب امام عالی مقام نے دیکھا کہ دین اسلام کو اپنی مرضی کے تابع بنایا جا رہا ہے اوراسلامی ریاست کی روح اور نظام میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں تو ایسے میں حسین ابن علی نے یزید کے ہاتھوں میں بعیت کرنے کے بجائے حق کی سربلندی اور کلمہ حق کو بلند کرنے کے لئے جام شہادت نوش کرنے کو اپنا فرض جانا

آج بھی ہر سال مسلمانوں کے ہر دو فرقے یہاں میں نام بھی لوں تو کوئی ہرج نہیں شیعہ اور سنی اپنے رنج و غم کا اظہار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔اور کرنا بھی چاہئے لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم جو دکھ و غم کا اظہار کرتے ہیں وہ بس ایک فطری بات ہے وہ اس لئے کہ ہم ان سے عقیدت رکھتے ہیں ۔ایسا تو دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے بھی ظاہر ہوتا ہے جب کوئی بے قصور اور مظلوم بن جائے یا نا حق مارا جائے پھر تو اس غم اور دکھ کی اسلام میں کوئی اخلاقی قدر و قیمت نہیں ۔

اگر آج بھی ہمیں ان باتوں کا علم نہیں اور آج بھی ہم حسینؑ اور یزید، حق اور باطل، حرام اور حلال کا فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور آج بھی دین اسلام سے ہٹ کر رسم و رواج کے پابند ہیں اور آج بھی حق کو حق سمجھتے ہوئے حق کی حمایت نہیں کرتے ہیں اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے باطل کی مخالفت نہیں کرتے ہیں تو یقینا ہماری عقلوں پر کوفے والوں کی طرح پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہم بھی اہل کوفہ کی طرح اندھے گونگے اور بہرے ہو چکے ہیں ، اسی بات کو سوچنا ہے کہ کس چیز کی ہوس نے ایسا کر دیا ہے نہیں تو ہم میں سے ہر ایک کو یہ یقین کر لینا چاہئے کہ ہم ابھی تک لشکریزید میں ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button