عمران کا تعلق گلگت بلتستان کے نواحی علاقے سے ہے۔ اور وہ اسلام آباد میں تقریباً دو سالوں سے اپنے تعلیم کے سلسلے میں رہ رہا ہیں۔ عمران ایک ذہین طالب علم ہے اس لیے اس کے دوست و احباب بھی زیادہ ہے ۔ عمران پڑھائی کے علاوہ سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ اور خاص کر تعلیم اور کھیل کود کے معاملے میں دوسرے بچوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ یعنی عمران جسمانی اور ذہنی طور پرصحت مند ہے۔
ایک دن عمران اپنے دوستوں کے ساتھ یونیورسٹی کے کینٹین میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اور باتوں باتوں میں اس نے دوستوں کے شوخ تجربات میں سے ایک تجربہ یعنی سگریٹ نوشی کی ابتدا کی اور یہ عمل کچھ مہینوں تک کئی بار دہرایا گیا ۔ جب موسم گرما میں یونیورسٹی کی چھٹیاں ہوئی تو عمران اپنے گھر چلے گئے ۔ایک دن عمران کی ماں نے ان کے کپڑوں سے سگریٹ کی بو محسوس کی ، اور یوں عمران پکڑے گئے ، عمران نے انتہائی شرمندگی کے عالم میں اپنی ماں سے کہا میں جانتا ہوں کہ سگریٹ پینا بُری حرکت ہیں اور میں آئندہ نہیں کروں گا۔
بات تمباکو نوشی کی ہو یا تمباکو خوری کی دونوں کے نقصانات ایک جیسے ہیں ۔آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر امتیاز ملک کے مطابق اس وقت پاکستان میں تمباکو نوشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اور اس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے نقصان دہ نہیں سمجھتے ہے جو کہ بلکل غلط ہے۔ اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ تمباکونوشی کی بدولت انسان کو اس وقت سب سے زیادہ دل کی بیماریاں،منہ اور پھیپھڑوں کا کینسر ہوتا ہے۔اور خاص کر دل کی بیماریاں تمباکو کی طویل استعمال کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے والدین کو یہ معلومات ہونی چاہیے تاکہ وہ بہتر طریقے سے اپنے بچوں کو اس کے نقصانات کے بارے میں سمجھائے۔
تمباکو نوشی نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں بے تحاشا استعمال کی جاتی ہے۔ اور خاص کر نوجوان طبقے سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ اگر ہم ایشیا کا جائزہ لے تو معلوم ہوگا کہ ایک سروے کے مطابق ایشیا کے ممالک میں نوجوانوں میںیہ رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اور ایشیا کے زیادہ تر ملکوں میں تقریباً ستر فیصد نوجوان سولہ سے انیس سال کی عمر میں تمباکو نوشی کا تجربہ کر چکے ہوتے ہے۔اور ان میں سے زیادہ تر تمباکو نوشی کو زندگی بھر کی عادت بنا لیتے ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے حالیہ سروے کے مطابق ایشیا کے تمام ملکوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں تمباکو نوشی کا رجحان تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہے۔ اب اگر ہم پوری دنیا میں اسے ہر زاویے سے دیکھے تو فی الحال اس مألے کا کوئی حل دیکھائی نہیں دیتا ہے۔ گاوں کی نسبت شہروں میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہوتی ہے اگر ہم اس سلسلے میں گلگت بلتستان کا جائزہ لے تو صورت حال بہت خوفناک ہے۔ گلگت شہر کے ساتھ یہاں کے دس اضلاع میں دیکھا جائے تواسکول، کالج اور یونیورسٹی کے زیادہ تر طلبہ اپنے درس گاہوں کے باہر چائے کے ہوٹلوں میں اور بیکری کے دوکانوں میں سگریٹ نوشی کا مزہ لے رہے ہوتے ہے۔
پہلی بات یہ کہ سگریٹ بنانے والے تمام کمپنی والے ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے اپنی مارکیٹنگ کرتے ہے ۔جس سے نوجوان طبقہ متاثر ہو کر سگریٹ نوشی کرتے ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ منشیات کے خلاف سخت قوانین ہونے کے باوجود اس کی عملدرآمد کچھ بھی نہیں، بلکہ منشیات سے متعلق تمام اداروں کو استعمال کر کے لوگ اسی منشیات کا کاروبار کرتے ہیں ۔ اسی قوانین اور اداروں کا غلط استعمال صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں ہوتی ہے۔
تیسری بات منشیات سے متعلق آگاہی سے ہے ۔دنیا میں ایسے بہت سارے ادارے جو منشیات کے نقصانات سے متعلق کام اور آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔جس کو سمجھنا اورعمل کرنا ضروری ہے۔
چوتھی بات سگریٹ بطور فیشن اور Peer Pressur سے متعلق ہے۔زیادہ تر نوجوان طبقہ آج کل سگریٹ نوشی دوسروں کو دیکھ کر بطور فیشن استعمال کرتے ہے۔ پھر آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو ترک کرنا مشکل ہوتا ہے ۔اور بعض ایسے نوجوان بھی ہے جوپہلے سے ہی سگریٹ نوشی کرتے ہے اور وہ اپنے دوسرے دوستوں کو قائل کرتے ہے کہ وہ بھی استعمال کریں ۔
ان تمام باتوں پر غور وفکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہے کہ سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی کے تدراک کی ابتدا گھر سے ہونی چاہیے ۔اس کی ایک اچھی مثال یہ ہے کہ عمران کی ماں نے بات کرتے ہوئے بتائی کہ اس کے شوہر نے کچھ عرصہ پہلے اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے سگریٹ نوشی کے عادت کو ترک کیا تھا ۔اور اپنے بچوں کو بڑی تفصیل سے بتادیا تھا کہ یہ بری عادت ہیں۔اس پراثر گفتگو سے عمران اور دوسرے بچوں پر اچھا اثر پڑا، اس کے بعد سے عمران نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔اس بات سے پتہ چلتا ہے گھر کے اندر تربیت کا اثر دوررس ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ماہرین کے مطابق بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں بتانا چاہیے۔کیونکہ بلوغت تک پہنچنے کے بعدبچوں کو تمباکو اور سگریٹ نوشی سے باز رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اور یہ تمام تر زمہ داریاں والدین کی ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کے سامنے اچھا مثال بنے۔ کیونکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے والدین کے بچوں میں سگریٹ نوشی اختیار کرنے کے امکانات تین گناہ زیادہ ہوتے ہے۔اور یہ بات حقیقت ہے کہ اگر سگریٹ پینے والے والدین اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی سے منع کریں گے تو ان کی بات میں کوئی اثر نہیں ہوگا۔اور سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے بیماریوں کے متعلق بھی انہیں بتانا ضروری ہے کہ چھوٹی عمر میں سگریٹ نوشی سے دمے، امراض قلب، پھیپھڑوں، دماغ، چھاتی اور کئی اقسام کے کینسر کا سبب بنتی ہے۔اور ساتھ ساتھ تمباکو نوشی کے استعمال سے ہر سال دنیا میں سینتیس لاکھ اموات ہوتی ہے ، رفتار یہی رہی تو ۲۰۲۵ تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
سگریٹ میں استعمال ہونے والے چیزوں کے بارے میں بھی بتانا ضروری ہے جس میں سب سے اہم نکوٹین ہے۔ نکوٹین ایک نشہ آور اور زہریلا الکلائڈ ہے اور یہی چیز سگریٹ نوشی کی عادت کو ترک کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔دنیا میں دو تہائی سے زیادہ لوگ سگریٹ نوشی ترک کرنا چاہتے ہے مگر نکوٹین کے نشے کے آگے مجبور ہے۔ اس لئے والدین اپنے بچوں کو یہ احساس دلائے کہ سگریٹ نوشی منشیات استعمال کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے۔
اس حولے سے بچوں کے رویے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے گھریلوں ماحول کے ساتھ والدین ہی کردار ادا کرسکتے ہیں ،کیونکہ ہمارے معاشرے میں الکٹرانک میڈیا کا بڑا کردار ہے اور اسی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے سگریٹ کے ایڈورٹائزنگ میں اس کے استعمال کرنے والوں کو صحت مند ، چست اور ذہین مثال بنا کر ظاہر کرتے ہے ۔اسی لئے بچوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حقیقت سے بہت دور اور غلط ہے۔
ایک اور اہم بات جو بچوں کو ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر کوئی ان کو سگریٹ کی پیش کش کریں تو وہ اسے ہر گز قبول نہ کریں اور انھیں یہ بھی سمجھائے کہ اگر وہ ہاں کریں گے تو یہ ان کے اندر کمزوری کی علامت سمجھا جائے گا۔اور اگر وہ نہ کے ساتھ سگریٹ کو واپس کر دیں تو یہ ان کے مضبوط کردار کا ثبوت ہوگا۔ایک اور کام والدین یہ کر سکتے ہے کہ اپنے فیملی ڈاکٹر یا کسی اور مستند ڈاکٹر سے بات کر کے اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں سمجھائیں کیونکہ بچوں پر ڈاکٹر کے سمجھانے کا اثر زیادہ ہوگا۔
اسی طرح ہم اپنے آپ کو اور بچوں کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہے ۔اور آنے والے دور کے لئے ایک صحت مند نسل تیار کر سکتے ہے۔ لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی معاشرے سے برائی ختم نہیں کر سکتے مگر کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button