جب سے سید سردارحسین صاحب بحیثیت ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوا تب سے ان کے اور پارٹی کے نظریاتی ورکرز کے درمیان اختلافات روز بروز شدت اختیار کرنے لگے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ پی پی پی کے ورکرز ایم پی اے کا نام سنتے ہی آگ بگولہ ہوجاتے ہیں ۔ایم پی اے مستوج کی پوزیشن بلدیاتی انتخابات کے بعد تو مزید خراب ہوگئی ۔ اور ان سے متعلق یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ شاید وہ پارٹی کے بعض مضبوط شخصیات کو اپنے لئے مسئلہ سمجھ کر بلدیاتی انتخابات میں ہرانے میں کردار ادا کیا ہو معروضی حالات وواقعات ان افواہوں کی تصدیق کررہی ہے ۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اپریل 2015ء میں بونی کے ایک ہوٹل میں پی پی پی ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا جاتا ہے ، بعض کارکنوں کاخیال ہے کہ یہ کنونشن سابق ناظم یوسی چرون امیر اللہ کی ایماء پر بلایا گیا تھا جبکہ خود امیر اللہ سمیت بعض سنیئر رہنماؤں کی دلیل ہے کہ کنونشن تو اس وقت کے سب ڈویژن مستوج کے صدر جناب ابولیث رامداسی نے بلایا تھا۔کنونشن کے شروع ہی میں ایم پی اے اٹھ کر اعلان کیا کہ آپ میں سے کون کون بلدیاتی انتخابات میں ضلع کونسل کے لئے امیر اللہ کو ٹکٹ دینے کے حق میں ہے تو سارا مجمع یک زبان ہوکر امیر اللہ کی تائید کی پھر فرمایا کہ کتنے لوگوں کا خیال ہے کہ ضلع کونسل کی ٹکٹ ابولیث رامداسی کو ملنی چاہئے تو چند افراد نے ہاتھ کھڑا کر دیا اس کے بعد اعلان کیا کہ کتنے لوگوں کا خیال ہے کہ تحصیل کونسل کی ٹکٹ سابق تحصیل ناظم شمس الرحمن صاحب کو دی جائے اس کے جواب میں بھی بھر پور تائید ہوئی پھر پوچھا کتنے لوگوں کا خیال ہے کہ سیکرٹری سب ڈویژن مستوج سردار حسین کو تحصیل کونسل کے لئے نامزد کیا جائے تو اس کی کوئی بھر پور تائید نہ ہوئی ۔ بظاہر جمہوری انداز دکھائی دینے والے اس عمل میں بہت بڑی غیر سنجیدگی اور سازش پوشیدہ تھی ۔جو شاید ابھی تک کسی بھی ورکرز کو سمجھ میں نہیں آئی ۔ اس عمل سے جہاں ابولیث رامداسی جیسے پرانے ورکرکی عزت نفس کو مجروح کیا گیا وہیں انہیں امیر اللہ کے خلاف میدان میں اترنے پر غیر مرئی انداز سے اکسایاگیا ۔یوں 30مئی 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں وہ امیر اللہ کے مقابلے آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے اورانہیں ہرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔حالانکہ انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم اس قسم کی جذباتی اور غیر سنجیدہ انداز میں نہیں کی جاتی بلکہ کسی بھی حلقے کی سماجی وسیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کے علاوہ مخالف پارٹیوں کے اسٹریٹجی کومدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے ۔کوئی بھی سنجیدہ حلقہ آخری وقت تک اپنے پتے شو نہیں کرتے ۔جب انتخابات میں پی پی پی کے پینل کو شکست ہوئی اس وقت یہ افواہ محو گردش تھیں کہ ایم پی اے سردارحسین پی پی پی کے پینل سے خوفزدہ ہوکر خود انہیں شکست دینے میں کردار ادا کیا۔الیکشن کے دنوں میں پی پی پی کے ضلع اورتحصیل کونسل کے دونوں امیدوار ایم پی اے سردار حسین کی بچھائے گئے جھال کو سمجھ کر آزادانہ پالیسی اپنانے سے قاصر رہے اور بعض اوقات ایسا لگ رہاتھا کہ ایم پی اے انہیں سبز باغ دکھا کر مکمل طورپر اندھیرے میں رکھا ہوا ہے ۔ اس کے بعد گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے امیراللہ ہی کی قیادت میں پھر سب ڈویژن کی سطح پر پیپلز پارٹی میں نئی جان آگئی ہے ۔ جیالوں نے انہیں اگلے انتخابات کے لئے ٹکٹ دینے کی باتین بھی کرنے لگیں ۔نظریاتی ورکرز کو سبق سیکھانے کے لئے ایم پی اے مستوج نے اپنے سب سے بڑے حریف حاجی غلام محمد سے پی پی پی میں شامل ہونے کی درخواست کی اور انہیں یہ باور کرایا کہ وہ خود قومی اسمبلی کے لئے آپ (غلام محمد صاحب) پیپلز پارٹی کی ٹکٹ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہونگے ۔ اندرون ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق بلاول بھٹو کے دورہ چترال کے بعد ایم پی اے مستوج سید سردار حسین کی صوبائی ومرکزی قیادت کے سامنے پوزیشن انتہائی کمزور ہوچکی ہے جبکہ ضلعی صدر سلیم خان کے ساتھ بھی ان کا رویہ زیادہ اچھا نہیں ۔پارٹی ورکرز کی جانب سے کئی مرتبہ ان پر عدم اعتماد کےواقعات سامنے آئے ہیں ۔ سردارحسین صاحب کو اگلے الیکشن میں ٹکٹ ملنے کاکوئی امکان نہیں ۔ یوں پارٹی کے سینئر ورکرز کے خلاف گھڑا کھودنے کے بعد اب لگتا ہے کہ ایم پی اے مستوج اپنی ”پولی سیاست” کی بل بوتے میں خود اس گھڑے میں گرنے والے ہے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button