کالمز

احتساب سب کا

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے پالیسی بیان دیتے ہو ئے کہا ہے کہ احتساب سب کا ہو گا۔ یہ بہت خوبصورت اور با معنی جملہ ہے اور اتنی بار استعمال ہو اہے کہ اب اس کے معنی کھو گئے ہیں اور اس کی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ یادش بخیر ! جنرل مشرف کے دور میں قومی احتساب بیور و بنا تو اس کا پہلا نعرہ یہی تھا ’’سب کا حتساب ہو گا میرے سوا‘‘ قومی احتساب کمیشن سے پہلے سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب کا ادارہ کام کر رہا تھا اس دور میں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھے ان کا نعرہ بھی یہی تھا میرے سوا سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور حکومت میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ججوں کی سنیارٹی اور ججوں کے لئے عمر کی حد تک مسئلہ اُٹھایا وزیر اعظم کو پیشی کے لئے بلایا شاہ صاحب کا مطالبہ یہ تھا کہ میرے سوا تمام ججوں کے لئے سنیارٹی کا اصول اور عمر کی حد مقرر ہونی چاہیے۔ جنرل مشرف کے دور میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کا مسئلہ بھی یہی کہ قانون کا اطلاق میرے سوا سب پر ہو گا اور سچ پو چھے تو جنرل مشر ف کا مسئلہ بھی یہی تھا ’’میرے سوا‘‘ جس کا بھی احتساب ہو گا ٹھیک ہی ہو گا۔ عمران خان کو پاکستان کی سیاست میں ’’مسٹر کلین ‘‘کانام دیاگیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سب سے ذیادہ بے داغ شخصیت کہا گیا۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں اپنی پارٹی کی حکومت بنائی۔ حکومت نے احتسا ب کمیشن قائم کیا احتساب کمیشن نے کام شروع کیا تو کمیشن کو بتا یا گیا کہ آزادی کامشہور مقولہ یاد رکھو تمہاری آزادی میری ناک ک حد تک ہے تم ہاتھ پھیلا سکتے ہو مگر جب تمہار ہاتھ میری ناک کی حد ود میں داخل ہو گا تو تمہاری آزادی ختم ہو جائے گی۔ اس وجہ سے چراغ تلے اندھیرہ کا مقولہ اردو میں اور’’انڈر دی نوز‘‘کا مقولہ انگریزی میں بولا جاتا ہے۔ چنانچہ خیبر پختونخوا کا احتساب کمیشن دم توڑگیا۔ اب اُس کے مزار پر لوگ منتین ماننے کے لئے جاتے ہیں پھول نچھاور کرتے ہیں اور چادر چڑ ھاتے ہیں فیض احمد فیضں نے بڑی پیاری بات کہی
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تیری یاد پر چڑھا آئے
باندھ کر آرزوکے پلے میں
بنجر کی راکھ اور وصال کے پھول
مگر دوست اور احباب کا ایک وسیع حلقہ اس با ت پر مصر ہے کہ خیبر پختونخوا کا احتساب کمیشن مرا نہیں اس کو باقائدہ منصو بے سے شہید کیا گیا ہے۔ یہ افغانستان میں ایک بڑے قصبے کے چھوٹے سے محلے کا قصہ ہے ایک شخص کا چچا شہید ہوا اُس نے مزار بنایا اور مجاور بن کے بیٹھ گیا جب آمدنی شروع ہوئی تو شہید کا بیٹا آیا اُس نے دعویٰ کیا شہید میرا باپ تھا تم مجاور بننے والے کون ہوتے ہو جھگڑا ہوا جرگہ نے شہید کے سگے بیٹے کو مجاور قرار دیا تو نکالے گئے مجاور کی غیر ت جاگی اُ س نے بھرے جرگے میں اعلان کیا کہ اگر میں نے اپنے باپ کو شہید کر کے اس سے بڑا مزار نہیں بنایا تو میرا نام پختون نہ رکھنا اگلے دن اس نے اپنے باپ کو قتل کرکے شہید کا مزار بنایا اور جرگہ کے اصول کے مطابق سگا بیٹا مجاور بن گیا ساغر صدیقی نے ایسے ہی شہید کا ذکر غزل کے شعر میں کیا ہے ؂
شہید نا ز کی تربت پہ حرتیں
بجھا سا اک دیا ہے دو سوگوار پھول

ہم کبھی کبھار خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن کے مزار پر دیا جلاتے ہیں پھول چڑھا تے ہیں مگر ہماری انتی ہمت نہیں ہوئی کہ ایک فریم مزار پر لگادیں فریم کے اندر جلی حروف میں لکھا ہو ’’احتساب سب کا ہوگا میرے سوا ‘‘احتساب کا عمل ہمارے ہاں نیا نہیں خاصا پرانا ہے فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی کسی خوب صورت نام سے احتساب کا عمل شروع کیا تھا اینٹی کرپشن کے زبردست قوانین وضع کئے تھے 303 افسروں کو ملازمتوں سے فارغ کیا تھا اور بے شما رسیاستدانوں کو EBDO کے تحت سیاست میں آنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا اُن کے احتساب کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے صرف میرا اور میرے بچوں کا نہیں یعنی میرے سوا سب کا احتساب مجھے قبول ہے اس لئے کہتے ہیں شیر جنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈہ دے چاہے بچہ دے عدالت عظمی کا ایک مشہور فیصلہ آیا تھا یہ 2013 ء کی بات ہے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ لوگ دوبارہ سرکاری ملازمت یا نفع بخش عہدہ نہین لے سکتے اس حکم کے تحت 2013 ء میں یونیورسٹیوں سے سینکڑوں سینئر پروفیسروں کو نکال دیا گیا ایک پروفیسر نے عدالت سے رجو ع کیا کہ فلاں فلاں جرنیلوں اور ججوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد رجوع کیا کہ فلاں فلاں جگہوں پر نفع بخش سرکاری عہدے تنخواہ اور مراعات کے ساتھ حاصل کئے عدالت نے ابزرویشن دی کہ مذکورہ حکم کا اطلاق ججوں اور جرنیلوں پر نہیں ہوتا ہمارے ایک کارٹونسٹ دوست نے کارٹون بنایا ہے اس میں بہت بڑا بورڈ آویزاں ہے جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہے ’’احتساب سب کا ‘‘مگر نیچے چھوٹے حروف میں تحریر ہے ’’میرے سوا‘‘دور سے صرف بڑے حروف نظر آتے ہیں قریب آکر چشمہ لگا کر غور سے دیکھا جائے تو میرے سوا بمشکل نظر آتا ہے۔ پروفیسر شمس النظر فاطمی فرماتے ہیں عقل کے اندھوں کو قریب جا کر بھی نظر نہیں آتا وہ بڑے حروف کے سحر میں گرفتا ر رہتے ہیں
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button